ایک دن جان صاحب کے ساتھ

جمعہ 17 نومبر 2017

Shahid Sidhu

شاہد سدھو

ہم صبح کے دس بجے نئے پاکستان کی سیاسی جماعت کے چیئرمین جان صاحب سے ملنے پہاڑی پر واقع ان کے ’غریب خانے‘ پہنچے۔ غریب خانے کے مرکزی گیٹ پر شیرو نے لپک کر ہمارا استقبال کیا۔ شیرو اپنے درجن بھر ٹائیگروں کے ہمراہ بنفسِ نفیس ہمارا استقبال کرنے کے لئے صبح سے منتظر تھے۔ ہم شیرو اور ان کے ٹائیگروں کے گھیرے میں کانپتے لرزتے آگے بڑھے تو سوئمنگ پول کی طرف سے چیف آف اسٹاف آتے نظر آئے، عین اور ف چودھری ان کے دائیں بائیں تھے۔

تینوں نے ہم سے گرم جوشی سے ہاتھ ملائے اور گلے ملے۔ یہ تینوں ہمیں ساتھ لیکر سوئمنگ پول کی طرف بڑھے۔ ہم نے دیکھا کہ جان صاحب سوئمنگ پول کے کنارے مصلہ بچھائے بڑی عرق ریزی سے نماز پڑھ رہے تھے اور سامنے چمکتے سورج سے ان کی آنکھیں چندھیائی ہوئی تھیں۔

(جاری ہے)

جان صاحب نے مصلے پر بیٹھے بیٹھے ہی سر کی جنبش سے ہمارے سلام کا جواب دِیا۔ ابھی جان صاحب نماز سے فارغ ہو کر اٹھ ہی رہے تھے کہ نوکروں کے گھروں سے ان کے لئے ناشتہ آگیا۔

ناشتہ میں دیگر لوازمات کے علاوہ مرغ کی یخنی، ابلے ہوئے دیسی انڈے، شہد، مکھن، پنیر، پھلوں کا تازہ رس،راء سالمن، اور گوشت کے پارچے بھی شامل تھے۔ چیف آف اسٹاف کی درخواست پر ایک نوکر نے ہمیں بھی بغیردودھ اور چینی والی چائے کا کپ پیش کِیا۔ناشتے کے بعد جان صاحب ہم سے گفتگو کے لئے تیار ہوگئے، انہوں نے اُسی ٹی شرٹ کے اوپر ایک اور گلابی رنگ کی شرٹ پہن لی اور گلے میں پیلا مفلر لپیٹ لِیا۔

چیف آ ف اسٹاف اور عین اور ف چودھری نے جان صاحب کی مختلف ’پوزوں‘ میں کھینچی گئی بڑی بڑی تصویریں لاکر ان کی کرسی کے پیچھے اور دائیں بائیں رکھ دیں۔ہم نے سوال کیا ’ جان صاحب آپ صبح اٹھ کر سب سے پہلا کام کیا کرتے ہیں‘۔ جان صاحب نے جواب دیا، ’ دیکھیں حامد! جب میں انگلینڈ گیا تو میری عمر سترہ سال تھی۔ میں نے دس سال میں دو سو کاوٴنٹی میچ کھیلے۔

اس زمانے میں کاوٴنٹی میچ کی فیس بیس پاونڈ ملتی تھی۔ میں نے اسی فیس سے فلیٹ خریدا،اوئے نواز شریف اِس قوم کو میٹرو نہیں چاہئیے‘۔ اس کے بعد جان صاحب ہمیں ’غریب خانے‘ کے ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ ڈرائنگ روم کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، چاروں دیواروں پر جان صاحب کی بڑی بڑی، درمیانی درمیانی اور چھوٹی چھوٹی تصویریں لگی تھیں۔

وسیع و عریض ڈارائنگ روم کی مغربی دیوار کی جانب شیرو اور دیگر ٹائیگرز اور ٹائیگریسز پاوٴں پسارے بیٹھے تھے ۔ جان صاحب کے صوفے پر تشریف رکھتے ہی چیف آف اسٹاف اور عین اور ف چودھری نے صوفے کے پیچھے ، دائیں بائیں اور سائڈ ٹیبلز پر جان صاحب کی تصویریں سجا دیں۔ ہم نے پوچھا جان صاحب ’ آپ نوکروں کے گھروں سے اتنا سادہ کھانا کھا کھا کر زندگی گذار رہے ہیں، اور آپ کی ہمشیرگان اور دیگر قریبی عزیز ، ہسپتال کے بورڈ ممبر ہوتے ہوئے دبئی اور دیگر ممالک میں جائیدادوں اور آف شور کمپنیوں کے مالک اور ارب پتی بن گئے ہیں۔

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟‘ جان صاحب نے ہمیں شعلہ بار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا، ’ دیکھیں کاشف! جب میں نے پہلی بار ورلڈ کپ کو دیکھا تو میری عمر اٹھارہ سال تھی، جب کھیلا تو بائیس سال،اوئے نواز شریف! میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں‘۔ چیف آف اسٹاف نے جان صاحب کو یاد دِلایا کہ انہوں نے مقامی فائیو اسٹار ہوٹل میں پارٹی ورکروز کنوینشن میں جانا ہے اور اس سے پہلے خطاب کی ریہرسل کرنی ہے۔

جان صاحب نے ڈائننگ ٹیبل کے گرد پڑی خالی کرسیوں کے سامنے ریہرسل شروع کردی ، ’ اوئے ورلڈ کپ ، اوئے نواز شریف! اوئے مولانا ‘ ۔ جان صاحب نے تقریر کرتے ہوئے اپنا رخ مغربی دیوار کی طرف کر لِیا اور چنگھاڑتے ہوئے بولے ، ’ میرے ٹائیگرز اور ٹائیگرسز! میں نے ہسپتال بنایا۔ سہمے ہوئے ٹا ئیگرز اور ٹائیگرسز نے بھوں بھوں کر کے تسلیم کِیا۔

اس کے بعد جان صاحب نے اپنی سہراب سائیکل کو ’ ٹاکی‘ ماری اور ورکرز کنوینشن میں جانے کے لئے تیا ر ہو گئے۔ چیف آف اسٹاف اور عین اور ف چودھری نے بھی اپنی پیکو اور سہراب سائیکلوں کے کُتے چیک کئے اور باہر کا رُخ کِیا۔ گیٹ کے پاس ہی ’غریب ترین‘ اور ’تھوک والی سرکار‘ ہانپتے ہوئے ِمل گئے ، دونوں ترامڑی والی ویگن میں ککڑ بن کے آئے تھے۔

’غریب ترین‘ نے بتایا کہ جہازپر ان کا کروڑ پتی باورچی اپنے سسرال گیا ہُوا ہے اور رینج روو ر پرا نکا کروڑ پتی مالی اللہ ڈتا اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ پر گیا ہُوا ہے۔ دونوں کو عین اور ف نے ڈنڈے یا کیریئر کی آفر دی۔دونوں کا خیال تھا ڈنڈہ اور کیریئر دونوں ضروری ہیں ، لہِٰذا طے پا یا کہ آدھا سفر ڈنڈے پر اور آدھا کیریئر پر ہوگا۔ ہم بھی چینل کی گاڑی پر چاروں انڈیکیٹر لگائے ان کے ساتھ ساتھ روانہ ہوئے۔

چلتے چلتے ہم نے گاڑی کے شیشے سے مُنہ نکال کے جان صاحب سے بلند آواز میں پُوچھا، ’ کے پی کے میں بھاری بیرونی سرمایہ کاری کیوں نہیں آئی اور بیرونی ممالک سے لوگ ملازمتوں اور تعلیم کے لئے کے پی کا رُخ کیوں نہیں کر رہے‘۔ جان صاحب کی تیوریوں پر بل پڑ گئے اور بولے ’ اس ملک میں کروڑوں بچے اسکول سے باہر ہیں، روز دو سو ارب کی کرپشن ہورہی ہے، اوئے! شوباز شریف اوئے نواز شریف‘۔

فائیو اسٹار ہوٹل پہنچ کر جان صاحب نے اپنی سائیکل کو زنجیری والا تالا لگا یا اور سائیکل ہوٹل کے سیکیوریٹی انچارج کرنل ریٹائرڈ احسان کے حوالے کی۔ جان صاحب کو دیکھتے ہی ورکرز نے گو نواز گو کے نعرے لگائے۔ چلی سے آئے ہوئے شیخ اپنی تقریر سے برگرانِ ملت کا لہو گرما رہے تھے۔ جان صاحب نے اہم پالیسی امور پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا، میں نے کرکٹ کھیلی، میں نے کاونٹی کھیلی، میں نے ’بیٹنگ‘ کی، اوئے نواز شریف!میں نے ورلڈ کپ جیتا، میں نے ہسپتال بنایا۔

کارکن نچنے نوں دل کردا پر دھمالیں ڈال رہے تھے۔ جان صاحب نے مزید فرمایا میں نے ورلڈ کپ ، اوئے نواز شریف، اوئے ڈیزل، میں نے ورلڈ کپ، اوئے نواز شریف۔ تقریر کے بعد جان صاحب برابر والے بورڈ روم میں تشریف لے گئے۔ بورڈ روم میں پارٹی کا تھنک ٹینک موجود تھا۔ معروف کالم نویس خلیفہ جی بھی موجود تھے۔ نوکروں کے گھروں سے دوپہر کا کھانا آچُکا تھا۔

جان صاحب کے نوکر بھی بڑے کھاوٴ پیو ہیں۔جہاں کھانے میں بھُنے ہوئے سالم بکرے، چرغے، تیتر اور بٹیر شامل تھے وہیں خلیفہ جی کے لئے دیسی مرغی کا سوپ بھی موجود تھا۔ کھانے کے انصاف کے دوران جان صاحب اپنے بلیک بیری پر مسلسل میسیج بھی کر رہے تھے۔چیف آف اسٹاف اور ف چودھری وقفے وقفے سے جان صاحب کے موبائل کی طرف ’ جھاتیاں‘ مار رہے تھے۔

چیف آف اسٹاف کے چہرے پر پھیلی حیوانی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ یہ بھی میسیجز تک رسائی رکھتے ہیں۔ کھانے کے انصاف کے بعد جان صاحب نے خواتین کارکنان کے ساتھ سیلفیاں بنوائیں۔ جان صاحب فرما رہے تھے مجھے بہت شرم آتی ہے، میں بہت شرمیلا ہوں، جلدی کریں۔ وہاں ایک ڈڈو جیسا آدمی پُرزور گواہی دے رہا تھا کہ جان صاحب بہت شرمیلے ہیں۔ سہ پہر کے وقت جان صاحب چائنا کے اسٹیو جابز کے حلقے میں پہنچے جہاں انہوں نے بطور ممبر اسمبلی وصول کئے گئے کروڑوں روپے کے فنڈز سے لگوائی گئی پانی کی ٹونٹی کا افتتاح کیا ۔

اِس موقع پر جان صاحب نے اپنے ہاتھوں کی ’بک‘ بنا کر ٹونٹی کا پانی بھی پِیا۔ایف سیون سے آئی ہوئی ٹائیگرنیاں ’کتنا سادہ ہے میرا کپتان ‘ کہ کر اِ س ادا پر مری جارہی تھیں۔جان صاحب نے اس موقع پر خطاب میں فرمایا کے پی کے کے عوام بہت امیر ہو چُکے ہیں، کے پی کے ایشین ٹائیگر بن چُکا ہے، اوئے نواز شریف ! اور کے پی میں تعلیم، صحت کی سہولیات سب کچھ مفت ہے اوئے نواز شریف ۔

کے پی میں اتنی غیر ملکی سرمایہ کاری ہو رہی ہے کہ عوامی لیٹرین بھی امریکی سرمایہ کاری سے بن رہے ہیں یہ سُنتے ہوئے اسلام آبادی ٹائیگرز اور ٹائیگرنیاں جھوم جھوم کر ’جب آئے گا کپتان‘ پر ٹھمکے لگا رہی تھیں۔ واپس پہاڑی والے غریب خانے‘ پہنچے۔ جان صاحب نے ورزش کی اور گیزر کے پانی سے نہایا۔ رات کے کھانے سے پہلے ہی کے پی کے وزیر خالص شہد کی بوتلیں لیکر پہنچ گئے۔ ہم نے شہد چکھنے کی کوشش کی مگر بوتلیں ہماری پہنچ سے دُور رکھی ہوئی تھیں۔ ہم نے واپسی کا قصد کیا تو جان صاحب نے ہمیں کُرسی سے کھڑے ہو کر رُخصت کِیا اور شیرو ہمیں گیٹ تک چھوڑنے آیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :