کون اعتبار کرے گا!

بدھ 15 نومبر 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

18نومبر کوصادق آباد کی 82ویں سالگرہ ہے ۔میں نے صاد ق آباد کوچھتیس سال کے عالم شباب میں دیکھا تھا۔تب میری اپنی عمر سات سال تھی۔ ان دنوں سکول سے آنے کے بعد ہماری سب سے بڑی تفریح باہر کھڑے ہوکر باربرداری والے اونٹوں کی قطاروں کودیکھنا اور گنتی کرنا ہوتا۔ عام طورپر ہر قطار میں سو کے لگ بھگ اونٹ ہواکرتے تھے ۔سب سے اگلے اونٹ کے گلے میں گھنٹی بندھی ہوتی اور پھر اسکے پیچھے قطار میں سب اونٹ ایک دوسرے سے بندھے ایک نظم وضبط کے تحت رواں دواں رہتے۔

اونٹوں پر گندم،کپاس اور دوسری اجناس کا بوجھ ہوتا جو شہر کی غلہ منڈی پہنچانے آتے۔ کبھی کبھارچارسے پانچ اونٹو ں پر جنگل کی سوکھی لکڑیاں ہوتیں جوچولہوں میں جلانے کے کام آتیں۔ہم سنا کرتے تھے کہ ہمارے ایک ہمسایہ کرنل مزاری کے پاس پرانا ساویسپا ہے مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے نا وہ ویسپا کبھی دیکھا اور نا ہی اپنے بچپن میں ٹرین کے علاوہ کسی قسم کا ’آٹو وھیکل ‘شہر میں دیکھا تھا۔

(جاری ہے)

مقامی سطح پر اشیاء کی نقل وحمل کیلئے ’انسان گاڑی‘استعمال کی جاتی تھی۔بوریوں،کنستروں سے لدا ہوا بڑا ساررہڑا‘جس کو دومزدور کھینچ رہے ہوتے۔ چند بائی سائیکل ،اسی طرح پورے شہر میں چندگھروں اور غلہ منڈی کی ایک دودوکانوں میں ٹیلی فون ہوا کرتا تھا۔ہم بہن بھائی اور محلے کے بچے جب اونٹوں کی قطاروں کی گنتی سے تھک جاتے تو’بے بی‘پارک کی طرف چل دیتے۔

صادق پارک کے پہلو میں واقع ’بے بی پارک‘ میں شہر بھر کے معدودے بچوں کی تفریح کیلئے تمام اسباب موجود تھے۔ جھولے،پینگیں،سلائیڈز اور پھولوں سے لدھی ہوئی باڑیں۔بچوں سے زیادہ تتلیاں اپنے رنگ بکھیرنے چلی آتیں تو پھر ہماری دوڑیں لگ جاتیں۔تتلیاں فضاؤں کورنگین سے رنگین تر کرتی جاتیں،بچوں،پھولوں اور تتلیوں کی آنکھ مچولی کامیدان وسیع تھا۔

عدالت ان دنوں اس کھال سے کافی پیچھے ہوا کرتی تھی جوگرلز ہائی سکول ،مویشی اسپتال ،عدالتی اہلکاروں کی رہائش گاہوں کے سامنے سے گزرکر کینال ریسٹ ہاؤس کی طرف پانی پہنچانے کیلئے رواں دواں رہتا۔کھال کے متوازی پھولوں اور پودوں کے قطعات ہی ان تتلیوں اورہم بچوں کی دلچسپی کا مشترکہ علاقہ تھا۔سکول سے چھٹی کے بعد بچے مویشی اسپتال کی بیرونی دیوار والے پھولوں کے تختے سے گلابی رنگ کے پھولوں کی پنکھڑیاں توڑ کرایک اسکو ہاتھ میں لیکرمسلتے تو گلابی رنگ کاپانی بن جاتا ، دوسرے پھول کی ڈوڈی کو گلابی رنگ کے پانی میں بھگوکر ہم اپنی اوردوستوں کی شرٹوں پرچھاپے لگاتے۔

پھولوں کے اس شہر میں چار پارک ہوتے تھے۔ریلوے روڈ اور ریل بازار کو ملانے والا’ سرصادق پارک ‘اپنے بلند وبالا پام کے درختوں ،چار حصوں میں بٹے پھولوں کے تختوں اور انکو تقسیم کرنے والی پختہ اینٹوں کی فٹ پاتھ، جس کے درمیان میں اس پارک کی سنگ بنیا د والی تختی نصب تھی۔شہرکے غربی حصے میں شہر کی مناسبت سے وسیع لائبریری تھی،جسکے وسیع اور سرسبز میدانوں اورپھولوں سے بھری روشوں کی وجہ سے اسے لائیبریری پارک کہا جاتا تھا۔

اس پارک کے وسط میں سنگ مرمر کاخوبصورت فوارہ تھا ۔اس فوارے کے عقب میں بھی گھاس کے وسیع میدان تھے جو پھاٹک والی سڑک سے کچھ ہی پیچھے ختم ہوتے تھے۔بڑے سیاسی جلسے لائبریری پارک میں ہی منعقد ہوا کرتے تھے۔میونسپل لائبریری میں مقررہ کردہ اوقات میں اخبارات اور کتب بینی کے لئے کافی لوگ آتے تھے،لائیبریری کی ممبرشپ میں سینکڑوں لوگ تھے۔ چوتھاچھوٹا سا پارک‘ اسٹیشن کے سامنے تھا،اسکی بناؤٹ کے مطابق اسکو ڈی پارک کہا جاتا تھا۔

دیہی علاقوں اورقرب وجوار سے آنے والے مسافر خریداری کے بعد ریل گاڑی، یا تانگے کے انتظار میں یہیں بیٹھتے ،کھاتے پیتے اور آرام کیا کرتے تھے۔مجمع باز ‘مداری اور کرتب دکھانے والے بھی اپنے فن کا مظاہرہ یہیں پر کیا کرتے تھے۔کم وسائل کے باجوداس وقت کا صادق آبادایک صاف ستھرا شہر ہوا کرتا تھا۔تب کوئی بھی شخص کسی بھی بازار کے دونوں اطراف میں موجود فٹ پاتھ پرباآسانی پیدل چل سکتا تھا۔

ریل بازار میں گھنے سایہ دار سرس کے درخت ہو اکرتے تھے۔ سرشام ہی شہر کی بیرونی شاہراہوں میں چھڑکاؤ کیا جاتا۔ جہاں نالیاں تھیں وہاں تو سینٹری ورکر اور ماشکی ایک ساتھ صفائی کیا کرتے تھے،سارے شہر کی نالیوں کو پانی کے بہاؤ سے صاف کیا جاتا،نالیوں کے کناروں پر چونا چھڑکاجاتا۔1935ء سے بنے ہوئے شہر کے جنوبی حصے میں نکاسی آب کیلئے بچھائے گئے سیوریج کے نظام میں 80سال گزرنے کے باوجود کبھی خلل نہیں آیا ،کبھی کسی نے ریلوے روڈ،ریل بازار،مین بازار میں گٹروں کاپانی کھڑا نہیں دیکھا۔

واٹرسپلائی کا نظام موثراورباقاعدہ تھا،تب پانی صاف اور شفاف آیا کرتا تھا۔موسموں کے بدلنے کے درمیانی حصوں میں جراثیم کش اور مکھی مچھر مارنے والے سپرے کئے جاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ شہر زیادہ منصوبہ بندی کے ساتھ خوبصورت ،وسیع اور جدید بنائے جاتے ہیں مگر یہ قانون ہمارے شہر پر منطبق ہوتا نہیں دکھتا۔82سال کے بعد صادق آباد شہر بوڑھا اور نحیف دکھائی دیتا ہے۔

شہر کے چہار اطراف عمومی طور پربے ہودگی ،بے ترتیبی اور کسی منصوبہ بندی سے محروم ،صرف انوسٹمنٹ کے نقطہ نظر سے بنائی جانے والی نام نہاد ہاوسنگ سوسائیٹیوں کے جلو میں کچی آبادیوں کا ایک طویل سلسلہ اپنی کم مائیگی پر ماتم کناں دکھائی دے رہا ہے۔یہ کچی آبادیاں دیہی زندگی کی بربادی کے بعد ادھوری ہجرت کی کہانی بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں۔زرعی سماج ‘منڈی کی معیشت کے پاٹوں میں پس کر اپنی فطری ساخت کھوچکاہے۔

غیر منافع بخش چھوٹے پیمانے کی زراعت ہا رمان کر اپنا وجودکھوچکی ہے۔ رزق اگلنے والی زمینیں‘ قرضوں اور فاقوں کی فصلوں کوپروان چڑھا کر پرانے مکینوں کوشہروں کی طرف دھکیل چکی ہیں۔اور’شہر‘اب اپنے پرانے مکینوں کا بوجھ تک برداشت کرنے سے عاجز آچکے ہیں۔سرمایہ داری نظام کی زوال پذیری اور پاکستان جیسے ملک کے بانجھ حکمرانوں نے شہروں کو سماجی زندگیوں سے محروم کرکے صرف لوٹ کھسوٹ کے مراکز ، روپے پیسے ،دکھاوے اورمصنوعی پن سے لبریز زندگی کے کھنڈر بنادیے ہیں۔

دیہی آبادیوں کی شہروں کی طرف ہجرت نامکمل ہی رہ گئی جسکی تکمیل کے امکانا ت تک نہیں ہیں۔ٹبوں ،ٹبیوں اور کچی آبادیوں پر زندگیاں‘ حکمران طبقے کے تمام سطحوں کی بے حسی،نااہلیت اور سفاکیت کوبے نقاب کرنے کیلئے کافی ہے۔82سال پہلے بنایا جانے والا صادق آباد شہر اس وقت کی آبادی کی مناسبت سے بہترین ٹاؤن پلاننگ کاغمازتھا،مگراب آٹھ عشروں کے بعد سب کچھ بدل چکاہے۔

آبادی دس ہزار سے تجاوز کرکے تین لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے،مگرانفراسٹرکچر تمام تر کاوشوں کے باوجودپچاس ہزار آبادی والے شہرسے زیادہ وسعت نا اختیا رکرسکا۔ریلوے لائن کے آرپار آبادیوں کو ملانے والے چالیس سال پرانے اوربرج اورانڈرپاس‘ ٹریفک کی ضروریات سے کسی طور مناسبت نہیں رکھتے ۔راستے ،شاہراہیں اورپل‘ شہری انتظامیہ اور عوامی نمائندگان کی ذہنی استعداد کی طرح سکڑ چکے ہیں۔

نام نہاد عوامی نمائندگان کی غالب اکثریت نے اپنے ایوانوں میں اٹھ کر کبھی یہ تک نہیں کہا کہ ہم ایک ایسے دورافتادہ ،پسماندہ اور عہد سے مطابقت رکھنے والی ترقی سے عاری علاقے کے لوگوں کے نمائندگان ہیں، جہاں کبھی سیلاب بربادی لاتے ہیں یا پھر خشک سالی زراعت کو نقصان پہنچاتی ہے۔یہاں پر نہری نظام کووسیع کرنے کی ضرورت ہے،یہاں پر چولستان کو مقامی بے زمین ہاریوں میں تقسیم کرنے اور آبپاشی کے نئے نظام کووضع کرنے کی ضرورت ہے۔

ریت کے ٹیلوں کو آبادکاری کیلئے وسائل درکار ہیں ۔ان گونگے بہرے اراکین صوبائی و قومی اسمبلی کوکبھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے علاقوں کی بہتری،جدت اورترقی کیلئے ایک لفظ بھی بولیں یاکچھ عملی اقدام اٹھاسکیں۔علاقے میں ماحولیاتی آلودگی کاباعث بننے والے ٹائیرجلا کرتیل بنانے والے کارخانوں کی بھرمارہے، شہرکے قرب میں کپاس کی دھول اڑانے والی جننگ فیکٹریاں ہیں، سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اور مٹی سے اٹی ہوئی ہیں۔

کھاد کے کارخانے فضا میں امونیا خارج کرتے اور زہریلا پانی نہر میں چھوڑ دیتے ہیں۔ بارش نا ہو تو ہر طرف دھول اور مٹی کاراج ہوتا ہے اور بارش ہوجائے تو سڑکوں پر پانی گڑھے ڈالنے تک کھڑا رہتا ہے،پھر دھول اپنا رنگ ڈھنگ دکھاتی ہے۔ آج 2017ء میں صادق آباد کے شہریوں کے سامنے اگرستر کی دھائی کے پھولوں،تتلیوں،فواروں،پارکوں سے مزین،کشادہ سڑکوں،گزرنے کے قابل فٹ پاتھوں،شہر میں لگے ہوئے سایہ داردرختوں،وسیع وعریض لائبریری۔صاف ستھرے ماحول کا ذکر کیا جائے تو کون اعتبار کرے گا!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :