اگر ’’وہاں‘‘ شہباز شریف ہوتے؟

بدھ 15 نومبر 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کے درمیان عوام کی خدمت کا مقابلہ ہو تا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کو یہی یقین دلاتی ہیں کہ وہ ان کی زیادہ بہتر خدمت کر سکتی ہیں۔ مقابلہ عوامی خدمت کا ہی ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں سیاسی جماعتیں عوام کو اس طرف آنے ہی نہیں دیتیں۔ عوام کو ایسے مسائل میں الجھا دیا جاتا ہے جن کا براہ راست ان سے کوئی تعلق نہیں ہو تا۔

جب تک سیاسی جماعتوں میں عوامی خدمت کا مقابلہ نہیں ہو گا تب تک ملک میں جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکتی۔
آج کل ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک نوجوان لڑکی کی بے حرمتی کے واقعہ کا بہت شور ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ جہالت کی وجہ سے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ جرگہ اور پنچائت کے نام پر طاقتور جاگیردار اور چوہدری ایسے فیصلے کرتے نظرآتے ہیں۔

(جاری ہے)


یہ درست ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام بروقت اور فوری انصاف دینے میں کامیاب نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کی وجہ سے متبادل عدالتی نظام کا وجود قابل قبول نہیں ہے۔ لوگ فوری انصاف یا من پسند انصاف کے لیے متبادل نظام کی طرف رجوع کرتے ہیں۔لیکن میرے لیے زیادہ افسوسناک اس واقعہ کے بعد کے پی کے کی حکومت کا رویہ ہے۔ پنجاب پولیس کو ڈاکیہ کہنے اور کے پی کے پولیس کو اسکاٹ لینڈ یارڈ کہنے والے عمران خان کیا اس واقعہ پر کے پی کے پولیس کے کردار پر روشنی ڈالنا پسند کریں گے۔

یہ درست ہے کہ بہت سے واقعات رونما ہو جاتے ہیں، جرم ہو جاتا ہے۔
ریاست کا کام ہے کہ جرم کے ہونے کے بعد مجرم کو پکڑنے اور مظلوم کی داد رسی کے لیے فوری اقدامات کرے۔ انصاف کی فراہمی ہی معاشرے میں جرائم کی روک تھام کا باعث ہے۔ میرے نزدیک اس جرم کا سرزد ہونا اتنا بڑا جرم نہیں ہے جتنا بڑا جرم اس جرم کے بعد رہاستی اداروں کی بے حسی ہے۔ آپ مانیں کہ اس واقعہ نے کے پی کے پولیس کا پول کھول دیا ہے، نہ صرف کے پی کے پولیس کا پول کھل گیا ہے بلکہ کے پی کے حکومت کی بے حسی اور نااہلی بھی عیاں ہو گئی ہے۔

کیا یہ درست نہیں کہ اگر ایسا واقعہ پنجاب میں ہوا ہوتا تو نہ صرف پنجاب پولیس کا ریسپانس بہتر ہو تا بلکہ پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا جواب بھی زیادہ موثر ہوتا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کے پی کے کی مثالی پولیس نے کمال پھرتی دکھاتے ہوئے پہلے تو متاثرہ لڑکی اور اس کے اہل خانہ کے خلاف پرچہ درج کر دیا بلکہ ملزمان کو بچانے کے لیے لڑکی سے دباؤ میں بیان بھی دلوایا۔

واقعہ کے پندرہ روز تک ملزمان کا حامی تھانیدار اسی تھانہ میں تعینات رہا بلکہ اس کے خلاف نہ تو کے پی کے پولیس کے اعلیٰ عہدیداران اور نہ ہی حکومت نے کوئی ایکشن لیا۔ سب اس ظلم کے خاموش حمائتی بنے رہے۔ نہ تو کسی حکومتی عہدیدار اور نہ ہی کسی پولیس عہدیدار نے اس مظلوم لڑکی سے ملنا گوارا کیا۔ یہ کیسی تبدیلی ہے جس میں مظلوم سے ملنے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں تھا۔


میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ پنجاب ہو تا تو ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔ اگر یہ پنجاب ہوتا اور شہباز شریف ہی وزیر اعلیٰ ہوتے تو نہ صرف وہ پورے کا پورا تھانہ معطل ہو جاتا۔ متعلقہ تھانیدار پابند سلاسل ہو تا۔ اس ضلع کے اعلیٰ پولیس عہدیدار بھی فارغ ہو جاتے۔وزیر اعلیٰ اگلے دن ہی اس متاثرہ لڑکی کے گھر پہنچ جاتے۔ اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم ہو جاتی۔

مقامی سیاسی اثر و رسوخ ختم کر دیا جاتا۔ بلکہ مقامی سیاستدان بھی قانون کی گرفت میں آجاتے۔ متاثرہ خاندان کی حکومت کی جانب سے بھر پور مدد کی جاتی۔ انھیں تحفظ بھی دیا جاتا۔
لیکن دوسری طرف آپ کے پی کے کی حکومت کو دیکھ لیں۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک جو شادیوں پر جانے کے لیے تو سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال کر لیتے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ا س متاثرہ لڑکی کی داد رسی کے لیے اس کے گھر نہیں جا سکے ہیں۔

کے پی کے کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پولیس کو خود مختار کر دیا ہے ۔ یہ کیسی خود مختاری ہے کہ آئی جی پولیس بھی موقع پر نہیں پہنچے۔
آخر کوئی تو غیبی طاقت تھی جس نے آئی جی کوایکشن لینے سے روکے رکھا۔ موقع پر جانے سے روکے رکھا۔ متاثرین کو انصاف دینے سے روکے رکھا۔مجھے عمران خان ایسے ہٹ دھرم والدین کی طرح لگتے ہیں جو بے وجہ ہی اپنے نا لائق بچے کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔

اس کی نا لائقی کو چھپاتے ہوئے ہر وقت اس کی لیا قت کے قصیدے پڑے رہتے ہیں۔ نتیجہ آنے پر نالائقی سامنے آبھی جائے تو امتحانی نظام اور اساتذہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمارے بچے نے تو جواب ٹھیک لکھے تھے، استاد نے ٹھیک چیک نہیں کیے۔
ڈیر ہ اسماعیل خان کا واقعہ ایک طرف کے پی کے حکومت کی بے حسی اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دوسری طرف کے پی کے پولیس کی تمام تر تعریفیں کا پول بھی کھول رہا ہے۔ کیا عمران خان کو اس متاثرہ لڑکی کی گھر نہیں جانا چاہیے تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا واقعہ پنجاب میں رونما ہوا ہوتا تو عمران خان اگلے ہی دن شریفوں سے اپنی سیاسی دشمنی کا بدلہ لینے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے وہاں پہنچ جاتے۔ لیکن دوسری طرف مجھے بھی یقین ہے کہ عمران خان سے پہلے شہباز شریف خود ہی وہاں پہنچ جاتے۔


وہ جو فوری نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں، ایک لڑکی کو تو انصاف دے نہیں سکے ہیں۔ ایک غریب لڑکی چیخیں اور سسکیاں ایسے دبا دی گئی ہیں کہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کو سنائی نہیں دے رہی ہیں۔ مجھے سراج الحق سے بھی گلہ ہے کہ وہ بھی اس متاثرہ لڑکی اور اس کے خاندان کی داد رسی کے لیے ڈیر اسماعیل خان نہیں گئے۔ حالانکہ وہ پنجاب میں ایسا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن بھی اس خاندان کے گھر نہیں گئے ہیں۔ ہماری دینی قیادت کی خاموشی بھی افسوسناک ہے۔
اگر عوامی خدمت ہی جمہوریت میں کارکردگی کا واحد معیار ہے۔ تو پھر یہ واقعہ چیخ چیخ کر کے پی کے حکومت سے سوال کر رہا ہے۔ آپ کہاں ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :