حیات بخش

ہفتہ 11 نومبر 2017

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

وہ 2007 میں پاکستان سے سویڈن آئی اور سٹاک ہوم یونیورسٹی میں انٹر نیشنل ماسٹرز ڈگری پروگرام کے تحت سوشل پالیسی اور سوشل ورک میں داخلہ لیا۔ اگلے سال اس کی شادی ہوگئی اور زندگی ہنسی خوشی آگے بڑھنے لگی۔ اس کا خاوند بھی سویڈن میں ماسٹرز کا طالب علم تھا۔ وہ ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد ڈنمارک منتقل ہوگئی جبکہ اس کے خاوند نے پی ایچ ڈی کرنے کے لئے ناروے کا رخ کیا۔

۔ اللہ نے انہیں ایک چاند سا بیٹا دیا جو اب آٹھ برس کا ہے۔ ہمارا ان سے بہت قریبی تعلق ہے کیونکہ وہ میری منہ بولی بہن ہے۔ وہ ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتی ہے اور اپنی والدہ کی اکلوتی اولاد ہے جبکہ اس کا والد اور جوان بھائی اس جہان فانی سے رخصت ہوچکے ہیں۔ پیار کرنے والا خاوند اور ایک خوبصورت بیٹا، وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں بہت خوش تھی کہ2010 میں اچانک وہ اپنے گھر میں بے ہوشی سے گر گئی۔

(جاری ہے)

خوش قسمتی سے اس کا خاوند گھر پر ہی تھا اور اسے طبی امداد کے لئے قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کی طبیعت بہتر تو ہو گئی لیکن بیماری موجود رہی جس کی تشخیص کے لئے ڈاکٹر کوشش کرتے رہے۔ آخر کار 2011 میں اس میں ایسے مرض کی تشخیص ہوئی جو دنیا میں بہت ہی کم ہے۔ طبی اصطلاح میں اسے Idiopathic Pulmonary Arterial Hypertension کہتے ہیں۔ اس مرض میں پھیپھڑوں سے دل کی جانب خون لے کر جانے والی شریان سکڑ جاتی ہے اور جسم میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے جس کے لئے اسے ہر وقت آکسیجن کا سیلنڈر ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔

اس بیماری کی وجہ سے جسم میں پانی جمع ہو جاتا ہے جسے ہر ہفتہ ہسپتال میں جا کر نکلوانے کے لئے ایک مشکل مرحلہ سے گذرنا پڑتاہے اور مہنگی ترین ادویات استعمال کرنا پڑتی ہیں۔ بھلا ہو ڈنمارک کے سماجی بہبود کے نظام کا جس کے تحت اس کا علاج ہورہا ہے جس پر ہر ماہ لاکھوں روپے خرچ ہورہے ہیں اور یہ سلسلہ 2010 سے جاری ہے۔ اس تمام تر علاج کے باوجود بہتری کی کوئی صورت نہ ہونے کی وجہ سے اب ڈاکٹروں کی رائے میں اسے کسی اور انسان کے عطیہ کردہ پھیپھڑے جراحی کے عمل سے اپنے جسم میں منتقل کروانا ہوں گے۔

اس کے لئے بہت ہی پیچیدہ جراحی کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس میں جسم کے دفاعی نظام کی ہم آہنگی بھی نہایت ضروری ہے۔ ان سب مشکلات کے باوجود پھیپھڑوں کی تبدیلی کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں۔ کسی دوسرے انسان سے پھیپھڑوں کا عطیہ صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے اگر کسی نے اپنی موت سے قبل اپنے اعضا عطیہ کرنے کی وصیت کررکھی ہو۔ جب تک کوئی ایسا عطیہ نہیں ملتاوہ اپنی شدید بیماری میں کسی حیات بخش کے عطیہ کا انتظار کرتی رہے گی۔

اس وقت اس کی عمرسینتیس سال ہے اور وہ گذشتہ آٹھ سال سے اپنی والدہ کو بھی نہیں مل سکتی جو پاکستان میں اپنی اکلوتی اولاد کو دیکھنے کے کے لئے ترس رہی ہے۔ سویڈن میں گذشتہ سال 139لوگوں کی جانیں بچانے میں اعضا کے ان عطیات کا کردار ہے جو لوگوں نے اپنی موت کے بعد کسی ضرورت مند کو دینے کی وصیت کی تھی جبکہ 27 لوگ اعضا کا عطیہ نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔

ان کو بھی بچایا جاسکتا تھا اگر انہیں بھی اعضا کے عطیات مل جاتے۔ طبی تحقیق متبادل ذرائع پر بھی پوری جستجو میں ہے جس میں جانوروں کے اعضا کی انسانوں میں منتقلی اور سٹیم سیل ٹیکنالوجی کے ذریعہ نئے اعضا تیار کرنا شامل ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں سٹیم سیل تکنیک اتنی ترقی کرجائے کہ پھر اعضاء کے عطیہ کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔
طب کی دنیا میں بعض اوقات کسی انسان کی زندگی بچانے کے لئے عضا کی منتقلی آخری چارہ کار رہ جاتا ہے۔

خون کی منتقلی تو اب ایک عام سی بات ہے جبکہ مختلف ا عضا انسانی جن میں گردے، جگر، لبلبہ، دل اور دل کے والو، پھیپھڑے، سفیدہ چشم اور قرنیہ، ہڈی کا گودا اور جلد شامل ہیں، ان اعضا کی منتقلی سے ضرورت مند انسان کی جانیں بچا ئی جاسکتی ہیں۔ اعضا کے عطیہ کے حوالے سے سماجی اور مذہبی حوالوں سے بحث بھی سامنے آتی ہے۔ ابتداء میں خون کی منتقلی کا عمل شروع ہوا تو ہمارے علماء نے اسے ناجائیز قرار دیا لیکن اب وہ مخالفت نہ صرف مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے بلکہ علماء بھی ضرورت پڑنے پر اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

کچھ ایسی ہی صورت حال ا عضا کے کی منتقلی کے حوالے سے ہے اگرچہ اب آنکھوں، جگر اور گردوں کی منتقلی کے بارے میں مذہبی حلقے نرم رویہ اختیار کرچکے ہیں لیکن پھر بھی موت کے بعد اپنے اعضا کے عطیہ کے حق میں فضا مکمل طور پر ہموار نہیں۔ باشعور اور جدید مسائل کا ادراک رکھنے والے علماء اس کے مخالف نہیں۔ سوچنے بات یہ ہے کہ قرآن حکیم ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔

اگر کوئی شخص اپنے انتقال کے بعد اپنے جسم کے حصہ کے عطیہ سے کسی اور انسان کا نئی زندگی دے سکتا ہے تو اسے یہ ضرور کرناچاہیے۔ موت کے بعد اس جسد خاکی نے آخر کار خاک میں ہی ملنا ہے اور باقی انسان کی روح رہ جاتی ہے تو پھر کیا ہی اچھا ہے کہ اپنے جسم کو رزق خاک بنانے کی بجائے کسی دوسرے کی آنکھوں کا نور یا کسی کی سانس اور دھڑکن بن کر حیات آفرین کام کرنا چاہیے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جو بھی نئی سائنسی تحقیق ہے ، ہمارے مذہبی حلقے ابتداء میں اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن وقت گذرنے کے بعد نہ صرف مخالفت ختم ہوجاتی ہے بلکہ اسے خود بھی اختیار کرلیتے ہیں۔جو دین انسانی جان کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور اسے واجب الاحترام قرار دیتا ہے وہ کیوں نہ چاہے گا کہ کسی دوسرے کی زندگی کا چراغ روشن نہ کیاجائے ۔ اگر ہم مرنے کے بعد بھی کسی کی زندگی بچانے کے کام آسکتے ہیں تو اس سے بڑی کوئی اور نیکی کیا ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :