اللہ کاشکرہے ! راوی ہرطرف چین لکھ رہا ہے

بدھ 1 نومبر 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

پیارے ناصرمیاں! آپ نے میری ’وال ‘پرلگی تصویر میں چیتھڑوں میں ملبوس برمی خاندانوں کوکندھے جھکائے جاتے دیکھا ہے۔ لٹے پٹے اور پناہ کی تلاش میں جاتے ہوئے ان انسان نماؤں‘ کو جوپوٹلیوں میں بندھے ہوئے اپنے ”اثاثے “پانڈیوں کی طرح اٹھائے ہوئے جارہے ہیں‘ کی تصویر دیکھ کرآپ نے استفساریا طنز کیاہے کہ”ان کو کیاتکلیف ہے؟“۔

عرض خدمت ہے کہ ان کو کوئی خاص تکلیف نہیں ہے،اللہ کابہت کرم ہے ان روھنگیا پر۔معمولی سامسئلہ ہے ، بس انکو انکے گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا مگر چینی آقاؤں کے حکم پر برمی فوجی حکمرانوں نے اپنی پالتو 'ملی بدھ لیگ' کے فاشسٹ بدھ بکھشوں سے انکے جھونپڑوں کا آگ لگوا دی ہے۔ آپ کوتو معلوم ہی ہے کہ یہ چپٹے ناک اور پیلے رنگ والے بد ہیت روھنگیاپچھلے ایک ہزارسال سے کسی نا کسی طرح قابل برداشت چلے آرہے تھے۔

(جاری ہے)

مگر اب حالات بدل چکے ہیں اور تقاضے بھی۔ برما کے عظیم ہمسایہ ملک چین جسکی شہد سے میٹھی اور ہمالیہ سے اونچی دوستی نے(ہماری طرح) برمی فوجی حکمرانوں کے’ دل اور جیب ‘دونوں کوجیتا ہوا ہے۔ کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ راہداریوں کے دلدادہ چین اپنے اقتصادی منصوبوں کیلئے 3.7ارب ڈالرکی سرمایہ کاری سے صوبہ ریخائن کے ساحل پر بندرگاہ تعمیر کررہا ہے ،یہ گہرے پانیوں پر اپنی گرفت گہری کرنے کا گوادر طرزکاایک منصوبہ ہے،ظاہر ہے اس بندرہ گاہ پر چینی مال (اور برمی قدرتی وسائل )پہنچنے کیلئے جو راہداری درکار ہے اسکے راستوں کو اسی طرح صاف اور محفوظ بنانا ہوگا جیسے بلوچستان سے گزرنے والے راستے کو ’صاف ستھرا‘ بنا دیا گیا ہے۔

بلوچستان کے وہ علاقے جہاں سے سی پیک نے گزرنا ہے ”انسانوں “ سے خالی ہوچکے ہیں بس تھوڑی سی ماردھاڑ کرنا پڑی ہے۔ایسا ہی رخائین میں ہورہا ہے،اب کیا جائے وہاں زد میں آنے والے یہ اپنے روھنگیا مسلمان ہیں۔ برمی حکمران جذباتی ہیں نا ہی جلد باز بلکہ خاصے عقل مند ہیں ،انہوں نے چینوں کیلئے ’بلوچستان ماڈل‘ موت کا ننگا ناچ نہیں ناچا۔

انہوں نے مسخ شدہ لاشوں، مسنگ گیم اورآپریشن کی بجائے اپنی بے پناہ ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے پورا ڈرامہ اسٹیج کیا۔ برمی فوجی حکمرانوں نے دھائیوں پرمبنی‘ بدھ۔روھنگیا تضادات کو 2012 ء سے ہی بڑھکانے کیلئے مختلف قسم کے ''جذباتی سین''، تصادم اور انکے ردعمل پیدا کرنے شروع کئے ہوئے ہیں، بالکل جیسے کراچی میں اردو سپیکنگ ''بشری زیدی''کی پختون ڈرائیور کی بس کے نیچے آکرحادثاتی ہلاکت کواستعمال کرتے ہوئے، کراچی میں فسادات کوا گلے تیس سال تک بڑھکانے کا مسالہ فراہم کردیاگیا تھا۔

خیرآپ کا استفساردرست ہے !مگر اللہ کا شکر ہے کہ ان فسادات،لوٹ مار، آتش زدگی، قتل وغارت گری سے روھنگیا لوگوں کو زیادہ تکلیف نہیں اٹھانی پڑی ،اسکی وجہ بہت سادہ ہے کہ روھنگیا اپنے جنم سے ہی بھوک، ذلت،بے وطنی، افلاس،پسماندگی، سماجی نفرت اورمعاشرتی و ریاستی تشدد کاشکار ہوتے چلے آرہے ہیں،انکی عورتوں کاریپ بھی انہونی بات نہیں ہے۔ ویسے تویہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور اللہ کابہت فضل ہے ان پر مگرتھوڑا مسئلہ ہوتا ہے جب انکے پیچھے برمی فوج کی گولیاں چل رہی ہوتی ہیں،دنگوں میں انکے گھروں کو جلادیا جاتا ہے، بچنے والے بچوں،بوڑھوں کو قتل کردیاجاتاہے اورعورتوں کو جنسی تسکین کاسامان بنا کر 'راکھ بن چکی بستی' سے نکال دیا جا تا ہے توادھر ادھر چھپے ہوئے انکے مرد اپنے برباد خاندانوں کے ہمراہ ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی طرف پناہ کی طرف جاتے ہیں۔

ان کوزیادہ مسئلہ تونہیں ہوتاالبتہ یہاں پرانکوچھوٹی سی تکلیف کاسامنا کرنا پڑتا ہے،یہ تکلیف دو طرف سے آتی ہے نمبر ایک، پیچھے سے برمی فوجی اورسامنے سے بنگلہ دیشی بارڈر فورسز نشانہ سیدھا کرنے کیلئے جو گولیاں چلاتی ہیں، کبھی کبھی وہ گولیاں ان روھنگیا کو لگ جاتی ہیں۔ یہ بھی کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے اگر گولی جان لیوا ہوتو، مگر بچ جانے پر زخم کی ناقابل برداشت تکلیف تھوڑا سا تنگ کرتی ہے،ننگے زخموں میں کیڑے پڑجاتے ہیں، مرہم بھی میسر نہیں اور بے یارومددگار ساتھیوں کوکراہیں تکلیف دیتی ہیں۔

نمبردو، اگر بنگلہ دیشی فورسزسے آنکھ بچاکردریا پار کرنے کی کوشش کی جائے توکبھی کبھی یہ روھنگیا ڈوب جاتے ہیں، ویسے تویہ اتنا سنگین مسئلہ نہیں ہے، اگر پانی میں گرنے والا ڈوب کر مرجائے، مگر زیادہ بڑا مسئلہ اس پوٹلی کے دریا برد ہونے کا ہوتاہے جو ان انسان نما جانداروں کے سروں پر ہوتی ہے،اس میں روکھی سوکھی روٹیاں اورکچھ کچلے مسلے کپڑے ہوتے ہیں،جن کو قدرت نے ان کی متاع زندگی قراردیاہے۔

ویسے آپ پریشان نا ہوں میاں صاحب…پچھلے دنوں پاکستان کے بپھرے ہوئے لوگوں نے روھنگیا کے مذہب کو اسلام دریافت کرکے اسکو عالم اسلام کا مسئلہ بنا دیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو 'عالم' کا، جہاں اسلام نام کی چیز کو کسی قسم کااتحاد اور یکجہتی میسر نہیں ہے اور یہ ایک خالی خولی نعرہ مکارانہ ہے۔ ویسے بھی بہت جلدہی ہیجان اور جنون پر مبنی مظاہروں کے نعرے ''الجہاد''،''الجہاد'' لگا کر حکومت کو 'میانمار'میں فوجیں بھیجنے یا ”اہل ایمان“ کو جہاد کی اجازت مرحمت فرمانے کا مطالبہ اورحکمرانوں کے خلاف ہذیان بکنے والوں کو پتا چل گیاکہ برما میں 5لاکھ روھنگیا ہمارے عظیم ہمسایہ ملک چین کے انتہائی اہم مفادات کی راہ میں حائل ہیں۔

اس خبر کوجان کرہمارے متقی اورپرہیز گاروں کا ناقابل کنٹرول غصہ اورجوش ایمانی اس جھاگ کی طرح بیٹھ گیا جو انسانی جسم کے نکاسی آب کے نظام کی وجہ سے لمحہ بھر کیلئے اٹھتا اورپھر نشان چھوڑ کرگدھے کے سینگوں کی طرح غائب ہوجاتاہے۔ یوں' روھنگیا اٹھائی گیروں' کے معمولی سے مسئلے پر '' ایمانی تقاضوں کابلاوجہ '' استعمال بھی جلدہی سنبھال لیا گیا۔

پھر آپ کو تو پتا ہی ہے کہ ہمارے ہاں کے ’مجاہدین‘ کے جہاد کاسارے کا سارا انحصار ''کرنل امام'' جیسے جری آفسروں کی تربیت اور''خفیہ'' ڈالرائزیشن پر مبنی ہوتا ہے۔ اب ان حالات میں جب کرنل امام اور انکے تمام ہمنوا اپنے ہی شاگردوں کے ہاتھوں شہید ہوکر جنت کی حوروں کی محفل میں گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ اوپرسے امریکہ بہادر نے اپنی پڑھائی ہوئی ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘پالیسی کو دوغلی قراردیکر ڈالر اوراپنے 'خادمین' نے یمن والے معاملے پر کٹھ پتلی ناچ نا کرنے پر ریالوں کی ترسیل بند کی ہوئی ہے۔

طرہء یہ ہے کہ افغانستان کے اہل ایمان کیلئے 'پوپی' کی کاشت مجاہدین کے تقاضا ایمان کی مضبوطی کا باعث بنا تھا مگر برما میں کاشت ہونے والی ساری پوست وہاں کے سجیلے جوانوں کے براہ راست کنڑول میں ہے اوروہ خودہی ہیروین بنا کردنیا بھر کے 'حاجت مندوں ' کی حاجت پوری کرتے ہیں۔ لہذا نا ڈالر وریال اور نا ہی ہیروین کا کاروبار،یوں ایسا بے ذائقہ جہاد کس کے وارے کا ہے؟پھرمعاملہ گھر کا ہی ہے،چین بھی اپنا ہمسایہ اور محسن ہے اور روھنگیا کاکیاہے وہ تو اپنے صابر شاکرمسلمان بھائی ہیں،جومصلحت کے تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

برما توپہلے ہی ہمارے پیارے ملک چین کا دوسراگھر ہے اور وہاں ہے بھی بہت ہی آئیڈیل ’سول فوجی حکمرانی کامکسچر‘ جوآنے والے دنوں میں وطن عزیز کیلئے بھی سود مند قراردیا جاسکتا ہے۔آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ مہینہ دومہینہ پہلے کتنا شوروغوغا تھا،اخبارات ایڈیشن چھاپ رہے تھے اور 2012ء میں چھپنے والی تصاویر کوبھی لوگوں کی کمزوریاداشت کوملحوظ رکھتے ہوئے چھاپے جارہے تھے، ادھر فیس بک پر تو فارایسٹ کے بہت سے ممالک میں بدھ بھکشوؤں کے جلی ہوئی لاشوں کو روھنگیا مسلمان بنا کر اپنے غم اور غصے کی شدت کو بڑھا یا جارہا تھا۔

اپنے ترکی کی اردوان حکومت توسلطان راہی جیسی بڑھکوں پر اتر آئی تھی۔معاملہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ اقوام متحدہ میں روھنگیا نسل کشی کی گفتگو کی بازگشت سنائی گئی۔وہ تو بھلا ہو چین کی عالمی طاقت اورہیبت کا‘ اس نے ہر جگہ پر اس مسئلہ کو آھنی ہاتھوں سے درست کیا اور میڈیا سے اس معاملے کو ایسے گول کرایا جیسے روھنگیا بحران کا کہیں وجود تک نا ہو۔

اپنے شہد سے میٹھے برادر ملک چین اور اسکے گہرے دوست یعنی اپنے وطن عزیزجسکو وہ اپنا اسرائیل قراردیتا ہے نے مل کر اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ملکی اور عالمی تشویش کوجلد ہی دبا دیا گیا۔ آپ ناحق پریشان ہورہے ہیں،ہم جیسے ‘ناکارہ‘ لوگ تو راجپوتانے کی رودھالیوں کی طرح وقت بے وقت اس قسم کے ’جذباتی‘ فوٹو اور دکھوں کی داستان گوئی کرکے اپنا وقت پاس کرتے ہیں۔

مجھے احساس ہے کہ آپ جیسے حساس طبع انسانوں کی خوش باشی اورپرسکون سوچوں کو ہم جیسے لوگوں کے 'رولے رپے' اورناگوار موضوعات سے جو کوفت ہوتی ہے یہ بہت ہی تشویش ناک معاملہ ہے۔ مجھے اس صورتحال پر بہت ہی افسوس ہے۔ شرمندگی کے عالم میں آپ سے معذرت خواہ ہوں،کہ معاملہ ٹھپ جانے اورچپ سادھ ہوجانے کے باوجودکیوں میں نے وہ تصاویر اورانکی تفصیل پر مبنی چند لائنیں تحریر کیں جن کی’ تخریب ‘کو آپ جیسے بیدارمغز نے قبل از وقت بھانپ کر اپنے استفسار کے ذریعے خبردارکیا۔

مجھے بھی احساس ہوچکاہے کہ معاملہ اتنا گھنبمیرنہیں ہے بلکہ رخائن سے پانچ لاکھ کی حقیر تعداد میں بھاگنے والے روھنگیا مسلمان اب اللہ کے فضل وکرم سے بنگلہ دیش کے مہاجرکیمپوں میں خوش وخرم زندگی گزاررہے اوراپنا دیانتدار راوی ہرطرف چین لکھ رہا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :