فکری مغالطے اور پالیسی کا صفحہ

جمعرات 26 اکتوبر 2017

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

ایسے ایسے فکری مغالطے ہماری قوم کو لاحق ہیں کہ عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی ۔اسلام آباد میں بہت سے تھنک ٹینکس مختلف موضوعات پر سیمینارز اور مباحثوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور ان مباحثوں میں صحافیوں اور سول سوسائٹی سمیت دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے افراد بھی شرکت کرتے ہیں ۔ ان سیمینارز کا مقصد سماج کو درپیش مختلف مسائل کے بارے میں عوام کی رائے سے آگاہی اور ان کے حل کے لئے اہل دانش کی رائے کا حصول ہوتا ہے ۔

اپنے اصل میں اس طرح کے سیمینارز،مباحثے یا مکالمے سماج کو آگے بڑھنے کے لئے دانش اور راستے فراہم کرتے ہیں لیکن بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ انسانی ذہن مزید الجھ جاتاہے ۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہواجب محترم دوست سبوخ سید نے ایک مباحثے میں شرکت کا دعوت نامہ بجھوایا تو موضوع دیکھ کر میں چونک اٹھا ، REINTEGRATION OF MILITANTSٰ یعنی ”مسلح گروہوں کا معاشرے میں دوبارہ انضمام “۔

(جاری ہے)

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام ہونے والے اس مباحثے کی صدارت ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود نے کی اوراس میں انٹرنیشنل سنٹر فار کاوٴنٹر ٹیررازم کی محقق لشبیتھ وینڈر ہائیڈ کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جرم انصاف کی نمائندہ مس علینا ڈالسانتو اور آسٹریلیا نیشنل یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے ڈاکٹر ہارورو انگرم بھی شامل تھے ۔

معروف کالم نگار خورشید ندیم اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود بھی شریک گفتگو رہے ۔ خطے میں افغان جنگ اورپاکستان کے اس میں امریکی مہرے(FRONT LINE STATE) کے طور پر استعمال ہونے کے تناظر میں بظاہر تو یہ موضوع انتہائی پرکشش ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب ہے کہ دہشتگردوں کا معاشرے میں دوبارہ انضمام،گزشتہ سینتیس برس سے ہم جس طرح افغان جنگ میں امریکی مہرہ بنے ہوئے تھے اس کے نقصانات کا ادراک ہمیں اب ہورہا ہے ۔

کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی کہ آئندہ چالیس برس بعد ہماری قیادت کو یہ احساس ہو کہ دہشتگردوں کے انضمام کی اس پالیسی نے معاشرے کے تاروپود جس بری طرح بکھیرے ہیں ان کو سمیٹنے کے لئے بھی مزید چالیس برس کی ضرورت ہے۔آج کل قومی دھارے میں شمولیت کے نام پر دہشتگردوں کو جس طرح معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش ہورہی ہے یہ حقیقت سے نظریں چرانے اور خود کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

بات بہت سادہ ہے ، دہشتگردوں کو معاشرے میں ضم نہیں کیاجاتا بلکہ ان کو علیحدہ کر کے ان کے جرائم کے مطابق ان کو سزا دی جاتی ہے اور جو خود کو قانون کے حوالے نہ کرے اس کی صرف ایک ہی سزا ہے کہ اسے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے اورہنگامی بنیادوں پر انتہا پسندی کے اسباب کا تدارک کیاجائے تاکہ معاشرے میں فتنے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلح گروہ جونہ صرف انتہائی سفاک قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل رہے ہوں بلکہ عوام الناس کے قتل عام تک کے مرتکب ہوں اورریاست کی عملداری کو کھلے عام چیلنج کرتے ہوئے اسے عین کار ثواب اور اصلاح بھی قراردیں لیکن ریاست بحالی امن کے نام پر ان مسلح جتھوں کے ارکان کو معاشرے میں ضم کرنے کے لئے مری جارہی ہو۔

ریاست میں امن و استحکام اسی وقت ہوتا ہے جب ریاست اپنی عملداری پوری طاقت کے ساتھ قائم رکھے اور شرپسند عناصر پر اس کا رعب و دبدبہ برقرار رہے ۔ ریاست کا یہ رعب و دبدبہ ہی ہوتا ہے جو شرپسند اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے عناصر کو کھل کھیلنے سے روکتا ہے ۔ لیکن جب آپ ایک مسلح تنظیم کے کارندوں کو یا دہشتگردوں کوان کے گھناوٴنے جرائم کی سزا دینے کی بجائے معاشرے میں انضمام یا بحالی کے لئے بنیادی انسانی ضروریا ت کی تکمیل کے نام پر وسائل فراہم کرنا شروع کردیں گے تو کیا ضمانت ہے کہ وہ دوبارہ ان جرائم کا ارتکاب نہیں کریں گے اور پھر خاص طور پر اس صورت میں جب ان کو ان کے کئے جرائم کی سزا دینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔

یہ توجرم کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کے لئے بہت حوصلہ افزا ء بات ہے کہ جرم کی دنیا میں آپ جتنا نام کمائیں گے ریاست آپ کو اتنا ہی پروٹوکول فراہم کرے گی ۔ دہشتگردی کے اسباب کے تدارک کی سوچ اپنی جگہ لیکن غربت ،بیروزگاری یا ناانصافی اس چیز کا جواز ہرگز نہیں کہ کوئی انسان ہتھیار لے کر اٹھے اور ریاست کے باقی شہریوں کو طاقت کے زور پر یرغمال بنا نا شروع کردے ۔

غربت اور بیروزگاری جیسے مسائل دنیا میں ہرجگہ رہے ہیں اور ہر دور میں رہے ہیں ۔ آج کے دور میں بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بہت سے پڑھے لکھے بیروزگار موجودہیں ،غربت بھی موجود ہے کہ ہر انسان کروڑ پتی یا ارب پتی تو ہو نہیں سکتا لیکن ریاست کی عملداری اس قدر ہے کہ کوئی انسان جرم کا ارتکاب کرے تو انجام سے نہیں بچ سکتا چاہے وہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا معمولی جرم ہی ہو۔

لیکن ہم ہیں کہ ستر ہزار جانوں کی قربانی دینے کے بعد بھی دہشتگردوں کے انضمام پر مباحثے کروا رہے ہیں ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ عالمی برادری ہماری اس بصیرت پر ہنستی تو ہوگی کہ وہ عناصر جن کو نشان عبرت بنا دینا چاہیے انہی کو بحالی کے نام پر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں ۔ اس ملک میں یہ بھی ہوا کہ قومی دھارے میں شمولیت یا انضمام کے نام پر ان مسلح جتھوں کے سرغنوں کو پھولوں کے ہار بھی پہنائے گئے لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ وہی ڈھاک کے تین پات! پاکستانی حدود میں امریکی ڈرون حملوں کو ہم برا کہتے ہیں اور کہنا بھی چاہیے لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ طالبان اور القاعدہ کے جتنے بھی کمانڈرز مارے گئے وہ انہی ڈرون حملوں میں مارے گئے ۔

ستر ہزار معصوم شہریوں کی قربانی کے بعد ہمارے پاس کل ملاکر ایک احسان اللہ احسان ہے جسے ہم نے پورے اہتمام سے سرخی پاوٴڈر لگا کر ٹی وی پر پیش کیا ،حد ہے اور بے حد ہے کہ یہ کار ثواب بھی ہم نے عدالت کی اجازت سے کیا۔ مدت ہوئی ہے یار کومہمان کئے ہوئے !اللہ کے فضل وکرم سے کوئی نہیں جانتا کہ اسے کب اور کس عدالت میں پیش کیا جائے گا۔دوسرا کلبھوشن ہے جس کو ہم نے پھانسی کی سزا تو سنادی لیکن” لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے “کب دیکھیں گے یہ کسی کو نہیں معلوم،خدا جانے ہم دیکھیں گے یا ہمارے بعد آنے والی نسلیں۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ مباحثے کے شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مسلح تنظیموں یعنی دہشتگردوں کو قومی دھارے میں لانے کی پالیسی بنا نا پارلیمان کا کام ہے اور یہ پالیسی آئینی دائرہ کار میں رہ کر بنانی چاہیے ۔ اب آئین یا قانون کی بات کریں تو جوا ب واضح ہے ،قانون نے ہر جرم کی سزا متعین کر چھوڑی ہے ۔ قانون کی زبان میں دہشتگرد کی بحالی یا معاشرے میں دوبارہ انضمام کا سوال بعد میں ہے جبکہ قانون کی خلاف ورزی کی سزا پہلے ۔

ایک اور مغالطہ جو ہمیں عرصہ دراز سے لاحق ہے اور ہمارے دانشوروں کا غالب طبقہ بھی دن رات یہ ڈھول پیٹتا ہے کہ سیاسی اورعسکری قیادت کو SAME PAGE پرہونا چاہیے ۔ جب بھی کسی بندے کے منہ سے یہ الفاظ سنتا ہوں حیرت سے اس کا منہ تکتا ہوں کہ صاحب جو فرما رہے ہیں اس کامطلب بھی ان کوپتہ ہے ۔یہ SAME PAGEہے کس بلا کا نام میں آج تک نہیں سمجھ پایا ۔ریاست کے بانی اورآئین نے یہ معاملہ بہت پہلے واضح کردیا ہے ،جس کے مطابق صفحے کی عبارت کا فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے اور عسکری بازوکا کام یہ ہے کہ وہ اس صفحے کی عبارت پر پورے صدق دل سے من و عن عمل کرے ۔

لیکن مخمصہ یہ ہے کہ سیاسی قیادت اتنی قابل ،دیانتدار اوربا صلاحیت بھی تو ہو۔ہمارا تو یہ حال ہے کہ اللہ اور اس کے دین کا نام بیچنے والے چند ملّا اپنے چند سو حواریوں کے ہمراہ اسلام آباد کا رخ کریں تو پولیس اس قابل نہیں کہ ان کو روک سکے ۔ ریاست کی سانس پھول جاتی ہے،ریڈ زون کو آہنی کنٹینرز میں لپیٹ دیا جاتا ہے اور رینجرز کے ساتھ ساتھ باقاعدہ فوجی دستے بھی طلب کرلئے جاتے ہیں۔چوبیس اکتوبر کی شام سے دارلحکومت ایک بار پھر کنٹینر ستان کا منظر پیش کررہا ہے۔ دارالحکومت میں بیٹھے دنیا بھر کے سفیر ہماری اس کمزوری کا تماشہ دیکھتے ہیں اور ہم شکر کرتے ہیں کہ ہم نے مٹھی بھر ملاوٴں سے ریڈ زون کو بچا لیا۔ سچ ہے ان حالات میں انضمام ہی بنتا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :