اردوہماری قومی زبان۔۔؟

اتوار 22 اکتوبر 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

اپنی قومی زبان کوقصہ پارینہ سمجھنے والے کبھی بھی کامیاب اورترقی یافتہ نہیں ہوسکتے ۔دوسروں کی شکل وصورت اورزبان اپنانے سے اگرکامیابی ملتی توآج دنیامیں ہم سے زیادہ کامیاب کوئی اور نہ ہوتے کیونکہ جتنی محنت اورپیارہم نے غیروں اورگوروں کے زبانوں سے کی اتنی ہم نے کبھی اپنی قومی زبان اردوجودنیابھرمیں ہماری جان ،پہچان اورشناخت ہے اس سے بھی نہیں کی ۔

اردوکوکنارے لگاکراس ملک میں انگریزی اورچینی سمیت کئی زبانوں کوہم نے اپنے معمولات میں نہ صرف شامل کیا بلکہ کئی جگہوں پران کوفرض کادرجہ بھی دیالیکن آج تک اس ملک میں حکمرانوں ۔۔سیاستدانوں۔۔ٹیچروں۔۔انجینئروں۔۔ڈاکٹروں ۔۔فنکاروں ۔۔گلوکاروں اورکھلاڑیوں نے اپنی قومی زبان اردو کیلئے کبھی سوچا بھی نہیں ۔

(جاری ہے)

۔اردوکے فروغ کے لئے سوچناتودورحقیقت تویہ ہے کہ ہم نے اردوکو کبھی قومی زبان سمجھاہی نہیں۔

۔قومی وسرکاری اداروں کے ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی اردوکواختیاری کے درجے پررکھ کر ہم نے اپنی قومی زبان کو،،قصہ پارینہ،،بنانے میں کبھی کوئی کسرنہیں چھوڑی۔اپنے تعلیمی اداروں جہاں نسل نوکی تعمیروتربیت ہوتی ہے میں انگریزی سمیت کئی غیروں کی زبانوں کوتوہم نے لازمی قراردیاہے لیکن افسوس ہمارے ان اداروں میں ہماری اپنی زبان ،،اردو،،آج بھی اختیاری کے درجے پرفائزہے۔

۔جس کی وجہ سے ہمارے وہ معصوم بچے جن کواردوکواپنااوڑھنابچھونابناناچاہئے تھاآج وہ انگریزی انگریزی کرکے اردوسے بالکل بے خبراورنابلدہے۔۔اپنی قومی زبان کے ساتھ ہمارے روارکھے جانے والے اسی رویے کے باعث نہ صرف چھوٹے بچے بلکہ ہمارے تعلیمی ادروں سے نکلنے والے کئی اچھے بھلے پروفیسر۔۔ڈاکٹر۔۔انجینئر۔۔ٹیچر۔۔فنکار۔۔گلوکاراورکھلاڑی بھی ،،اردو،،کے معاملے پربالکل کورے ہیں ۔

۔آج ہمارے تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ انگریزی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ توبول سکتے ہیں مگراردو میں وہ کھل کربات بھی نہیں کرسکتے۔۔لوگ انگریزی سمیت دوسروں کے زبانوں کی ٹانگیں توڑتے ہیں لیکن ہم نے تواس ملک کی گلیوں ۔۔محلوں ۔۔چوکوں ۔۔چوراہوں۔۔شہروں۔۔جلسے ۔۔جلوسوں۔۔مظاہروں اورسب سے بڑھ کرتعلیمی اداروں میں بھی اپنوں کواپنی زبان کی ٹانگیں توڑتے ہوئے ایک دونہیں کئی باردیکھا۔

۔جگہ جگہ انگلش میڈیم سکول کھولنے کی وجہ سے آج ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اردوکے اکثرالفاظ کے معنی ومفہوم سے ناآشناء ہیں ۔۔جب ملک میں قومی زبان کی بجائے ہروقت غیروں کے زبان کی ترویج واشاعت ہو۔۔جہاں قدم قدم پرانگلش میڈیم سکولوں کے جال بچھائے گئے ہوں وہاں کے نوجوان اور اچھے بھلے پروفیسر۔۔ڈاکٹر۔۔انجینئر۔۔ٹیچر۔۔صحافی اورقلم کارپھرطبی کوطبعی۔

۔کہاکوکہاں۔۔نہیں لکھیں گے اورپڑھیں گے تواورکیاکریں گے۔۔؟سرکاری تعلیمی اداروں میں انگلش کولازمی اوراردوکواختیاری کادرجہ دینے کے ساتھ گلی محلوں میں اردومیڈیم سکول کھولنے کی بجائے انگلش میڈیم کی وباء پھیلاکرہم نے اس ملک سے اپنی قومی زبان کاجنازہ تک نکال دیاہے ۔۔انگریزی کی ٹانگیں توڑتے ہوئے توہم فخرکرتے ہیں لیکن جب اپنی قومی زبان میں بات کرتے ہیں توہمیں شرم محسوس ہونے لگتی ہے۔

۔انگریزبننے کے چکرمیں یس،نو،فائن،پرامس،کم،گو،اوکے اورویٹ جیسے الفاظ نے آج ہمیں اپنی قومی زبان اردوسے دوربلکہ بہت دورکردیاہے۔۔انگریزاورانگریزی سے قربت اورپیاری اردوسے دوری کے باعث ہم ترقی سے روزبروزدورہوتے جارہے ہیں ۔۔ہم نے ہردورمیں انگریزاورانگریزی کوترقی اورکامیابی کامعیارجاننا۔۔سمجھااوربنایا۔۔لیکن حقیقت میں انگریزی کے اس معیارنے ہمیں ترقی اورکامیابی سے ہمیشہ کوسوں دورکیا۔

۔آج ہم جن ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیتے ہیں ان میں سے کتنے ممالک نے اپنی زبانوں کی جگہ انگریزی کومعیاررکھاکہ جس کی وجہ سے انہوں نے ترقی اورکامیابی حاصل کی ۔۔؟ترقی یافتہ ممالک کے حکمران آج بھی اپنی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں بات نہیں کرتے لیکن ہم جب بھی آنکھ کھولتے ہیں یس،نو،فائن،ویٹ اوراوکے کی گردان شروع کردیتے ہیں ۔۔

انگریزبننے کے چکرمیں انگلش میں بات کرتے ہوئے انگریزی کی ٹانگیں توڑنے پر کتنی بارمیڈیاکے ذریعے ہم دنیاکے سامنے تماشابنے لیکن پھربھی ہم اس سے بازنہیں آتے۔۔انگریزی دان بننے کی خواہش نے آج ہمیں کئی طرح کے مسائل سے دوچارکردیاہے۔۔پارلیمنٹ کے اندرحالیہ دنوں میں ختم نبوت حلف نامے کے اندرہونے والی تبدیلی بھی اسی انگریزی کاوار لگتاہے۔

۔مقد س ایوان سمیت ہمارے تمام سرکاری اداروں میں انگریزی تورائج ہے لیکن پارلیمنٹ کے ساتھ ہمارے اکثرسرکاری اداروں میں افسران کی اکثریت کوانگریزی کی کچھ زیادہ سمجھ بوجھ نہیں جس کی وجہ سے ان کواپنے دستخط سے منظورہونے والے بل اورکاعذکی پھراس وقت سمجھ آتی ہے جب پانی سرسے گزرہوااہوتاہے۔اس لئے یہ یقین کیاجاسکتاہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے پربھی ہمارے معززممبران اسمبلی کے ساتھ کچھ ایساہی ہواہوگا۔

۔ایک سابق صوبائی وزیرکے بارے میں تویہ بہت مشہورہے ۔۔کہ صاحب مڈل یامیٹرک پاس تھے۔۔کسی دورمیں تعلیم یاکسی اورمحکمے کے وزیرلگے۔دوروزارت کے دوران انگریزی میں ٹائپ شدہ بل اوردیگرکاعذات سامنے آتے ہی وہ دھڑادھڑان پردستخط کرادیتے تھے۔پھرجب ان کاعذوں میں تحریر انگریزی کے کالے لفظوں کی حقیقت کرپشن اورلوٹ مارکے نتیجے میں سامنے آئی تب پتہ چلاکہ ان کے دستخطوں سے گزرنے والے کاعذوں میں کیاکچھ ہوتاتھا۔

۔اس سے جب پھرپوچھاگیاتووہ کہنے لگاکہ مجھے کیاپتہ ۔۔میرے پاس تویہ کاعذلائے جاتے کہ کسی کی نوکری کاکوئی مسئلہ ہے۔۔کسی کی ٹرانسفرہے یاکسی کی چھٹی کی درخواست ہے ۔اس وجہ سے میں دستخط کرادیتا۔۔جس انگریزی کوگلے لگانے کے اس طرح کے نقصانات ہوں ۔اس کولازمی قراردینے کاکیافائدہ ۔۔؟انگریزبننے والے انگریزی پڑھنے اورسیکھنے کاشوق ضرورپوراکریں ۔

۔ہرزبان کوسیکھنااورسمجھنااچھی بات لیکن خدارااردوکودنیاکے سامنے تماشانہ بنائیں ۔۔اردوہماری قومی زبان ہے جس طرح پیارے پاکستان کی طرح ہماراکوئی اورملک نہیں اسی طرح اردوکے علاوہ ہماری کوئی اورقومی زبان بھی نہیں ۔۔اردویہ ہماری جان ہے۔۔ہماری پہچان ہے۔۔سب سے بڑھ کریہ اس دنیامیں ہماری شناخت ہے۔۔اس کے علاوہ اگرکسی زبان کے پڑھنے یاسیکھنے کاکوئی زیادہ ہی شوق ہے توپھرعربی پڑھیں اورسیکھیں تاکہ قبرمیں سوال وجواب کے دوران توکم ازکم آسانی ہو۔

۔اس دنیامیں ملک کانظام بہترطریقے سے چلانے اورکامیابی وکامرانی کے منزل تک پہنچنے کے لئے ہمیں اپنے پورے نظام میں اردوکولازمی قراردیناہوگا۔۔موجودہ حالات کودیکھتے ہوئے عدالتوں، سکولوں اورسرکاری اداروں میں تواردوکانفاذفرض ہوچکاکیونکہ ان اداروں سے زیادہ تران عوام کاتعلق ہوتاہے جوانگریزی کے نام سے بھی ناواقف ہوتے ہیں ایسے میں اگریہاں انگریزی کانظام رائج رہے گاتوان اداروں سے عوام کوکوئی خاص فائدہ نہیں ملے گا۔

۔سپریم کورٹ پہلے ہی سرکاری اداروں میں اردوکے نفاذکاحکم دے چکی ۔پاکستان قومی زبان تحریک کے ذریعے بھی ملک میں اردوکے نفاذکے لئے ایک تواناآوازبلندہورہی ہے اس سلسلے میں عروبہ عدنان کی کاؤشیں کسی سے دھکی چھپی نہیں جس پرعروبہ عدنان سمیت قومی زبان تحریک کے تمام رہنماء خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ اردویہ صرف عروبہ عدنان یااردوقومی تحریک کے کسی اورممبرکی زبان نہیں بلکہ یہ ہم سب کی زبان اورپہچان ہے ۔

اس کے فروغ اورنفاذکے لئے ہم سب کواپنابھرپورکرداراداکرناچاہئے۔اب وقت آگیاہے کہ پورے ملک کے تمام سرکاری اداروں میں اردوکانفاذکرکے ملک بھرمیں ہرگلی اورمحلے کے اندرانگلش میڈیم کی بجائے اردومیڈیم سکول کھولے جائیں ۔جب تک اس مقصدکے لئے ہم سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائیں گے اس وقت تک ہم انگزیزی کے نام پریونہی تماشابنتے رہیں گے ۔اس لئے ہم سب کواس بارے میں اب خلوص دل سے کچھ سوچناہوگا۔ورنہ کل کوہمارے بچے ہم سے یہ سوال کریں گے کہ کیااردوہماری قومی زبان ہے۔۔۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :