متشدد بھارت اور پر امن پاکستان

جمعہ 20 اکتوبر 2017

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

معزز قارئین!اپنے مضمون پر بات کرنے سے پہلے بھارت کے نام نہاد سیکولر نظام کی جنم بھونی اور اُس کی موجودہ شکل پر تجزیہ پیش کرتے ہیں۔انگلستان میں بادشاہ نے طویل جد و جہد کے بعد کلیسا کو شکست دی تھی۔ پھر یہودیوں کی وجہ سے زیادہ دیر تک بادشاہ اپنی بادشاہت بھی قائم نہیں رکھ سکا۔ یہودیوں کی مدد سے انگلستان کے عوام نے انگلستان میں عوام کے ذریعے عوام پر حکومت کا نظریہ ایجاد کیا۔

دنیا میں پہلے مذہب کی بنیاد پر حکومتیں قائم ہوتی تھیں۔جیسے ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ اسلام سے پہلے دنیا میں ایک طرف عیسائی روم تھا۔ دوسری طرف آتش پرست مجوسی ایران تھا۔ مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد ان دونوں مذاہب پر مذہب کی بنیاد پر اسلام نے غلبہ پایا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیامیں یہودیوں کی آبادی چند لاکھ سے زیادہ نہیں تھی۔

(جاری ہے)

اس لیے انہوں نے اپنی حفاظت اور حکمرانی کے لیے پہلے پہل انگلستان کی عوام کی پہچان مذہب سے ہٹا کر جمہوریت پر رکھ دی۔ پھر اس کی کوک سے یہودیوں نے سیکولر نظریہ ایجاد کیا ۔ اسی سیکولر نظریہ کی بنیاد پر یہودی اپنے سرمائے اور میڈیا پر کنٹرول کی بنیاد پر مذہبی اقلیت ہوکر آج ساری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ اسی سیکولر نظریہ میں انگلستان رنگ گیا۔

اس نے یہ رنگ سارے جہاں جس میں اس کا سورج غروب نہیں ہوتا تھارنگ دیا۔ انگلستان کی کالونیوں جس میں برصغیر بھی تھا سیکولر کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ انگریز کی خواہش تھی کہ اس کے جانے بعد بھارت میں بھی سیکولر نظام ہی قائم رہے۔یہ کہ مذہب ہر کسی کا ذاتی مسئلہ ہے۔ یہ کہ اس میں حکومت کو داخل نہیں دینا۔ جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو بھارت میں سیکولر نظام قائم کیا گیا۔

اقلیتوں کے تحفظ کے لیے قانون بنایا گیا۔ یہ سب کچھ بھارت کے برہمن نے اپنی ضرورت کے تحت کیا تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ تقسیم کے بعد بھی بھارت میں کثیر تعداد میں مسلمان رہ جائیں گے۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لیے سیکولرازم سے بہتر نظام نہیں۔جبکہ اندر ہی اندر وہ ہندواتا کا پروگرام رکھتے تھے۔ بھارت میں ہندو مذہب کے نام پر حکومت قائم کرنے کے لیے بھارت میں پہلے ے ہی ایک متشد دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوامی سیکوک سنگھ( آر ایس ایس) موجود تھی۔

اس کی متشد سرگرمیوں کی وجہ سے تقسیم سے بہت پہلے برصغیر کی انگریز حکومت نے پابندی بھی لگائی تھی۔بھارت کے مسلمان کانگریس کے سیکولر ایجنڈے کی وجہ سے ہمیشہ ان کو ووٹ ڈالتے رہے۔ مگر ہندو ذہنیت کی وجہ سے سیکولرکانگریس نے مسلمان اقلیت کے حقوق کا کبھی بھی خیال نہیں رکھا۔ بھارت کے آئین میں درج ملازمتوں کے تناسب کے مطابق ان کو نوکریاں نہیں دی جاتی۔

ان کے عاہلی قوانین میں ان کی عدالتیں تک مداخلت کرتیں ہیں۔ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ سے مسلمان چھوٹے کاروبار کے لیے چھاپڑیاں لگاتے ہیں۔ اس میں ترقی کر کے بڑی دکانیں اور کارخانے قائم کرتے ہیں۔ جس علاقے میں مسلمانوں کا کاروبار ترقی کرتا ہے وہاں ہنگامے کروا کر ان کے کاروبار کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے کاروبار اور گھروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا جاتا ہے۔

اس کا ظلم و تشدد کامظاہرہ دہشت گرد نریندر مودی وزیر اعلیٰ اپنی گجرات صوبہ کی حکمرانی کے دور میں کر چکا ہے۔ تشدد کے دوران ڈھائی ہزار مسلمان شہید کر دیے۔ اسی ظلم کی بنیادپر نمائشی طور پر امریکا نے دہشت گردموددی کو امریکا میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ تشدد کے دور ان مسلمانوں کا کا روبار اور گھر جلا دیے۔ ان کو شہر سے نکال کر مضافات میں رہنے کا حکم دیا، جہاں نہ صاف پانی، نہ گندے پانی کے نکاس کا انتظام ،نہ بجلی اور نہ گیس کا انتظام۔

کیونکہ نریندر مودی آرا یس ایس دہشت گرد تنظیم کا بنیادی رکن ہے۔ اس لیے بھارت کاوزیر اعظم بن کر آر ایس ایس کے ایجنڈے ہندوواتا کے پروگرام پر عمل کر رہا ہے۔ یہ ایسا ہی پروگرام ہے جیسے کہ اس قبل تاریخ میں برہمنوں نے ہندوستان کے قدیم باشندوں داروڑوں کے ساتھ کر چکے ہیں۔ آج وہ ہندوستان میں شودر بنا دیے گئے ہیں۔ ان کے رہنے کی کالونیاں علیحدہ ہیں۔

وہ ہندوؤں کی لیٹررنیں صاف کرتے ہیں۔ سڑکوں پر چھاڑو دیتے ہیں۔ ان کو مندروں کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ پچھلے دنوں ان میں سے ایک ایکسیڈنٹ میں مر گیا توبھارت کے وزیر داخلہ کہتے ہیں سڑک پر کتا مر گیا، کیا ہوا۔ دہشت گرد مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعدپورے بھارت میں پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کے خلاف مہم جاری ہے۔بھارت میں جب پاکستان سے کوئی مسلمان گلوکار جاتا ہے تو اسے پروگرام نہیں کرنے دیا جاتا۔

اس کو پاکستان واپس کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ بھارت کے اداکار جب پاکستان آتے ہیں تو ان کو عزت دی جاتی ہے۔ اگر بھارت میں کسی لکھاری کی کتاب کی نمائش کی جاتی ہے تو بھارت ہی کے میزبان کے منہ پر کالک مل دی جاتی ہے۔ کوئی بھارت کا اداکار پاکستان کے ساتھ امن سے رہنے کی بات کرتا ہے تو اسے پراسرار طریقے سے قتل کر دیاجاتا ہے۔پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو بھارت میں میچ کھیلنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

سوشل میڈیا پربھار ت کے ایک مذہبی رہنما کی ویڈیو کلپ میڈیا پر چل رہی ہے۔ وہ اپنے حکمرانوں کہتا ہے کہ دیکھو کس طرح برما سے مسلمانوں کو نکال دیا گیا۔ اس کے بعدوہاں امن وآ شتی آ گئی۔ سویٹ یونین میں مساجد پر بلڈوز چلا دیے ۔وہاں امن و آشتی آ گئی ۔ بھارت کے حکمران بزدل ہیں مسلمانوں کو جہاں سے کیوں نہیں نکال رہے۔ اس سے قبل ایک ویڈیو پر ایک بھارتی کہہ رہا ہے کہ ہندوؤں کے فلاں تہوار کے وقت بھارتی پولیس نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ باہر ٹوپی پہن کر نہ نکلنا ۔

ورنہ تمھاری حفاظت کی ہماری ذمہ داری نہیں۔ اس دن کسی مسلمان نے ٹوپی نہیں پہنی نہ باہر نکلے۔ ایک ہندو مذہبی پروگرام کے دن مسلمانوں کو کہا گیا کہ اس دن مسجد میں نہ آذان دینا۔ مسجد میں بھی نہ آنا۔ مسلمانوں نے خوف سے اس دن نہ آذان دی نہ مسجدمیں آئے۔ مسجدوں پر تالے پڑھ گئے۔مشہور کر دیاکہ فلاں کے گھر گائے کا گوشت رکھا ہوا۔ اس کو تشدد سے ہلاک کر دیا گیا۔

تحقیق پر معلوم ہو ا اس کی فریج میں بکرے کا گوشت رکھا ہے۔کسی کو گائے لے جاتے وقت تشد کا نشانہ بنایاگیا۔ کشمیر کے مسلمان طالب علموں نے کھیل میں پاکستان کے جیتنے پر خوشی منائی تو انہیں بھارت کے تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا۔ مغل حکمران بابر کی بنائی ہوئی بابری مسجد کو کھرا دیا گیا۔ اب متشدد بھارتی ہندوتاج محل کے لیے کہتے ہیں یہ ہمارے ملک میں ہمیں غلامی بنانے کی نشانی ہے اسے مٹانا چاہیے۔

پاکستان اور مسلمان ملکوں سے نکالے گئے طارق فتح نامی اسلام دشمن شرابی کو بھارت کے الیکٹرونک میڈیا پر پیش کر مسلمانوں کے خلاف استعما ل کیا جارہا۔ بھارت کا پورا میڈیا پاکستان کے خلاف پروپریگنڈا مہم چلا رہا ہے۔ بھارت میں کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے قبرستانوں کی وجہ سے بھارت میں زمین ختم ہو رہی ہے۔ مسلمانوں مردوں کو دفن کرنے کے بجائے آگ میں جلا دیں۔

کیا کیا بیان کیا جائے۔یہ چند واقعات ہیں جو اس وقت ہمارے ذہن میں تھے جو بیان کیے ہیں۔ ایسے ہزاروں مسلم دشمن پاکستان دشمن واقعات ہیں جو طوالت کی وجہ سے بیان نہیں کر رہے۔جبکہ پر امن پاکستان میں نہ کسی مندر کو ڈھایا گیا ہے ۔ نہ ہی ہندووں کو شراب پینے سے روکا جارہا ہے۔نہ ان سے کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے فلاں تہوار پر بجن نہ پڑھو۔ نہ یہ کہا جاتا کہ فلاں دن یہ لباس نہ پہنوں۔

نہ یہ کہا جاتا ہے کہ کسی مذہبی جلوس پر مندروں پر تالے لگا دو اور بجن نہ پڑھو۔ نہ کسی مردے کو جلانے سے منہ کیا گیاہے۔ سیکولر جماعتوں کو تو چھوڑو، مذہبی جماعتوں مثلاًجماعت اسلامی جیسی جماعت کے اندر منارٹی ونگ کام کر رہے ہیں۔ نہ ہی پاکستان میں بھارت کے خلاف جنگ کرنے، اس کے ٹکڑے کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ بھارت کے متشدد رویہ کے مقابلے میں پاکستان میں اسلام کا پرامن رویہ رو بہ عمل ہے۔

بھارت کے حکمرونو ں کے جارحانہ رویہ کے خلاف پاکستان کے حکمرانوں نے معزتانہ رویہ اختیار کیا ہوا۔ جہاں تک بین الاقوامی طور پر شیطان کبیر امریکا سے دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔یہ ایسا ہی معاہدہ ہے جیسیا مشرقی پاکستان کو توڑنے کے وقت اس وقت کی سویٹ یونین سے دفاعی معاہدہ کیا تھا۔ بھارت دنیا میں کسی بھی موقعہ پر پاکستان کو دہشت گرد ملک قراردلوانے کی کوشش سے بازنہیں آتا۔

امریکا خود بھی اسلامی پاکستان اور ایٹمی پاکستان کو توڑنے کا پروگرام رکھتا ہے۔ اس کے تھنک ٹینکوں نے پاکستان کے بکھرنے کے نقشے بھی جاری کیے ہوئے ہیں۔ تکمیل پاکستان کی جاری کشمیر میں تحریک آزادی کے ساتھ فرعونی ظلم سے بھی زیادی ظلم روا رکھا جا رہے۔ پاکستان کے پانی روکنے کے پورے انتظام کر لیے گئے ہیں۔بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرو ا رہا ہے۔

موددی نے بین الاقوامی روایات کو رد کرتے ہوئے تکبر سے کہا کہ پاکستان کو ہم نے توڑا۔ آزادی کے دن کہتا ہے کہ مجھے گلگت اور بلوچستان سے مدد کے لیے فون آ رہے ہیں۔ بھارت کا وزیر داخلہ کہتا ہے پاکستان کے پہلے دو ٹکڑے کیے تھے اب دس ٹکڑے کریں گے۔ صاحبو!ان حالات کی روشنی میں ہم اپنی حکمرانوں اور عوام کو اس بات پر ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔

بھارت میں جاری جنگی جنوں کے مقابلے میں وقت پر تیاری کی بات کرتے ہیں۔ ملک کی ۹۵ فی صدخاموش اکژیت کی خواہش اور بانی پاکستان کے وژن کے مطابق فوراً پاکستان میں اسلامی نظام رائج کر دیا جائے۔ اس سے ٹکڑوں میں بٹی ہوئی پاکستانی قوم یک دم ایک جان ہو جائے گی۔ اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو مذید ترقی دینی چاہیے۔ بھارتی دہشت گرد وزیر اعظم کے بیانات کی روشنی میں اپنے عوام کا خوصلہ بڑھانے کے لیے ایٹمی اور میزائل ٹکنالوجی کے حامل پاکستان کے حکمرانوں کو بیان دینا چاہیے کہ بھارت پاکستان دشمن جنگی پروپیگنڈے کو فورااً بند کرے۔

اپنی عوام کو جنگ پر اُکسانے کے بجائے پر امن پڑوسیوں کی طرح رہنے کی تلقین کرے ۔ ورنہ اگر ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :