نجات دستور کی عمل داری میں ہے

جمعہ 20 اکتوبر 2017

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

چلئے آپ نے یہ تو مانا کہ ترقی ہوئی ہے ،قوم کے لئے یہ خوشی بھی کم نہیں کہ ترقی ہونے کا اعتراف تو کیا گیااور وہ بھی ان کی طرف سے کہ” مستند ہے جن کا فرمایا ہوا“۔لیکن اگر آپ قرضوں کا ذکر کرتے ہوئے ذرا یہ سوچ لیتے کہ دہشتگردی کا مارا ایک بھوکاننگا ملک جس کو دوہزار تیرہ تک دنیا میں کوئی منہ لگانے کو تیار نہ تھا اسے ترقی کے لئے ،بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے ،جاری منصوبوں کی تکمیل اور نئے منصوبے شروع کرنے کے لئے جس سرمائے کی ضرورت ہے وہ قرضوں سے نہیں تو کہاں سے آئے گا؟۔

یہ بات اگر آپ سوچ لیتے تو شائد زیادہ بہتر انداز میں اپنا موقف بیان کرسکتے ۔ آپ کی حب الوطنی اور اخلاص پر ہرگز شک نہیں لیکن جب ملکی معیشت پر بات کرتے ہوئے آپ کے سامنے مشرف کی ساری ٹیم براجمان ہوگی تو قوم کے دل میں خدشات تو سر اٹھائیں گے ،دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونکیں نہ مارے تو کیاکرے۔

(جاری ہے)

شائد اسی لئے احسن اقبال کو یہ کہنا پڑا کہ ایسے تبصروں سے عالمی ساکھ متاثر ہو تی ہے ، کیونکہ دنیا کے ساتھ لین دین ایک سیاستدان نے کرنا ہے اور اس راہ میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ ایک سیاستدان ہی بہتر جانتا ہے ۔

ہر لفظ کی اپنی طاقت ہوتی ہے اور اس بات کی بھی اہمیت کہ وہ کس کے منہ سے ادا ہوتاہے ۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ چودہ اکتوبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں یہی موضوع غالب تھاحالانکہ یہ پریس کانفرنس کسی اور موضوع پر بات کرنے کے لئے بلائی گئی تھی ۔ بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہ فوج کے نمائندے نے سول حکومت کے وزیراور وزیرا عظم کے لئے ”عزت مآب“ کے الفاظ اد اکئے ۔

فوج نے واضح کردیا کہ آئین سے بالاکچھ نہیں ہوگا اور نہ ہی ٹیکنو کریٹ حکومت آئے گی ۔تیر ی آواز مکے اور مدینے ۔ فوج کی طرف سے اس بیان کے بعد تین مبینہ ڈاکٹروں اور حکیم لقمان کی دکان پر شدید مندی کا رجحان ہے لیکن چکوال کے معززدانشورکی بے چینی دیکھنے لائق ہے ۔ گزشتہ چار برس سے صرف اس لئے بری طرح قوم کے درد میں مبتلا ہیں کہ پارلیمنٹ کی فرحت بخش ٹھنڈک سے لطف اندوز ہونے کے لئے ن لیگ نے ٹکٹ عنایت نہیں کی۔

اب ہر روز سرشام انگور کی بیٹی کے روبروٹیکنوکریٹ حکومت کے خدوخال بُنتے ہیں ۔دقت مگر یہ ہے کہ اب ایسے کسی بھی خوا ب میں رنگ بھرنے کی کوشش کرنے والے کو قوم کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وطن عزیز میں ایک بات اب طے ہوچکی کہ جمہوریت ہی اس ملک کا مستقبل ہے اور ہر آنے والا دن اس طے شدہ امر پر مہر تصدیق ثبت کرے گا۔
بد قسمتی لیکن یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے جسم و جاں کو آکسیجن فراہم کرنے والی سیاسی جماعتیں خاندانی رجواڑے بن چکے ہیں ۔

سیاسی نظام کے لئے یہ بات نیک شگون ہے کہ میاں نواز شریف کو سیاست سے بے دخل کرنے کی بھرپور کوشش فی الحال ناکام رہی ہے ،حقیقت یہی ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف کے بغیر مسلم لیگ کا ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آگرے گا۔ بھٹو خاندان تور ہا نہیں لیکن تصور کیجئے کہ آصف علی زرداری یا بلاول کے بغیر پیپلزپارٹی کا حشر کیا ہوگا؟۔عمران خان بعد ازخرابی بسیار گرفتاری کے خوف سے الیکشن کمیشن میں پیش ہونے کا اعلان کر چکے ہیں لیکن اگر کسی بھی مرحلے پر ان کو الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ کی طرف سے نااہلی کے فیصلے کا سامنا کرنا پڑا تو تحریک انصاف برف کی ڈلی کی طرح تحلیل ہو جائے گی۔

مفتی محمو د کے خانوادے کو الگ کیجئے تو جے یو آئی کے پلیٹ فارم تلے جمع امت کی رہنمائی کے دعویداروں کے درمیان جوتیوں میں دال بٹے گی ۔ ولی خان کا خاندان متحد ہوگیا ، ماں بیٹے میں صلح ہوئی خدا مبارک کرے، لیکن کیا سیاسی جماعتیں ایک خاندان کی طرح چلائی جاسکتی ہیں؟ایم کیو ایم کا بانی ذہنی تواز ن کھو بیٹھا ہے اوربرسوں اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کراس کی عظمت کے گن گانے والے آج اس قابل بھی نہیں ہیں کہ کراچی کا کچرا ہی اٹھا سکیں ۔

کمال نے تو کمال ہی کر دیا! فرماتے ہیں چھرا مار پر بات کرنا میرا معیار نہیں ،واللہ !قوم کی بیٹیوں ،ماوٴں ،بہنوں کا تحفظ آپ کا معیار نہیں تو گلا پھاڑ پھاڑ کر مہاجروں کے ووٹ بٹورنے کیلئے اداکاری کیوں کرتے ہو؟رہی جماعت اسلامی تو اپنی دیانت اور امانت کے بت کو صبح شام چومے چاٹے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ملک تو بہت دور کی بات ہے ادارے ہو ں یاسیاسی جماعتیں صرف دیانتداری اور پارسائی سے نہیں چل سکتے ۔

اس کے لئے قابلیت نام کی ایک شے درکار ہوتی ہے ۔اس شخص کی قابلیت کیا ہوگی جو یہ فرماتا ہے کہ لبرل ازم کا مطلب ہے شادی ضروری نہیں،یعنی سماج میں موجود مختلف نظریا ت کے بارے میں بنیادی معلومات تک جس شخص کے پاس نہیں ہیں وہ قوم کو محمد عربی ﷺ کے آفاقی دین کا نظام دینے کی بات کرتا ہے۔ کیا یہ ہوتی ہیں سیاسی جماعتیں ؟کیا یہ ہوتی ہے قیادت ؟دنیا ہم پر ہنستی ہے اور ہم ہیں کہ گندے نالے کی چھت پر نشے میں دھت نشئی کی طرح اپنی ہی عظمت کے گن گاتے چلے جاتے ہیں۔


لیکن عزیزان من!حالات جس قدر بھی دگرگوں ہوجائیں ،بہتری کی طرف لوٹ جانے پر کوئی پابندی نہیں۔ غلط راستے پر جتنا بھی طویل سفر آپ کر چکے ہوں وہ اس وقت بے معنی ہوجاتا ہے جب آپ درست سمت اختیار کر لیں ۔ درست راستے کے انتخاب کے لئے ہمارے پاس دستور نامی ایک دستاویز موجود ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں کہ اس میں کوئی خامی نہ ہو یا بہتری کی گنجائش ختم ہو چکی ہو لیکن بہرحال ہمیں دستور ہی کو بنیاد بنا کر آگے چلنا ہوگا۔

ہر ادارے اور ہر سیاسی دھڑے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں محدود رہتے ہوئے ملکی ترقی کے لئے ان تھک کام کرنا ہوگا۔ ملک کی ساری قیادت کو ببانگ دہل چور اورڈاکو کہنے والے ”پارسائی کے دیوتا “ کو چاہیے کہ وہ ”عطائی ڈاکٹروں “ کے بابری مشوروں پر عمل کرتے ہوئے ہر ایک عدالت کو ”دائرہ کار “ کے چکر میں گھمانے کی بجائے خود کو عدالت کے روبروپیش کرے ۔

سو طرح کے اعتراضا ت کے باوجودحد سے بڑھا ہوا اعتماد تھا یا کیا میاں نواز شریف نے خود کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کردیا اور اب احتساب عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔ قابل اطمینا ن بات یہ ہے کہ عدالت میں داخلے کے لئے ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی گوشمالی کی گئی ہے ۔اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہوورنہ مسلم لیگ ن کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی ۔

مدعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا مقدمہ ایک غیر جانبدار اور شفاف ٹرائل میں ثابت کرے ورنہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے ایک طرف ہوجائے ۔ قاضی القضاةفرما چکے کہ انصاف میں عجلت انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے ،ملک کی عدالتوں میں بیٹھے ہوئے تمام جج قانون کے پابند ہیں اور اگر وہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ محسوس کرتے ہیں تو ملکی نظام ان کویہ رکاوٹ ہٹانے کا بھی پابند کرتا ہے ۔

ذاتی خواہشات ،گروہی مفادات یا کسی بھی قسم کا دباوٴ عدلیہ کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دے گااور جس معاشرے سے انصاف ختم ہو جائے اسے تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ کسی کو اگر اپنی طاقت کا زعم ہے تو وہ تاریخ کا مطالعہ کرے ۔میاں نواز شریف پر ذمہ داری لیکن سب سے زیادہ ہے، اب تک کے حقائق کے مطابق وہ ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں اور ان کی گزشتہ چار برس کی کارکردگی بتاتی ہے کہ انہوں نے ملک کو درست سمت میں آگے بڑھایا ہے ۔

اچھی حکمرانی کے باوجود لیکن خامیاں بھی بہت سی ہیں ۔ ادارے اس طرح مستحکم نہیں ہوسکے جس طر ح کئے جانے کی ضرورت تھی لیکن اس وقت ان کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ اپنی سیاسی جماعت کو منتشر ہونے سے بچانا ہے ۔ دراڑیں واضح ہیں اور چچا بھتیجی کی ملاقات ان دراڑوں کو پاٹنے کے لئے اقدامات کا آغاز ہے ۔ حمزہ شہباز کی گفتگو بتاتی ہے کہ فاصلے ختم ہو سکتے ہیں ۔

اگر یہ فاصلے ختم ہوگئے اور میاں نواز شریف کو آنے والے انتخابات میں فیئر پلے کا موقع مل گیا تو مسلم لیگ ن ایک بار پھر واحد اکثریتی پارٹی بن سکتی ہے ۔ سوال لیکن بالادستی کا ہے ، این اے ایک سو بیس کا تجربہ بتاتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے پیر کاٹنے کے لئے ملی مسلم لیگ اور خادم رضوی کوسنائی نہ دینے والی پکار پر لبیک کا حکم دیا گیا ہے۔ہر حلقے سے دس بارہ ہزار ووٹ کم ہوں گے تو معلق پارلیمنٹ کے بطن سے ایک اور جمالی کو جنم دیا جاسکے گاجواپنے باس کو بخوبی پہچانتا ہو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :