سیاست کی کہانی اور شہباز شریف کہاں کھڑا ہے

بدھ 18 اکتوبر 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

ملک میں جہاں جمہوریت کے حوالے سے سوالات خدشات موجود ہیں۔ وہاں سیاسی قیادت بھی شدید خدشات اور غیر یقینی کی صوتحال سے دو چار ہے۔ میاں نواز شریف نا اہل ہو چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی نا اہلی کے بعد اپنی و اپسی کے لیے بہت کوشش کی ہے لیکن شدید کوشش کے باوجود واپسی کے راستے نہیں کھل رہے۔ وہ اپنی جماعت کے دوبارہ سربراہ تو بن گئے ہیں لیکن پھر بھی معاملات پر ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا کنٹرول کمزور ہو تا جا رہا ہے۔

وہ اپنے آپ کو گیم میں ان رکھنے کی جتنی بھی کوشش کر رہے ہیں، اس کے منفی نتائج ہی سامنے آرہے ہیں۔
ملک سے جانے کا بھی فائدہ نہیں ہوا، واپس آنے کا بھی فائدہ نہیں ہوا۔ عدالتوں میں سیاسی طاقت کے مظاہرے کا بھی فائدہ نہیں ہوا۔ نہ ان کی مزاحمت کے نتائج آرہے ہیں اور نہ ہی مفاہمت کے نتائج آرہے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ بند گلی میں ہیں۔ عمران خان بھی غیر یقینی کی صورتحال کا شکار ہیں۔

کبھی لگتا ہے کہ وہ نا اہل ہو رہے ہیں۔کبھی لگتا ہے نہیں ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انھیں شدید دباؤ میں رکھنا بھی اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ان پر اعتبار نہیں ہے۔ وہ کب کیا کر دیں کسی کو کوئی اعتبار نہیں۔ ان پر نا اہلی کی ایسی تلوار لٹک رہی ہے جس نے ان کو باندھ کر رکھا ہوا ہے۔
اسی لیے وہ خود بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر مجھے نا اہل کر دیا گیا تو میں خاموشی سے گھر چلا جاؤں گا۔

جہانگیر ترین تو عمران خان سے بھی زیادہ خطرے کے زون میں ہیں۔ ان کے بچنے کے امکانات تو بہت کم نظر آرہے ہیں۔ ایسا ماحول بھی لگ رہا ہے کہ اگر عمران بچ بھی گئے توجہانگیر ترین نہیں بچتے۔ اس لیے تحریک انصاف میں شاہ محمود قریشی کا مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔
اس حوالے سے شدید خدشات ہیں کہ کیا وہ وزیر اعظم کے موزوں امیدوار ہیں کہ نہیں۔کیا عمران خان اور جہانگیر ترین کی نا اہلی کے بعد شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کی قیادت مل جائے گی۔

شاہ محمود قریشی کی تحریک انصاف کے اندر کمزور پوزیشن ہی ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ بات غلط نہیں ہے کہ وائس چیئرمین ہونے کے باوجود وہ پارٹی میں علیم خان سے بھی کمزور ہیں۔ پرویز خٹک بھی ان سے مضبوط ہیں۔ ایسے میں کیا شاہ محمود قریشی کو اپنی پارٹی سے راستہ ملے گا کہ نہیں، مشکل نظر آرہا ہے۔
آصف زرداری بھی کوئی اچھی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی کو ریلیف مل رہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ دباؤ میں ہیں۔ خورشید شاہ کی تبدیلی کے اشاروں نے بتایا ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ آصف زرداری اسی لیے نواز شریف سے فاصلہ رکھ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی چیئر مین نیب پر معاملہ فہمی ان کے لیے مشکلات پید ا کر رہی ہے۔ وہ بیک وقت دو کشتیوں کے سوار لگ رہے ہیں۔آصف زرداری کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب تک اپنی پارٹی کی قیادت کے حوالے سے منظر نامہ کلیئر نہیں کر رہے۔


کیا پیپلز پارٹی کے امیدوار بلاول ہیں یا آصف۔ یہ کسی کو بھی نہیں پتہ۔کل کو اگر ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آگئی تو وزارت عظمیٰ کا میدوار کون ہو گا۔کیا آصف زرداری بلاول کو باری دیں گے یا خود ہی دوبارہ باری لے لیں گے۔یہ ابہام جہاں آصف زرداری کی اپنی سیاست کے لیے زندگی ہے وہاں شائد بلاول کے لیے زہر قاتل ہے۔ اسی لیے بلاول کی فلائٹ کئی دفعہ ٹیک آف کر کے بیٹھ گئی ہے۔

آصف زرداری کے دو جلسے بلاول کے غبارے میں سے ہوا نکال دیتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ شہباز شریف کیا کر رہے ہیں۔ وہ بول رہے ہیں لیکن چوہدری نثار علی خان کی طرح نہیں بول رہے۔ وہ اختلاف کر رہے ہیں لیکن ان کا انداز نرم ہے۔ وہ سخت بات بھی نرم انداز میں کر رہے ہیں۔ وہ مزاحمت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ مفاہمت کی بات کر رہے ہیں۔ وہ قومی اداروں کے خلاف بیان بازی کے خلاف ہیں۔

یہ درست ہے کہ پارٹی کا ایک گروپ ان کی بات نہیں مان رہا۔ لیکن وہ مزاحمت کی مخالفت کر رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف ایک محتاط اننگ کھیل رہے ہیں۔
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں کی مصداق وہ مسلم لیگ (ن) کے اندر رہ کر بات کر رہے ہیں۔ انھیں پتہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے باہر جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اسی لیے وہ اپنی جماعت میں رہ کر اختلاف رائے کر رہے ہیں۔

لیکن بغاوت نہیں کر رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنے ناقدین اور مخالفین دونوں کو پریشان کر دیا ہے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن جماعت کے اندر ان کے کاموں کے ساتھ ساتھ اب ان کی رائے کی بھی پذیرائی ہو رہی ہے۔ وہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی قیادت کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ بھی ہے کہ وہ اندر رہ کر راستہ بنا رہے ہیں۔

ان کی وفاداری پر بھی شک نہیں اور اختلاف رائے پر بھی شک نہیں۔ میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی کے حلقہ 120کی جیت کے بعد مسلم لیگ کے کارکنوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے جو اجلاس منعقد کیا۔ا س میں مسلم لیگی کارکنوں کی جانب سے حمزہ شہباز کے حق میں نعرہ بازی کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ اس کو بھی شہباز شریف کے مسلسل اختلاف رائے کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔


ن لیگ میں شہباز شریف کے مخالفین کو یہ پتہ ہے کہ اٹک سے رحیم یار خان تک شیر کی حکومت میں شہباز شریف کو مائنس کیا جائے تو پنجاب میں بھی شیر کا حال باقی صوبوں جیسا ہی ہو گا۔گزشتہ انتخابات میں پنجاب میں جیت کے کریڈٹ سے شہباز شریف کو مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ 38 ضمنی انتخابات کی جیت کو حمزہ کے کریڈٹ سے یک دم ختم کرنا ممکن نہیں۔ ایک ضمنی انتخاب کے نتائج ان 38 پر بھاری نہیں ہو سکتے۔ یہ درست ہے کہ شہباز شریف ایک ایسی پالیسی پر گامزن ہیں نہ اس وقت ان کے مداح ان سے خوش ہیں اور نہ ہی ناقدین خوش ہیں۔ وہ کہیں درمیان میںکھڑے ہیں جہاں دونوں طرف کھڑے ان کو اپنے سے دور دیکھ رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :