مصنوعی ذہانت ۔ آخری قسط

بدھ 18 اکتوبر 2017

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

آکسفورڈ یونیورسٹی کے تھنک ٹینک فیوچر آف ہیومینیٹی انسٹی ٹیوٹ نے کچھ عرصہ پہلے دنیا کی ممکنہ تباہی سے متعلق کئی سال کی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ اس کا ذمہ دار خود انسان ہوگا اور اس میں 12 چیزیں اہم کردار ادا کریں گی۔ ان بارہ چیزوں میں سے ایک مصنوعی ذہانت بھی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر روبوٹ اسی طرح تیزی سے ترقی کرتے گئے تو ایک دن وہ انسانی عقل جیسی ذہانت حاصل کر لیں گے، اس وقت انسان کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا ‘ کیونکہ دنیا پر روبوٹ کی حکمرانی قائم ہوجائے گی‘ جس کا حتمی نتیجہ دنیا کی تباہی کی صورت ہوسکتا ہے۔

ایسا کیوں ہو گا؟ میرے خیال میں اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہر نئی ایجاد میں مصنوعی ذہانت کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو ایک وقت آئے گا جب انسان کی تیار کردہ اور ایجاد کردہ یہ چیزیں اتنا سوچنے کے قابل ہو جائیں گی کہ وہ انسان کی خدمت کیوں کر رہی ہیں‘ جبکہ انہیں اپنی دیکھ بھال خود کرنا پڑتی ہے‘ خود اپنے لئے کیوں کچھ نہیں کرتیں۔

(جاری ہے)

بس یہی نقطہ آغاز ہو گا اس تباہی کا ‘ جس کی طرف سائنس دان اور عمرانی ماہرین و دانشور متوجہ کر رہے ہیں۔ روبوٹ جج کا منصب سنبھالیں گے۔ دنیا کا پہلا ڈینٹسٹ روبوٹ تیار کیا جا رہا ہے۔ مقابل حسن میں روبوٹ کو جج بنا دیا گیا۔ روبوٹ ریستورانوں میں ویٹر کا کام کریں گے۔ روبوٹ شاپنگ میں مدد کریں گے۔ ایسی خبروں سے انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنے فیصد خبریں درست ہیں کتنے فیصد افتراع‘ لیکن ایسی خبریں پڑھ کر میں یہ ضرور سوچتا ہوں کہ جب روبوٹ کو ویٹر بنا دیں گے تو پھر اس کی مرضی ہو کہ وہ مصنوعی انٹیلی جنس کے ذریعے ہمیں جو بھی چاہے کھلا دے۔

جج ہے تو جو چاہے فیصلہ کر دے۔ ڈینٹسٹ ہے تو ہمارا جونسا دانت چاہے نکال دے ‘ یا جس دانت کی چاہے فلنگ کر دے۔ہم اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ اس کا البتہ نقصان ضرور ہو گا۔ یہ کہ ہمارے لا تعداد انسانی ویٹر‘ جج‘ ڈینٹسٹ اوردوسرے شعبوں میں کام کرنے والے بے کار‘ بے روزگار ہو جائیں گے۔ انسانی معاشرے میں انسان ہی کام کریں تو اچھا ہے۔

ہم نے اگر خود کو اپنی ہی وضع کردہ مصنوعی انٹیلی جنس کے حوالے کرنا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ خود کام کریں۔ اس مصنوعی انٹیلی جنس کا نسل انسانی کو ایک اور نقصان یہ ہو گا کہ انسان بے کار بیٹا رہے گا‘ جس کے نتیجے میں بیماریاں پیدا ہوں گی اور بڑھیں گی۔ مثال اس کی یہ دوں گا کہ واشنگ مشین کے ایجاد ہونے سے پہلے ہمارے گھروں کی خواتین کپڑے ہاتھوں سے دھوتی تھیں۔

اس سے ان کی ورزش ہوتی رہتی تھی اور ان میں بیماریوں کی شرح کم تھی ۔ پھر سادہ واشنگ مشین ایجاد ہوئی جس میں کپڑے ڈالنے اور پھر نکال کر پانی میں کھنگالنے پڑتے تھے۔ اس میں بھی خاصی ورزش ہو جاتی تھی۔ پھر آئی آٹو واشنگ مشین‘ جس میں صرف کپڑے ڈالنے ہوتے ہیں۔ وہ پانی خود لیتی ہے۔ ڈیٹرجنٹ کتنا لینا ہی‘ اس کا فیصلہ بھی اس کی مصنوعی ذہانت پر منحصر ہے۔

کپڑے کیسے دھونے ہیں اور کتنے دھونے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی وہی سوچتی ہے۔ ہمیں بس آدھے گھنٹے بعد کپڑے نکال پر سکھانے کے لئے رسی پر ڈال دینے ہوتے ہیں۔اب تو مارکیٹ میں ایسی مشینیں بھی دستیاب ہیں‘ جو کپڑے سکھا کر اور استری کرکے انسا ن کے حضور پیش کرتی ہیں۔ اس طرح اگر مصنوعی ذہانت والی انسان کی ایجاد کردہ چیزوں کو انسان پر غلبہ حاصل کرنے کا خیال نہ بھی آیا تو انسان اپنی بیماریوں کے ہاتھوں ہی تباہی کے دھانے پر جا پہنچے گا۔

سوچنے کی بات ہے انسان کو کیا ملا؟
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روبوٹس مختلف کاموں میں آسانی فراہم کرنے کے لیے تیار کیے گئے ہیں مگر مستقبل میں نوکریوں کی بڑے پیمانے پر کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔ حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ کی 30 فیصد نوکریاں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے زیرِ اثر آسکتی ہیں۔ کچھ محکمے ایسے بھی ہیں جن کی 60فیصد سے زائد ذمہ داریاں جگہ روبوٹس سنبھالیں گے۔

اگر سب کچھ روبوٹ اور مشنیں کریں گی تو انسان کیا کرے گا؟ ایک اور تحقیق یہ ہے کہ مستقبل میں روبوٹس اور مصنوعی ذہانت والی مشینیں حکومتوں کو مجبور کر سکتی ہیں کہ وہ انسانی ورکرز کے کوٹے کے حوالے سے قانون سازی کریں۔ دنیا کے متعدد ممالک میں ایسے خودکار ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ‘ جنہیں استعمال کرنے کے لئے روبوٹ استعمال کئے جائیں گے۔


ایک بات واضح ہے کہ مصنوعی ذہانت کے حصول اور اس کو ترقی دینے کی دوڑ اب روکنے والی نہیں‘ کیونکہ پیسہ کمانے کی ہوس میں مبتلا لوگ اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ کم سے کم پیسہ لگا کر زیادہ سے زیادہ کمایا جا سکے۔ ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا کے بڑے ایگزیکٹوز نے انسانیت کے فائدے کی غرض سے وہ مصنوعی ذہانت کے منصوبے ’اوپن اے آئی‘ کے لیے ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔

اس منصوبے کے حمایت کرنے والوں میں ٹیلسیا موٹرز اور سپیس ایکس کے مالک ایلن مسک، پیپل کے شریک بانی پیٹر تھائل اور بھارتی ٹیکنالوجی کے بڑے ادارے اِنفوسیس اور ایمازون ویب سروس شامل ہیں۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم مشینوں سے ابدی زندگی کا راز حاصل کر سکتے ہیں؟ ایک سائنس دان کا کہنا ہے کہ کسی موڑ پر ہم بھی اپنے دماغ کا نقشہ کمپیوٹر میں ڈال دیں گے جس کی وجہ سے ہمیں مشین جیسی ابدی زندگی مل جائے گی‘ تاہم ان کو اس بات کا خوف بھی ہے کہ جب ہمارا دماغ ایک مشین میں منتقل ہو جائے گا تو ہماری خودی اور شعور کا کیا ہوگا؟ کیا ہم انسان رہیں گے؟ تب کیا ہو گا اگر ہم اپنے وجود کے بغیر ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں گے؟
میرے ذہن میں ایک اور سوال کلبلا رہا ہے۔

یہ کہ بے تحاشا استعمال کی وجہ سے ہماری اس زمین پر فوسل فیول یعنی پٹرولیم و گیس وغیرہ کے ذخائر تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔ آنے والے زمانے میں کسی روز اگر یہ خزانے مکمل طور پر ختم ہو گئے تو یہ جو اے آئی والے روبوٹ اور مشینیں تیار کی جا رہی ہیں‘ ان کا کیا بنے گا اور ان مشینوں کے عادی بن چکے انسان کی حالت کیا ہو گی۔ آج پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ایک گھنٹے کے لئے برقی رو معطل ہو جائے تو زندگی معطل ہو کر رہ جاتی ہے۔

امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں کیاہوتا ہو گا۔ پھر کتابوں میں پڑھا ہے کہ 1859 میں ایک شمسی طوفان کے نتیجے میں اتنی گرمی پڑی تھی کہ چیزیں پگھل گئی تھیں اور کئی مقامات پر آگ بھی لگ گئی تھی۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ اس طرح کا ایک اور طوفان اگر آج کے دور میں آئے تو یہ ہر مشین کو خراب کر دے گا اور اگر ایسا ہوا تو میرے خیال میں اے آئی کے تحت چلنے والی تمام تر مشینری مفلوج ہو کر رہ جائے گی اوور یوں انسانی تہذیب جامد و ساکن ہو کر رہ جائے گی۔

چنانچہ اے آئی کے شعبے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والوں کو اس معاملا کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔
اس بات سے کون انکار کرے گا کہ انسانی انٹر ایکشن کے بغیر انسانی تہذ یب اور معاشرہ یہی رہے گا جو اس وقت ہے۔ کیا یہ ایک سماجی مشین نہیں بن جائے گا؟ اس کی لطافت ختم نہیں ہو جائے گی؟ ایک انسان دوسرے انسان کا مرہون منت ہونے کے بجائے اے آئی والی مشینوں اور روبوٹوں کا غلام بن کر نہیں رہ جائے گا؟ ان سارے سوالوں کا جواب ہاں ہے۔

اسی لئے میرے خیال میں اے آئی سے مستفید تو ہونا چاہئے‘ لیکن اتنا کہ یہ نسل انسانی کے لئے وبال نہ بن جائے ۔ یہ اس کی ترقی میں حصے دار تو بنے لیکن راستے کا پتھر نہ بن جائے۔ یہ اس کی تابع داری تو کرے‘ لیکن نسل انسانی کو غلام بنانے کی سوچ اس کے ذہن میں کبھی نہ ابھر سکے! لیکن کیا ایسا ممکن ہو سکے گا؟ (ختم شد)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :