قائدِملّت لیاقت علی خان شہید … ایک عظیم قومی رہنما

پیر 16 اکتوبر 2017

Majeed Ghani

مجید غنی

16 اکتوبر خان لیاقت علی خان کا یوم شہادت ہے ۔ 1951میں آج ہی کے دن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک ایسی ہستی کو شہید کر دیا گیا جس نے قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں تحریک پاکستان اور بعدازاں استحکام و ترقیِ پاکستان کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں او ر اپنے فرائض منصبی کے دوران ہی شہادت کے رتبے پر سرفراز ہوئے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان ہندوستان کے ضلع کرنال کے ایک نواب خاندان کے گھر 1895میں پیدا ہوئے ۔

والد گرامی کا نام نواب رستم علی خان تھا ۔ والد چاہتے تھے کہ آپ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کریں چنانچہ آپ نے ابتدائی تعلیم کے بعد ایم۔ اے۔ او۔ کالج علی گڑھ سے پولیٹیکل سائنس اور قانون میں بی ۔ ایس ۔سی کی ڈگر ی حاصل کی ۔ بعدازاں انگلینڈ تشریف لے گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹر ز کیا۔

(جاری ہے)

دوران تعلیم طلبہ سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔


انڈیا واپس آنے کے بعدآپ نے سیاست میں آنے اور مسلمانوں کے حقوق کے حصول اور انکے خلاف ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد کا پروگرام بنایا ۔ اگرچہ انہیں کانگرس میں شمولیت کی بھی دعوت دی گئی لیکن ہندولیڈر نہرو سے ایک ملاقات کے بعد ہی انہوں نے کانگرس کی دعوت مسترد کر دی اور قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔

1926میںآ پ نے صوبائی قانون ساز کونسل کا انتخاب لڑااور بلا مقابلہ کامیابی حاصل کی ۔1932 میں آپ یوپی کی لیجسلیٹوکونسل کے بلا مقابلہ ڈپٹی پریذیڈنٹ منتخب ہوئے۔
اس دوران آپ مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کر تے رہے اور مسلمان طالبعلموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر نے اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے زبردست جدوجہد کی۔
1936میں ہندوستان واپسی کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کا اعزاز ی جنرل سیکرٹری بنانے کی قرارداد مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا اس عہدے پر قیام پاکستان تک رہے ۔

1940میں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر بنے۔1940میں قرارداد ِ پاکستان منظور ہوئی اسی سال ہونے والے انتخابات میں بھی آپ بلا مقابلہ ممبر منتخب ہوگئے۔
1945-46کے انتخابات میں بھی آپ نے کامیابی حاصل کی اور مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے چیئرمین منتخب ہوئے ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے مختص سیٹوں میں سے87%پر کا میابی حاصل کی ۔

آپ نے کیبنٹ مشن اور کانگریس کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں قائداعظم کی معاونت کی ۔ تحریک پاکستان زوروں پرتھی بعدازاں جب یہ طے پایا کہ تقسیم سے پہلے کانگرس اور مسلم لیگ کے نمائندوں پر مشتمل ایک عبوری حکومت قائم کی جائیگی تو قائداعظم نے لیاقت علی خان کو مسلم لیگ کے نمائندوں کا لیڈر مقرر کیا ۔ عبوری کا بینہ میں آپ وزیر خزانہ بنے۔ کانگرس اور اسکے لیڈروں کے ذہن میں پہلے ہی فتور تھا اور سب جانتے ہیں کہ وہ قیام پاکستان کی مخالفت کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔

چنانچہ اس موقع پر بھی انہوں نے بڑی چالاکی سے وزارت خزانہ کا محکمہ مسلمانوں کے سپرد کروادیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ مسلمان وزارتوں کو چلانے کے اہل نہیں لیکن جناب لیاقت علی نے اپنی محنت اور قابلیت سے انکی یہ کوششیں بھی نا کام بنا دیں۔ عبوری کابینہ کے حوالے سے جناب قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب”شہاب نامہ“ میں لکھتے ہیں :
”مسلم لیگ کی شمولیت کانگرس کی مرضی کے خلاف عمل میں آئی اس لئے کابینہ میں دونوں کی رفاقت شروع ہی سے معاندانہ اور مخاصبانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔


عبوری حکومت 14اراکین پر مشتمل تھی چھ کانگرسی ، پانچ مسلم لیگی ، ایک سکھ ، ایک عیسائی اور ایک پارسی کانگرس نے جان بوجھ کر فنانس کا پورٹ فولیو مسلم لیگ پر اس وجہ سے ٹھونسنے کی کوشش کی کہ مسلمان مالیاتی حساب میں کمزور تھے اور کانگرس کو امید تھی کہ وہ وزارت ِ خزانہ چلانے میں بُری طر ح ناکام ہونگے ۔ لیاقت علی خان نے یہ وزارت سنبھال کر اس چیلنج کو اس خوش اسلوبی سے قبول کیا کہ بہت جلد کانگرسی وزیر کفِ افسوس ملنے لگے کہ انہوں نے فنانس کا چارج مسلم لیگ کو دیکر بڑی فاش غلطی کی ہے۔


عبوری حکومت کے تجربہ سے پنڈت نہرو ، سردار پٹیل اور انکے ساتھیوں کو یقین ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کر کے کانگرس کبھی بھی من مانی کا رروائیاں کرنے پر قادر نہ ہو سکے گی“۔
”لیاقت علی خان کا پیش کردہ بجٹ جو فروری1947میں پیش کیا گیا اس نے ہندو تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کی آنکھیں کھول دیں اور انہیں یہ فکر دامن گیر ہو گئی کہ متحدہ ہندوستان کی حکومت میں مسلمانوں کا عمل دخل انکے ناجائز مفادات پر ایک ضرب ہو گا “۔


14اگست1947 کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو حضرت قائداعظم پہلے گورنر جنرل اور جناب لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے۔ کانگرس نے انگریز وائسرائے کے ساتھ مل کر زبردست ساز باز کی اور کئی علاقوں کی پاکستان میں شمولیت کو رُکوا دیا ۔ کشمیر پر غاضبانہ قبضہ کیا ۔ قائداعظم اور انکی ٹیم نے ان انتہائی ناموافق حالات میں اس نوزائیدہ مملکت کے مسائل حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔

قائداعظم جن کی شاندار قائدانہ صلاحیتوں اور شبانہ روز محنت سے پاکستان کا قیام ممکن ہوا تھا ، 11 ستمبر 1948 کواپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے تو ان کے بعد مملکت کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی ذمہ داری مکمل طور پر لیاقت علی خان کے کندھوں پر آن پڑی ۔ ملک کی تعلیمی پالیسی بنانے کے لیے اعلیٰ درجے کے تعلیمی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ نیشنل بنک کا قیام عمل میں آیا ، لاہور کے قریب پہلی نہر کی کھدائی کا آغاز ہوا ، کاکول اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا، 1948کی پاک بھارت جنگ میں بہتر پالیسیوں کے باعث بھارت سے تقریباََ ایک تہائی حصہ آزاد کروا لیا گیا جو آجکل آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔


ہمسایہ اور دیگر ممالک سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے لئے بیرون ملک دورے کئے جن میں مصر، ایران، کینیڈا، امریکہ شامل ہیں۔ تقسیم کے بعد مہاجرین کی وسیع پیمانے پر نقل و حمل سے پیدا ہونے والے حالات خصوصاََ اقلیتوں کے مسائل کی وجہ سے بھارت سے جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ان غیر معمولی حالات میں آپ نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھارت کا دورہ کیا اور پنڈت جواہر لعل نہرو سے ایک معاہدہ کیا جو لیاقت نہرو پیکٹ کے نام سے مشہور ہے ۔

آپکے دورہ امریکہ کے حوالے سے آج بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ آپکو دورہ روس کی دعوت پہلے دی گئی تھی اس لیے آپکو روس جانا چاہیے تھا ، امریکہ کا دورہ پہلے کرنے کی وجہ سے پاکستان کا جھکاؤ شروع سے ہی امریکہ کی طرف ہو گیا اور روس میں اس دورے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور بعدازاں ہم روس سے بہتر تعلقات استوار نہ کر سکے ۔

جبکہ ان کے ایک صاحبزادے کے مطابق روس کے دورے کی تاریخ ملنے میں تاخیر ہو رہی تھی اور اس دوران امریکہ کی طرف سے دورے کا دعوت نامہ آگیا چنانچہ آپ پہلے امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئے ۔ اس حوالے سے اس دورے کے دونوں پہلوؤں پر کافی کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے ۔
مملکت کو ایک اسلامی جمہور ی آئین دینے کیلئے آپ نے بھر پور کوششیں کیں ۔ آپ کی خواہش تھی کہ پاکستان کے آئین کی اساس قرآن و سنت پر ہو ۔

اس مقصد کیلئے انہوں نے وسیع پیمانے پر علماء و قانون دانوں سے مشاورت کی اور آئین کا ایک بنیادی ڈھانچہ تیار کیا جو”قرادادِ مقاصد“ کہلاتا ہے ۔ ابتداء میں یہ پاکستان کے آئینوں میں دیباچے کی حیثیت میں رہالیکن بعدازاں1985میں ایک آئینی ترمیم کے ذریعے اسکو آئین کا حصہ بنا لیا گیا اس میں اس بات کا اقرار کیا گیا کہ پاکستان میں خدائے تعالیٰ کو اقتدارِ اعلیٰ حاصل ہو گا جسے پاکستا ن کے عوام خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کریں گے۔

ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جا سکتا ۔ قرار داد مقاصد لیاقت علی خان کا قوم کو ایک لاثانی تحفہ کہا جاسکتا ہے ۔
ملت کے اس عظیم سپوت کو 16اکتوبر1951کو کمپنی باغ راولپنڈی (جو انکی شہادت کے بعد لیاقت باغ کہلاتا ہے) ایک جلسہ عام میں اسوقت گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا جب وہ اپنی تقریر کا آغاز کر رہے تھے۔ سید اکبر نامی قاتل نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور آپ شدید زخمی ہو کر گر پڑے اور شہید ہو گئے لیکن مرتے وقت بھی انکے لبوں پر یہ الفاظ تھے ” اللہ پاکستان کی حفاظت کرے“ مجمع میں بھگدڑ مچ گئی اور ایک سب انسپکٹر نے سید اکبر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔

اس طرح قتل کے نشان مٹا دئیے گئے اس قتل کی تحقیقات سپیشل پولیس کے سربراہ کے حوالے کر دی گئی وہ ضروری کاغذات لے کر جس جہاز میں جا رہے تھے اسکو ”حادثہ “ پیش آگیا اور وہ اسمیں ہلاک ہو گئے ۔ گو بعدمیں تحقیقات ہوتی رہیں لیکن قوم آج تک اس سازش سے لا علم ہے ۔
خان لیاقت علی خان مسلمانان پاکستان کے عظیم رہنما تھے، ملک و ملت کیلئے انکی خدمات مثالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے ۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :