نئے چہرے ، بات پرانی

پیر 9 اکتوبر 2017

Qamar Uz Zaman Khan

قمر الزماں خان

پاکستان کے ہرشہر کی روائتی سیاست پر چار پانچ خاندانوں کی لمبی اجارہ داری موجودہ عہد کی سیاست کا سب سے المناک پہلو ہے۔سیاست کو دولت کی لونڈی بنا دینے کی وجہ سے ،عوام الناس سے کسی سنجیدہ مدمقابل کا ابھرنا مشکل ہوچکا ہے۔خاندانی اجارہ داریوں کو چیلنج نا کیا جانے کی وجہ سے یہ خاندان اپنی سیاست کا محور محض الیکشن لڑنا اور پھر اقتدار کو ذاتی طور پر انجوائے کرنے تک محدود کرچکے ہیں۔

المیہ یہ ہے کہ یہ سیاسی خانوادے پارلیمانی سیاست کے کسی بھی شعبے میں مطلوبہ اہلیت سے محروم ہیں۔ناہی قانون سازی میں عملی شراکت اور ناہی علاقائی مسائل کا ادراک اور انکو حل کرنے کی کاوش ،اسی طرح ناہی اپنے حلقے کے لاکھوں باسیوں کی زندگیوں کوعہد حاضر کی ضروریات سے فیض یاب کرانا انکا مطمع نظر ہے۔

(جاری ہے)

عام لوگ پرامید تھے کہ صادق آباد میں تحریک انصاف کی 4اور5اکتوبر کی دوروزہ بھر پورسیاسی سرگرمیوں میں عام آدمی کو بھی مخاطب کیا جائے گا۔

ان کے دکھوں کو سمجھا جائے گا۔وسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انکی منصفانہ تقسیم کے نظام کی تفہیم کی جائیگی۔پرانے اور نئے امیدوار اپنے ’انقلابی عزائم‘اور ’طوفانی منصوبوں ‘کو ہزاروں حاضرین کے سامنے رکھ کر ’پرانے اور فرسودوہ‘ سیاسی کھیلاڑیوں کی مات کی بنیاد رکھ دیں گے۔ امید رکھی جارہی تھی کہ روز وشب کی ابتلائیں‘ جو لوگ جھیل رہے ہیں،انکے ادراک اور تدارک کا وسیع روڈ میپ سامنے لایا جائے گا تاکہ نئی سیاست کا آغاز کیا جاسکے۔

اگر ایسا ہوتا تو صادق آباد کے لوگوں کی کتنی خوش بختی ہوتی، پرانی سیاست ،کہنہ اور فرسودہ چہروں اور خاندانوں سے نجات کاایک پہلا قدم رکھاجاتا۔ اگر نئی سیاسی ،سماجی زندگی کی امید کی ایک کرن بھی پھوٹ پڑتی تو دھائیوں سے مایوسی کا شکار اس زندگانی میں ایک سماجی جشن کا آغاز ہوجاتا ۔ بہت امید تھی کہ میڈیا کے تمام ذرائع استعمال کرکے صادق آباد کی سیاست میں کڑھی کا ابال پیدا کرنے والے اس میں کچھ حقیقت کا رنگ بھی بھریں گے ،مگر ہوا اسکے برعکس۔

وہی نعرے بازی،وہی الزامات کی طومار،گانے بجانے اور بے ربط تقاریر ،زندہ باد اور مردہ باد، فلاں چور ہے اور فلاں ڈاکو ہے کا تکرار۔صادق آباد میں منعقدہ تحریک انصاف کی دو بڑی تقاریب کے مہمان خصوصی مرکزی سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین تھے۔پانچ اکتوبر کو جب وہ پورے پاکستان کے سیاست دانوں پر کرپشن اور بدعنوانی کے طومار کھڑے کررہے تھے ،اسی دوران سپریم کورٹ آف پاکستان جہانگیر ترین پر ایک سال کے اندر دومتضاد گوشوارے پیش کرنے اور بے آباد زمین سے ڈیڑہ ارب روپے کی آمدنی ظاہر کرکے کالے دھن کو سفید کرنے کے الزامات کی سماعت کررہی تھی۔

اس دوران‘ جہانگیر ترین(بذعم خود دیانت داربنتے ہوئے) پوری گھن گرج سے اپنی سیاسی برادری کے راہنماؤں کو ’ڈاکوقراردے رہے تھے۔ اگردیگر سب سیاسی قوتوں کو ڈاکو اور چور مان کر تحریک انصاف کے مرکزی اور مقامی عہدیداروں اور امیدواروں کو(مفروضے کے طورپر) ان عیوب سے پاک مان بھی لیا جائے تو تب بھی ’عوام کا مقدمہ‘،حل طلب ہی رہتا ہے۔

مخصوص ذات برادری کی بنیاد پر اور شعوری کاوشوں سے جمع کئے گئے مجمع کے سامنے ’پارلیمانی امیدواری‘ کے دعوے دارایک لفظ ایسا نہیں بیان کرسکے جس سے ان کے بہتر سیاسی،سماجی اور معاشی وژن کا مظاہرہ ہوتا ہو۔صادق آباد کی سیاسی نمائندگی کرنے کی آرزو ا پنی جگہ پر ‘مگر جن لوگوں سے ووٹ لینے ہیں
،انکے مسائل اور انکا حل کیا ہے؟اس بحث میں پڑنے کی زحمت نہیں کی گئی۔

پھر مہمان گرامی اور تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین جو صادق آباد اور اسکے گردونواح میں لگائی گئی شوگرملز،ونڈا فیکٹری، بجلی کے کارخانے،زرعی فارمز،ایکسپورٹ ایبل چارہ جات،دودھ دہی اور لائیو سٹاک سے کما کر اپنی تجوری میں دولت کے انبار لگارہے ہیں،مگرانکے پاس تحصیل صادق آباد کو دینے کیلئے ایک پائی بھی نہیں ہے۔انہوں نے اس علاقے کی ویلفیئر کیلئے ایک ادارہ تک قائم نہیں کیا اور ناہی اپنی فیکٹریوں سے پھیلائی ہوئی کثافت اور ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کیلئے کوئی کاوش کی ہے۔

جہانگیر ترین کی اپنی فیکٹریوں کے مزدور بنیادی اور قانونی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں،انکو کمترین اجرتیں دی جاتی ہیں اور دیگر سہولیات کی فراہمی سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔انکے اپنے اداروں اور فیکٹریوں میں مزدوروں کے ساتھ ’انصاف ‘نہیں کیا جاتا اور ناہی قانون پر عملدرآمد کیا جاتا ہے مگر بات وہ پورے پاکستان کو ’انصاف‘ فراہم کرنے کی کرتے ہیں۔

وہ ملک میں تو ’جمہوریت ‘ کے چمپئین بنے پھرتے ہیں مگر اپنی فیکٹریوں میں یونین سازی کا حق دینے کی بجائے خود ہی پاکٹ یونین بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ایسے کھلے تضادات کے پس منظر میں انکے بلند وبانگ دعووں کی بھی کیا حقیقت رہ جاتی ہے ۔ صادق آباد پر حاکمیت کرنے والے چار پانچ خاندانوں کی سیاست اس لئے بے سود اور ناکارہ ہوچکی ہے کہ انکو 12/13لاکھ لوگوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور مسائل سے انکی بیگانگی کی وجہ صرف ’سیاسی اجارہ داری‘ہی نہیں ہے، طبقاتی فرق غالب ہے انکاجہاں اور ہے اور انکے حلقوں کے غریبوں، دہقانوں اور مزدوروں کی دنیا اور۔پھر ان نام نہاد عوام نمائندگان میں سے بیشتر کی رہائش ہی کراچی اور لاہور کے پوش علاقوں میں ہے ،انکا اپنی ’راج دھانیوں ‘میں آنا جانا محض علامتی ہے۔

اس لئے وہ نہیں جانتے کہ سڑکیں اور شاہراہیں کس قدر شکستہ اور بڑھتی ہوئی ٹریفک کے مقابلے میں کتنی ناکافی ہوچکی ہیں۔ وہ غیر ملکی کمپنیوں کا صاف پانی پیتے ہیں اس لئے ان کو معلوم ہی نہیں ہے کہ شہری’ صحت کیلئے مہلک‘ پانی پینے پر مجبور ہیں ۔آبادی کے اعتبار اور یونین کونسل کی سطح پر جدید علاج معالجے کی ضرورت تو وہ تب محسوس کریں اگر انکو اور انکے خاندان کو کسی رورل ہیلتھ سنٹر میں علاج معالجے کیلئے جانا پڑا ہو۔

انکے اپنے بچے اگر پاکستان میں پڑھیں تو مہنگے گرائمر سکولز،صادق پبلک اور ایچی سن کالج جاتے ہیں یا انکا انتخاب برطانیہ اور امریکہ کے اعلی تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جو خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں وہ مہنگے نجی سکولوں کی تعلیم خریدنے کی سکت نہیں رکھتے ،ان کے لئے سرکاری اور مفت سکولوں کے معیار اور انفراسٹرکچر کو بہتربنانے کی ضرورت ہے۔

وہ تو سیاحوں کی طرح یہاں آتے ہیں اسلئے ان کو نئے ’فلائی اوورز‘،نئے راستوں،جدید انفراسٹرکچر ، پارکوں،کھیلوں کے میدانوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔انکے بچے سونے کا چمچ لیکر پیدا ہوتے ہیں اسلئے انکی بے روزگاری کا انکو کوئی ڈر نہیں ہوتا ،انہیں اپنے ہاں پیدا ہونے والے ہر نئے بچے کیلئے ایک علیحدہ سے ’حلقہ انتخاب‘ بنانے اور اسکو الیکشن جتوانے کی چنتا ہوتی ہے اور ایسا وہ کرگزرتے ہیں۔

اس لئے یہاں نئے روزگار کی فراہمی کا نکتہ انکے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہوتا۔ مگر ستم یہ ہے کہ نووارد ’سیاسی چارہ گر‘ بھی کسی قسم کے معاشرتی فہم سے عاری ہی دکھائی دیتے ہیں۔ انکا مسئلہ بھی عوام کے دکھ درد کا تدارک نہیں ہے ۔وہ تو اپنی بے پناہ دولت کو پارلیمانی اورسماجی مرتبے کی بلندی سے ہمکنارکرنے کیلئے ہلکان ہورہے ہیں تاکہ اس طرح انکی دولت کے گھوڑے کوحکمرانوں کی ’ڈربی ریس‘ میں حصہ لینے کا موقع میسر آجائے ۔

خیال تھا کہ جہانگیر ترین اور نئے ’امیدوار‘ کے سامنے روسٹم پر موقع ملنے پر نوجوان اور (جعلی ہی سہی )انقلاب کی لفاظی کرنے والے مقررین’صادق آباد‘ کو نیا ضلع بنانے کی ضرورت کے وکیل بنیں گے،مقامی صنعتوں میں مقامی نوجوانوں کو’ترجیحی روزگار‘ مہیا کرنے کا مطالبہ کریں گے۔مجھے امید تھی کہ یہ غریب سیاسی کارکن ‘ دیگر اور جہانگیر ترین کی صنعتوں میں کام کرنے والے کارکنان کی حالت زار بہتر بنانے اور صادق آباد میں صنعتی مزدوروں کی تعداد کے مطابق لیبر کالونیز،لیبر اسپتال،لیبر اسکول اور کالجز کے قیام کی بات کریں گے۔

ہائیپاٹائیٹس اور دیگر امراض کا باعث بننے والے مضرصحت پینے کے پانی کووسیع پیمانے پر قابل استعمال بنانے کے جامع پروگرام کی ضرورت کو بیان کریں گے۔ غربت اور مہنگائی کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی ضرورت تھی۔مگر زیادہ المناک منظر وہ تھا جب خود کو ’نظریاتی‘ اور بنیادی کارکن کہنے والے وہ نوجوان جو سالہا سال سے تحریک انصاف کے ساتھ وابستہ ہیں انہوں نے پارٹی، نظریات،سیاسی پروگرام یا مطالبات کی بجائے’ نووارد کروڑپتی ‘کے فضائل اوراسکی شان وشوکت کی بلندی کیلئے اپنے گلے میں خراشیں ڈالنی شروع کردیں۔

سیاسی کارکنان کا یہی قبیلہ ہے جو تبدیلی کے نعرہ بلند کرکے جمود کے پتھر پر ماتھا ٹیک دیتاہے ۔سیاست کا اگر یہی چلن ہے تو یہ عوام کی نہیں خواص کے مفادات کی سیاست ہے، طبقاتی سیاست جواہل زرکی تفریح طبع اور مفادات کی تکمیل کے سوا کچھ ڈلیور کرنے کے قابل نہیں ہے۔۔سرمایہ دارانہ نظام کے سیاسی منظر نامے کی یہ افسوسناک تصویر ہے،جس میں صرف بندہ بدلنے پر زور دیا جاتا ہے،بدترین حالات اور مسائل کوجنم دینے والے نظام کو مقدس سمجھ کر جوں کا توں ہی برقرار رہنے دیا جاتا ہے۔ضرورت اس نظام کو بدلنے کی ہے،چہرے بدلنے سے کچھ نہیں بدلنا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :