سعودی عرب میں آنے والی نئی تبدیلیاں!

جمعہ 29 ستمبر 2017

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

26ستمبرشام کوسعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے ایک تاریخی حکم نامہ جاری ہوا۔جس میں پہلی مرتبہ عورتوں کو سعودی عرب میں ڈرائیونگ کرنی کی اجازت دی گئی۔اس حکم نامے میں کہاگیا کہ کہ ایک ماہ تک متعلقہ لوگ بادشاہ کو تجاویز دیں گے، جس کے بعد جون 2018تک ہرحال میں یہ فیصلہ نافذ العمل ہوجائے گا۔سعودی عرب میں شروع سے عورتوں کی ڈرائیونگ پرباقاعدہ قانونا اگرچہ پابندی نہیں تھی ،تاہم تہذیبی اور معاشرتی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عمل کی اجازت نہیں تھی۔

بہرحال اس تاریخی فیصلے کو دنیا بھر میں سراہا جارہاہے۔ڈونلڈ ٹرمپ،انجیلا مرکل،برطانوی وزیراعظم تھریسامے سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے سعودی عرب کے اس فیصلے پر داد دی ہے۔جب کہ سعودی عرب کی علماء کمیٹی نے بھی اس فیصلے کو وقت کی ضرورت قراردیتے ہوئے کہا کہ شرعی طور پر عورتوں کی ڈرائیونگ کے خلاف کوئی صریح دلیل نہیں ہے،تاہم علماء نے اجتہاد کرکے مفاسد کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ممنوع قراردیاتھا۔

(جاری ہے)

سعودی ماہرین اقتصادیات کے مطابق اس فیصلے سے ملک کی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔کیوں کہ ساڑھے چار بلین ڈالر سالانہ خواتین 10 لاکھ سے زیادہ ڈرائیووں کو دیا کرتی تھیں،اس فیصلے کے بعد یہ رقم بچ جائے گی۔عوامی سطح پر اس فیصلے کے حق اور مخالفت میں رائے عامہ تقریبا برابرہے۔اس فیصلے کو سراہنے والے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ پہلے عموما غیر محرم ڈرائیوروں کے ساتھ خواتین کو مجبورا جانا پڑتا تھا، جب کہ اس فیصلے کے بعد خواتین غیرمحرم ڈرائیوروں سے آزاد ہوجائیں گی۔

جب کہ کچھ لوگ معاشرتی اورثقافتی روایات کی وجہ سے اس فیصلے پرخدشات رکھتے ہیں۔ کیوں کہ عرب بالخصوص سعودی عرب ثقافتی اور تہذیبی طور پر عورتوں کے معاملے میں انتہائی حساس ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج تک خواتین کو عرب معاشرے میں بے پناہ عزت حاصل ہے،بلاحجاب عورتوں کو عیب کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے،کام کاج کرنے والی خواتین کو بھی معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

اس وجہ سے بہت سے لوگ اب بھی یہی توقع کررہے ہیں کہ بہت کم تعداد میں خواتین ڈرائیونگ کو پسند کریں گی۔تاہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بھرمار اوربین الاقوامی سرمایہ کاروں کی بہتات کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں عرب کلچر اور ثقافت یکسر تبدیل ہوجائی گی۔جس کااندازہ یہاں کے لباس اور پرتعیش رہن سہن سے لگایا جاسکتاہے۔

جس پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بھرپور قبضہ ہوگیا ہے۔
سعودی عرب میں آنے والی نئی تبدیلیوں میں دوسری تبدیلی 23ستمبر کو سعودی عرب کے87ویں قومی دن کی تقریبات میں بایں طور دیکھی گئی کہ پہلی مرتبہ سعودی عرب کے قومی دن کو انتہائی جوش جذبے سے منایا گیا۔ریاض میں حکومتی سطح پر منعقد کی گئی قومی دن کی ایک تقریب میں مردوں کے ساتھ پہلی مرتبہ خواتین کو بھی شرکت کی اجازت دی گئی۔

ایک اور تبدیلی یہ سامنے آئی کہ اب حکومتی سطح پر خواتین کے مارکیٹ میں کام کرنے کو حکومتی سطح پر سراہا جارہاہے۔جس پر چند سال پہلے تک وہ توجہ نہیں تھی جو اب ہے۔چنانچہ پہلے خواتین حکومتی شوری ٰ میں شرکت نہیں کرسکتی تھیں،مگر شاہ عبداللہ نے پہلی مرتبہ خواتین کو حکومتی شوری میں شامل کیا۔خواتین کے معاملے میں آنے والی ان تبدیلیوں
کی بڑی وجہ عالمی سطح پر سعودی عرب پر ہونے والی وہ تنقید ہے جس میں سعودی عرب کو خواتین کے حقوق کے معاملے میں شدت پسندی کا طعنہ دیا جاتاتھااور اس تنقید میں انتہائی مبالغہ آمیزی بھی کی جاتی رہی ہے۔

ورنہ سعودی عرب میں خواتین کو جو حقوق حاصل ہیں وہ شاید کسی اور ملک میں نہ ہوں ۔کیوں کہ یہاں خواتین کونکاح کے معاملے سے لے کر وراثت تک حکومتی اور معاشرتی سطح پر جوحقوق حاصل ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔بہرحال خواتین کے معاملے میں آنے والی یہ نئی تبدیلیاں اگرچہ خوش آئندہیں ،مگر ان کے ساتھ شرعی اور ثقافتی اقدار کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔


سعودی عرب میں آنے والی نئی تبدیلیوں میں ایک اورتبدیلی یہ ہے کہ جس کا اظہار امریکی وزیرخارجہ ٹیلرسن نے ایک سائل کے جواب میں کیا۔سوال یہ تھا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی پھیل رہی ہے،جس کا تانے بانے سعودی عرب سے ملتے ہیں،کیوں کہ داعش اور القاعدہ ایسی شدت پسندسوچ یہیں سے پروان چڑھیں،تو امریکی حکومت اس سوچ کو ختم کرنے کے لیے کوئی مستقل اقدامات کیوں نہیں کرتی؟جواب میں ٹیلرسن کا کہنا تھا کہ امریکا نے سعودی حکومت کے ساتھ مل کر ریاض میں ایک مرکز کھولا ہے،جہاں سعودی عرب میں پڑھائے جانے والے نصاب اور دیگر کتب پر غور وفکر کیا جائے گا۔

اس میں جہاں کہیں شدت پسند سوچ ملی اسے ختم کردیا جائے گا۔بظاہر ٹیلرسن کا یہ جواب اچھا ہے۔لیکن بہت سے لوگ اس پر بھی خدشات کا اظہار کررہے ہیں،کہ کہیں اس کی آڑ میں اسلامی روایات پر ہاتھ نہ صاف کردیا جائے۔لیکن سعودی معاشرے کی دین سے جڑی روایت کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا ہونا ناممکن ہے۔لیکن بہرحال پھر بھی امریکا کی چالاکیوں پر نظر رکھنا ہوگی۔

کیوں کہ یہی امریکا ہے جس نے نائن الیون کے نام پر اسلامی دنیا کو تہس نہس کیا۔یہی امریکا ہے جس کے صدر بش نے کہا تھا کہ نائن الیون دراصل مسلمانوں کے خلاف عیسائی مقدس جنگ کا آغازہے۔یہی امریکا ہے جس نے دہشت گردیکو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑدیا۔اس لیے امریکا کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے ہمیشہ کڑی نظر رکھنا ہوگی۔
بہرحال سعودی عرب میں آنے والی ان تبدیلیوں سے روشن مستقبل کی امید ہے۔

لیکن ان تبدیلیوں میں ہمیشہ معاشرتی رویوں اور ثقافتی اقدار کا پاس رکھنا بہت ضروری ہے۔کیوں کہ اگر ان تبدیلیوں کی آڑ میں خدانخواستہ معاشرتی اور تہذیبی اقدار جاتی رہیں تو ملک میں فساد پھیل جائے گا۔جس کے نقصانات انتہائی بھیانک ہوں گے۔دعاہے کہ اللہ ایسے وقت سے سعودی عرب اور امت مسلمہ کو محفوظ رکھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :