ن لیگ کی جیت یا پی ٹی آئی کی فتح۔۔؟

جمعرات 21 ستمبر 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

این اے120 لاہور کے ضمنی الیکشن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی کامیابی کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ جیتی ہوئی نشست کو دوبارہ جیتنایہ کوئی معنی نہیں رکھتا، حیرانگی کی بات تب ہوتی جب اس الیکشن میں کلثوم نواز شکست سے دو چار ہوتی۔۔ یہ نشست تو نواز شریف کے وقت سے مسلم لیگ ن کے کوٹے میں تھی۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس نشست پر اگر کلثوم نواز کے علاوہ شریف خاندان کا کوئی اور فرد بھی اگر قسمت آزمائی کرکے الیکشن لڑتا تو تب بھی پوزیشن یہی ہوتی اور ن لیگ کا امیدوار ہی مرد میدان ٹھہرتا۔

۔ لاہور الیکشن میں حیرانگی کی جو بات ہے وہ کلثوم نواز کی جیت نہیں بلکہ تحریک انصاف کی خاتون امیدوارڈاکٹر یاسمین راشد کی بھرپور مزاحمت اور معمولی مارجن سے شکست ہے۔

(جاری ہے)

۔ لاہور جسے ن لیگ کا گڑھ کہا جاتا ہے اور این اے 120 جسے تین بار ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کے حلقے کا نام دیا جاتا ہے۔۔ اپنی ہی حکومت میں اس گڑھ اور حلقے سے رو رو کر جیتنا یہ کوئی چھوٹی اور معمولی بات نہیں بلکہ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے ۔

اسے اگر تحریک انصاف کی سیاسی فتح قراردیاجائے توبھی بے جانہ ہوگا ۔۔ این اے 120 کی نشست سابق وزیر اعظم اور بیگم کلثوم نواز کے شوہر نامدار میاں نواز شریف کی نااہلی کے باعث خالی ہوئی تھی اور یہ اس ملک کی روایت ہے کہ یہاں جو کوئی جگہ ۔۔ کرسی یا کوئی سیاسی نشست کوئی شخص خالی کر دے ۔۔ لوگ پھراز راہ ہمدردی اسی جگہ ۔۔ کرسی یا سیاسی نشست پر اسی شخص کے کسی جانشین کو کندھوں پر اٹھا کر اس کرسی پر بٹھانے یا اپنے قیمتی ووٹوں کے ذریعے اسی نشست پر اسے منتخب کرانے کو انصاف سمجھتے ہیں ۔

۔ ہمارے سامنے ایک دو نہیں ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ باپ نے کرسی چھوڑی اورلوگوں نے اس کے بیٹے ۔۔ بیٹی یا پوتے اور نوا سے کو اسی پر بٹھایا ۔ میدان سیاست میں اگر کوئی باپ۔۔ چچا۔۔ ماموں یا نانا فوت ہوا تو لوگوں نے اسی کے بیٹے۔۔ بیٹی۔۔ بھانجے۔۔ بھتیجے یا کسی پوتے اور نواسے کو اسی کی نشست پر ناظم۔۔ ایم پی اے اور ایم این اے منتخب کیا۔

۔ اس لئے نواز شریف کی چھوڑی ہوئی نشست پر کلثوم نواز کو ایم این اے منتخب کرانا یہ صرف اہل لاہور یااین اے120 کے مکینوں کی روایت۔۔عادت یامجبوری نہیں بلکہ نام نہاد انصاف،بے جاہمدردی کایہ گھناؤنا کھیل یارواج کراچی سے گلگت ۔۔چترال سے کاغان اورپشاورسے مری تک پورے ملک میں برسوں سے نہ صرف عام ہے بلکہ دھڑلے سے جاری وساری بھی ہے ۔اسی رواج یابے جاہمدردی کے تحت این اے120 کے مکینوں نے بھی کلثوم نوازکوایم این اے منتخب کرکے نوازشریف سے ہمدردی کااظہارکردیا۔

اس لئے کلثوم نوازکی اس کامیابی کومسلم لیگ ن کی کامیابی قراردیناہمارے نزدیک مناسب نہیں ۔۔لاہورضمنی الیکشن میں اگرکلثوم نواز50یا60ہزارکی لیڈسے جیت جاتی توتب یہ ن لیگ کی کامیابی اورعظیم فتح ہوتی لیکن کلثوم کواتنے ہی ووٹ ملے جتنی این اے120 میں سابق وزیراعظم نوازشریف سے ہمدردی رکھنے والوں کی تعدادتھی ۔۔لاہورسے اسلام آبادتک پوری سرکاری مشینری اپنی ہونے کے باوجودایک سابق وزیراعظم کی اہلیہ کاتحریک انصاف کی ایک عام خاتون کے مقابلے میں مشکل سے کامیابی یہ مسلم لیگ ن کی کامیابی نہیں بلکہ ن لیگ سے وابستہ ٹولے کے لئے لمحہ فکریہ اورعبرت کاایک مقام ہے ۔

۔کلثوم نوازکواب کی بارتوہمدردی کے ووٹ ملے ۔۔الیکشن 2018میں ہمدردی کے ووٹ جب منفی ہوں گے پھراس وقت اس حلقے پرلیگی امیدوارکاکیاانجام ہوگا۔۔؟بظاہر این اے120 میں تحریک انصاف کوشکست ضرورہوئی لیکن اگرٹھنڈے دل ودماغ سے سوچاجائے توپی ٹی آئی کی ڈاکٹریاسمین راشدکی یہی ہاراصل میں تحریک انصاف اورعمران خان کی کامیابی کانقطہ آغازہے ۔۔لگتاہے پی ٹی آئی کے چےئرمین عمران خان پچھلے کئی سال سے عوام میں شعوروآگاہی کے لئے جوتک ودداورجدوجہدکررہے تھے اب اس کے ثمرات سامنے آناشروع ہوگئے ہیں ۔

۔ایک ایسے شخص جوتین باراس ملک کے وزیراعظم رہے کی اہلیہ کے مقابلے میں ایک عام خاتون کوہزاروں کے حساب سے ووٹ پڑنایہ کوئی چھوٹی اورمعمولی بات نہیں ۔۔بلکہ یہ عوام میں شعورکی بیداری کی ایک زندہ مثال ہے ۔۔اس طرح کی ایک مثال 2011کے عام انتخابات میں اپنے آبائی ضلع بٹگرام کی صوبائی نشست پی کے 59میں ہی دیکھی تھی ۔۔بٹگرام کی سیاست ہمیشہ خوانین کے زیرسایہ یازیراثررہی ہے۔

۔نشست قومی اسمبلی کی ہویاصوبائی کی۔۔ہرایک پرہردورمیں کوئی نہ کوئی خان ہی کامیاب رہا۔۔جس طرح تحریک انصاف کی تیسری قوت بننے سے پہلے ملک میں مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی کی باریوں کارواج عام تھا۔۔ہوبہواسی طرح ضلع بٹگرام میں بھی خوانین کی باریاں مقررتھیں ۔خانگی سیاست کے باعث صوبائی نشست کاتوایک گروپ نے باقاعدہ ٹھیکہ ہی لے رکھاتھا۔

۔جہاں موروثی سیاست کی جڑیں اتنی مضبوط ہوگئی تھیں کہ اس نشست پرکسی تیسرے کاکیا۔۔؟دوسرے کے آنے کابھی نام ونشان تک نہیں تھا۔۔لیکن 2011کے الیکشن میں ایک مضبوط خانگی گروپ کے مقابلے میں ایک عام امیدوارمولاناعطاء محمددیشانی کوجس طرح ووٹ پڑے اس نے وہاں کی روایت ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے توڑڈالی ۔۔ماناکہ اس نشست سے مولاناعطاء محمددیشانی بھی پی ٹی آئی کی ڈاکٹریاسمین راشدکی طرح کامیاب نہیں ہوئے لیکن ہارکربھی وہ وہاں سے جس طرح جیتے اس کے اثرات اورثمرات آج تک باقی ہیں ۔

۔مولاناعطاء محمددیشانی نے پچھلے الیکشن میں خانگی گروپ کوجس طرح ناکوں چنے چبوائے اس سے یہ امیدچلی ہے کہ آئندہ الیکشن میں عطاء محمددیشانی کاپلڑہ پہلے سے بھی بھاری ہوگا۔۔اسی طرح ڈاکٹریاسمین راشدنے بھی این اے120 میں شریفوں کی نیندیں حرام کرآئندہ الیکشن میں اس حلقہ سے کسی عام امیدوارکی کامیابی کی بنیادرکھ دی ہے۔۔اس لئے کلثوم نوازکی کامیابی پرن لیگ کے کارکنوں اوررہنماؤں کومونچھوں کوتاؤدیتے ہوئے اچھلنے اورکودنے کی بجائے توبہ واستغفارکرنی چاہئے۔

۔وہ وقت گزرگیاجب لوگ سرنیچے کرکے خاموشی سے اپناووٹ کسی خان۔۔نواب۔۔وڈیرے۔۔رئیس۔۔چوہدری اورکسی جاگیرداروسرمایہ دارکے بیلٹ باکس میں ڈال دیتے تھے۔۔اب شعورنے لوگوں کے دل ودماغ کے بنددریچے کھولنے کے ساتھ برسوں سے سوئے ہوئے ان کے مردہ ضمیروں کوبھی جگادیاہے۔۔اسی وجہ سے اب لوگ سرجھکانے کی بجائے ہاتھ اورسراٹھاکر ووٹ
پول کرتے ہیں ۔۔کسی کواگرکوئی شک ہوتووہ این اے120 ضمنی الیکشن کے نتائج آنکھیں کھول کرپھرسے دیکھیں۔۔شیرکے مقابلے میں دس بارہ یہ کوئی فرق نہیں ۔۔عوامی شعورکے باعث ن لیگ لاہورضمنی الیکشن جیت کربھی ہارگئی ہے جبکہ عمران خان شکست کھاکربھی جیت چکے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :