مملکت کا کام نہیں رکتا

اتوار 17 ستمبر 2017

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

عمران خان نے مایوس ہو کر کہا کہ شکر ہے مرکزی حکومت نہیں ملی تھی ورنہ ہم نااہلی اور نا تجربہ کاری کی وجہ سے مرکز میں ناکام ہو جاتے۔ عمران خان بذات خود ایک سچا، ایماندار اور بہادر آدمی ہے ورنہ الیکشن قریب ہوں تو ایسی بات کوئی نہیں کرتا ۔ بقول جناب ہارون رشید کے ، جب میاں نواز شریف کو بیورو کریسی نے الیکشن جتوادیا تو وہ خود حیران ہوئے اور اپنے کھابہ خور دوستوں سے کہنے لگے کہ یارو کیا ہوگا ملک کون چلا ئیگا کسی خواجے کے گواہ ڈڈونے کہا میاں صاحب آپ اپنی خوراکوں پر دھیان دیں ملک کی فکر نہ کریں۔

جو لوگ پہلے ملک چلا رہے ہیں وہ ہی چلاتے رہینگے ۔ میاں صاحب وزیراعظم بن گئے تو کچھ عرصہ بعد انہیں خود ملک چلانے کی بیماری لاحق ہوگئی جواب خاندانی بیماری میں بدل چکی ہے۔

(جاری ہے)

آجکل میاں صاحب کی دختر نیک اور داماد کو اس بیماری نے لپیٹ میں لے رکھا ہے جسکی دو اپنجاب کے حکیم اعلی میا ں شہباز شریف کے پاس بھی نہیں۔
میاں صاحب کو کسی نے بتایا کہ آپ فوج اور عدلیہ کو کسی طرح تابع فرمان کر لیں تو آپ کے بعد ہزاروں سال تک میاں خاندان بلا خوف و خطر اس ملک پر حکمرانی کریگا ۔

میاں صاحب نے اپنے صلاح کاروں کے مشورے پر اپنے طریقوں سے حکومت کا آغاز کیا تو رسواہو کر وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے دوسر ی بار تو مرتے مرتے بچے مگر باز پھر بھی نہ آئے ۔بھلا ہو جنرل مشرف کا ، امریکہ اور سعودی کا جنہوں نے میاں خاندان کو ڈالروں سے بھرے سینکڑوں اٹیچی کیسوں سمیت جدہ بھجوا دیا۔
میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بنے توحسب سابق رعونت اور تکبر کی چارد اوڑھ کر وزارت اعظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ گئے ۔

پردہ غیب سے ایک مصدق ملک آیا اور جنرل پرویز مشرف کی ساری ٹیم ہانک کر لے آیا۔ ستر کی دھائی میں بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنیوالی سازش کا اہم رکن اور دہشت گردوں کا کمانڈر چڑی مار سیٹھی اور اُسکی فیشن ڈیزائیز بیگم نے شہزادی مریم کی تربیت کا ذمہ لیا اور خود ساختہ شہزادی کو فوج ، عدلیہ ، نظریہ پاکستان کے خلاف زہر آلود پر اپیگنڈہ کرنے کے لیے تیار کیا۔

سیٹھ چڑ ی مار سیٹھی ، بیگم چڑی مار اور مصدق ملک نے خود ساختہ شہزادی کوزیراعظم ہاؤس میں ایک پراپیگنڈہ سیل قائم کرنے میں مدد کی اور شتربے مہار میڈیا کی مدد سے فوج ، اسلام ، نظریہ پاکستان ، آئی ایس ، آئی اور عدلیہ پر زہر آلود تیر برسانے کا سلسلہ شروع کیا ۔ میڈیا سیل کی موجودگی میں خوش خوراک ، خوش لباس ، خوشحال ، کسی حد تک خوش بخت اور خوش فہم وزیراعظم اکثر ملک سے باہر رہنے لگا۔

میڈیا سیل اور ہمنوا میڈ یا نے ملکر ڈان لیکس سمیت بہت سے محاذوں پر کامیابی حاصل کر لی اور وہ کام جو پاکستان کا ازلی دشمن بھارت اور اُس کے ہمنوا ملک اور اقوام نہیں کر سکے تھے مریم اور مفاد پرست میڈیا نے کر دکھایا۔
میاں خاندان کو تیسری بار بر سر اقتدار لانے والی قوتوں نے میاں برادران کو جو ٹاسک دے رکھا تھا وہ نہ صرف اُس کی مانیٹرنگ کرتے تھے بلکہ سہولیات بھی فراہم کرتے تھے۔

بھارتی ، افغان اور امریکن میڈیا وہ ہی بات درست تسلیم کرتا تھا جو مریم اور مفاد پرست میڈیا بیان کرتا تھا ۔ مریم میڈیا کے ہمنوا وطن فروش میڈیا اور صحافیوں نے اس بزنس میں اربوں روپے کمائے جو قومی خزانے سے اشتہاروں کی مد میں ادا کیے گئے ۔ بیرونی سہولت کاروں کو کیا ملا اسکا حساب اسحاق ڈار ہی دے سکتے ہیں مگر جو نقصان پاکستان کا ہوا اُسکا حساب مانگنا جرم قرار دیا گیا ۔

مریم اور مفاد پرست میڈیا کے اقوال زریں کو جموریت ، آزادی ، صحافت اور حقوق انسانی سے جوڑ دیا گیا ہے اور ان کی بد اعمالیوں پر حرف اُٹھانا جمہوریت کی نفی کے مترادف ہے۔
میاں خاندان کو اقتدار کے سنگھا سن پر بٹھانے والی قوتوں کی سب سے بڑی کامیابی میاں نواز شریف کا وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے سرہانے کے نیچے رکھ کر سو جانا تھا۔ پاکستان جیسا ملک جس پر ہر طرف سے دشمن یلغار کر رہا ہو اور درجنوں فوجی جوان اور سینکڑوں بے گنا ہ شہری روزانہ مارے جا رہے ہوں کا کل وقتی وزیر دفاع اور وزیر خارجہ نہ ہونا ایک بڑا سوال ہے۔

بھارتی جاسوس کلبہوشن یادیو پر وزیراعظم کی خاموشی اور پھر عالمی عدالت میں بھارت کے لیے کام کرنے والا وکیل بھجوانا میاں نواز شریف کی ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا کسی اور ملک کا صدر یازیراعظم ایسا جرم کر سکتا ہے؟اور قوم مدہوشی کا جام پی کر سوتی ہے۔یہ اعزاز بھی پاکستانی قوم کو ہی حاصل ہے جو ایسے جرائم کے مرتکب شخص کو ہی اپنا لیڈر اور قائد تسلیم کرتی ہے۔


میاں نواز شریف کو قدرت نے پانامہ لیکس کی صورت میں تیسری باربے نقاب کیا اور وزارت عظمیٰ سے دھکا دیکر نکالا مگر نہ پاکستانی قوم نے اور نہ ہی میاں خاندان نے عبرت حاصل کی ۔ نواز شریف ، زرداری اور قوم پرست سیاسی پریشر گروپوں نے ملکر میثاق جمہوریت اور اٹھارویں آئینی ترمیم کی صورت میں وطن دشمنی کا ایسا جال بن دیا ہے جس سے نجات کسی حد تک نا ممکن ہے میثا ق جمہوریت اور اٹھارویں آئینی ترمیم مفاد پرست ٹولے کو ملک پر مسلط کرنے ، قومی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے ، ملک میں افراتفری اور غیر یقینی حالات کو برقرار رکھنے ، ملکی اداروں کو مفلوج کرنے اور اُ ن پر من پسند اشخاص کو مسلط کرنے ، فوج اور عدلیہ کو دباؤ میں رکھنے اور بھارت کی بالا دستی تسلیم کرنے کا آئینی اور قانونی جواز ہے جسے پاکستان مخالف بیرونی قوتیں تسلیم کر چکی ہیں۔

اٹھارویں آئینی ترمیم میثاق جمہوریت کے بطن سے پیدا ہوئی اور آج پوری طرح توانا او ر تندرست حالت میں ملکی نظام بگاڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ڈان لیکس ، کلبہوشن کیس ، معاشی دہشت گردی ، ڈاکٹر عاصم اور ڈالر گرل کیس پر حکومتی پھرتیاں ، الطاف بھائی کے سنہری کلمات پر خاموش ، الیکشن کمیشن کا مومی مجسمہ ، قمر زمان چوہدری جیسے فرشتہ سیر ت انسان کی باہمی ملی بھگت سے نیب کے سرابرہ کی حیثیت سے تعیناتی ، ظفر حجازی جیسے جہازی اور دیگر جہازیوں کی اہم شعبوں میں تعیناتی میثاق جمہوریت اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے ہی کارنامے ہیں۔

اٹھارویں آئینی ترمیم 1973ء کے آئین سے بھی بڑا کارنامہ ہے۔ اس ترمیم کی افادیت اور شخصی مفادات پر جشن تو منایا ہی گیا مگر حیران کن بات یہ ہوئی ہے کہ جن اراکین اسمبلی نے اپنے رسیا ذہنوں کے استعمال سے یہ ترمیم تخلیق کی انہیں صدر مملکت عزت مآب جناب آصف علی زرداری نے تمغہ خدمت سے بھی نوازا ۔ اس آئینی ترمیم نے جتنی زرداری اور میاں خاندان کی خدمت کی ہے اتنی 1973ء کے آئین نے پاکستان کی بھی نہیں کی۔


مجھے پتہ نہیں کہ جناب عمران خان رنجیدہ کیوں ہوئے جس حکومت میں شیر پاؤ اور پرویز خٹک ہوں وہ ایسے ہی چلتی ہے اگر وہ مرکز میں ہوتے تو مصدق ملک ان کا بھی مشیر ہوتا ۔ ریڈی میڈ مولانا فضل الرحمن ،وطن دوست الطاف بھائی ، چادر پوش محمود اچکزئی ، سرخ پوش اسفند یار ولی سمیت پرویز مشرف کی ساری کابینہ اور سول بیوروکریسی آپ کے ساتھ ہوتے اور آپ کو بھی عدلیہ اور فوج کے خلاف بیان بازی پر مجبور کر دیتے ۔

رہا بیرونی طاقتوں کا مسئلہ تو یہ بھی مسئلہ نہ رہتا ۔ کل کی بات ہے کہ مودی دہشت گرد تھا ، مسلم کش فسادات کا ماسٹر مائنڈ اور قاتل ثابت ہونے پر امریکہ نے اُسکا داخلہ بند کر رکھا تھا ۔ آج وہی مودی امریکہ کا پیارا بچہ ہے۔
مشہور مقولہ ہے کہ طوائف کا کوٹھہ کراڑ کی ہٹی اور ریاست کا کاروبار چلتا رہتا ہے میاں صاحب کی وزارت خارجہ کا ایک اہم کارنامہ برکس BRICSکا علامیہ خواجہ آصف کو وزات خارجہ اور ریشم کی طرح بریشم طبع خاقان عباسی کا وزیراعظم بننا ہے۔

میاں نوازشریف لندن میں ہیں اور مریم لاہور ہیں ۔ میاں صاحب اور چند ہفتوں بعد پاکستان کی نئی خاتون اول وزیراعظم کلثوم نواز مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں اور اُن کے بیرونی صلاح کار انہیں نئے حربوں سے لیس کر رہے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :