صحافی کی گرفتاری۔۔چند گذارشات

جمعرات 7 ستمبر 2017

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

معتبرروزنامہ آج ایبٹ آبادسے وابستہ ہری پور کے معروف صحافی وقار علی کو ماڈل تھانہ سٹی پولیس نے گرفتارکر کے جیل بھجوا دیا ہے ۔سہیل خان نامی صحافی اوربعض دیگر کی طرف سے وقار کی پولیس حراست میں ایک تصویراورساتھ یہ تفصیل سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ہے کہ کھلابٹ کے رہائشی نوجوان سے مبینہ بدفعلی کی گئی جس کی پاداش میں صحافی کو گرفتارکیا گیا۔

اورساتھ ہی ساتھ جی بھر کے دل کا غبار نکالتے ہوئے اس کی بھرپور تذلیل بھی کی گئی ۔کئی ایک مقامی اخبارات نے اس کی زیرحراست تصویر کے ساتھ خبریں بھی شائع کیں اوراسے خودساختہ میڈیاایڈوائزر ٹو ضلع ناظم بھی قراردیا گیا۔ہماراوقار سے اورنہ ہی کسی اورسے کوئی لینادینا نہیں ہے لیکن جب صحافتی اصول یا قانون سے متصادم کوئی بات کھٹکے تو اس پر اظہارخیال ہمیشہ کیا ہے اوروہ بھی صرف اصولوں کی بنیادپر۔

(جاری ہے)

صحافی بالخصوص علاقائی اخبارات سے وابستہ اخبارنویس جونہ پروفیشنل ہوتے ہیں نہ انھیں تنخواہیں دی جاتی ہیں اورنہ ہی ان کے لیے مناسب حد تک تعلیم یافتہ ہونا یا اپنے پیشے کے اسرارورموزکو سمجھناضروری خیال کیا جاتا ہے،جس کا جی چاہتا ہے وہ کیمری سی اٹھاتاہے ،پریس کا جھومر ماتھے پر سجاتا ہے اورمیدان میں نکل آتاہے کیوں؟اس کیوں کا جواب شاید اس کے پاس بھی نہیں ہوتا ،نہ ان کی کوئی خاص تعلیم یا تربیت ہوتی ہے اوررہی سہی کسراخباری مالکان نکال دیتے ہیں جو ایسے ایسے لوگوں کو اخباری کارڈزاورجی بھر کے خرمستیوں کی اجازت اورسرٹیفیکیٹ عطا فرما دیتے ہیں کہ بس توبہ ہی بھلی، کئی بار مشاہدے میں آیا ہے کہ غلط رپورٹنگ اوربسا اوقات بات کا بتنگڑاوررائی کا پہاڑبھی بناکرپیش کیاجاتاہے ۔

انھیں نہ کوئی پوچھنے والا ہے اورنہ ہی وہ خودکو کسی ضابطہ اخلاق کا پابند سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں پگڑیاں اچھل رہی ہیں ،شرفاء کو ذلیل کیا جا رہا ہے ،حقائق کے سراسرمنافی ،اندرسے کھوکھلی اوربودھی خبریں شائع کی جا رہی ہیں۔جن کے بارے میں ہرزہ سرائی کی جاتی ہے ان بیچاروں پر کیا بیتتی ہے پڑھنے والے خودپریشان ہیں کہ انھیں پڑھنے کو کیا دیا جا رہا ہے،کیسے کیسے لوگ صحافی بن گئے ہیں اورانھوں نے تماشا کیا بنا رکھا ہے ،کیسی کیسی من گھڑت اورغلط خبریں چھپ رہی ہیں ایسا جو بھی کر رہا ہے وہ غلط ہے ہم سب کو اپنے لکھے اوربولے ہوئے کا بہرحال جواب دہ ہونا ہے اس دنیا میں نہ سہی ایک ضمیر کی دنیا بھی ہے اورسب سے بڑھ کر اپنے رب کو تو ہر حال میں جواب دہ ہوناہی ہے اورایک سانس کا کیا بھروسہ آئے یا نہ آئے مگر افسوس صحافت کا جو چلن روا ہے اسے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

اب آئیں وقار کی گرفتاری کی طرف۔۔۔کھلابٹ کے رہائشی نوجوان نے پولیس کو درخواست دی ہے ٹھیک ہے،سہیل خان نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے جسے کئی دیگر نے آگے شئیر بھی کیا ہے کہ عید کے پہلے روز رات8:45پر واقعہ رونما ہوا ہے ،ہوا ہو گا،واللہ اعلم،پولیس نے وقار کو گرفتارکیاجو سب پر آشکار ہے اس کے وکیل شعیب علی کے مطابق وقار علی پر زیرحراست تشدد بھی کیا گیاہے جس بارے سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے ریمارکس بھی دیے ہیں ۔

اس ساری صورتحال میں جوبات مجھے اوربہت سے دیگر صحافیوں اورباضمیروباشعورلوگوں کو کھٹک رہی ہے وہ یہ کہ وقار کو سٹی پولیس نے نوجوان سے بدفعلی کے مبینہ الزام میں گرفتارکر کے377کا پرچہ تو درج کر لیا ہے مگرپولیس رپورٹ کے مطابق جس نوجوان سے بدفعلی کی گئی ہے اسے جب پولیس ہری پور ہسپتال طبی معائنے(میڈیکل)کے لیے لائی تو نوجوان نے اپنا طبی معائنہ کروانے سے انکار کردیا،کیوں؟اس کا جواب وہ نوجوان ہی دے سکتا ہے کہ اس نے اپنا طبی معائنہ کروانے سے کیوں انکارکیا؟اور377کی ایف آئی آربغیر طبی معائنے کو ہو سکتی ہے کیا؟اس بارے جب ہماری ہائی کورٹ کے ایک قانون دان سے ہوئی تو ان کا موقف تھا کہ 377کی ایف آئی آربغیر طبی معائنے کے نہیں ہو سکتی ۔

دوسرے یہ کہ عید کی رات اگر واقعہ پیش آیا تو اسی رات اس مبینہ متاثرہ نوجوان کو تھانے آکر مقدمہ درج کروانے میں کیارکاوٹ تھی؟اچھا رات گذر گئی پھر اگلے دن بھی بعدازدوپہرنوجوان کو ہسپتال لاناکچھ کنفیوزکر رہا ہے ۔۔۔کیا قانونی طورپرایسانہیں ہونا چاہییے تھا جوں ہی نوجوان نے درخواست دی تو اسی وقت نوجوان کو طبی معائنے کے لیے ہسپتال لاکرپہلااوربنیادی قانونی تقاضا پوراکیاجاتا؟اگر ایسا نہیں کیا گیااورغیرضروری تاخیرہوئی تو اس کا ذمہ دار کون ہے اورکیوں کی گئی تاخیر؟یہ باتیں اورقانونی موشگافیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔

اقعہ عید کے پہلے روز رات آٹھ سے نو بجے کے درمیان کا بتایا جاتا ہے جب کہ وقار علی کو عید کو دوسرے روزصبح آٹھ بجے گھر سے پولیس موبائل میں تھانے لایاجاتاہے جب کہ ہماری اطلاعات کے مطابق مبینہ متاثرہ نوجوان کو عید کے دوسرے روز بعدازدوپہربلکہ سہہ کے قریب 377کے پرچے کے لیے ضروری طبی معائنے کے لیے سرکاری ہسپتال لایاجاتاہے جہاں وہ نوجوان اپنا طبی معائنہ کروائے بغیرواپس چلا جاتا ہے۔

مطلب یہ کہ 377کا پرچہ وقار علی کے خلاف درج ہو گیا مگر واقعے کی جو دلیل اورثبوت ہے یعنی میڈیکل رپورٹ تووہ ندارد؟تو چہ معنی دارد؟یہ وہ نقطہ ہے جو ہمیں کھٹک رہا ہے ۔ہم کبھی بھی نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارااپنا ہے یا بیگانہ وہ جو مرضی کرتاپھرے مگر اصول اورقاعدہ و قانون تو مہذب معاشروں کا خاصہ ہے ناں۔جس معاشرے میں اصولوں ،قواعدو ضوابط اورقانون کی پاسداری نہ کی جائے اسے ہرگزمہذب معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔

ایک اورنقطہ کہ وقارکو ضلع ناظم ہری پور کا خودساختہ میڈیا ایڈوائزربھی لکھااورکہا گیا ہے اس بارے میں ضلع ناظم عادل اسلام سے رابطہ تو نہیں ہو سکا البتہ نائب ضلع ناظم آغا شبیر احمد اعوان ایڈوکیٹ کا موقف یہ تھا کہ وہ میڈیاایڈوائزرہے اوراس کا کیس باقاعدہ طورپر پشاوربھی بھجوایاگیا ہے ۔خود ساختہ تو یوں ہو کہ وقار کے علاوہ کوئی اورصحافی اٹھے اورکہے کہ وہ ضلو ناظم یا ضلع کونسل کا میڈیاایڈوائزرہے سو ایسا کہنا خودساختہ کہلوانے کے مترادف ہے جب کہ وقار کے منہ سے کسی بھی محفل یا تقریب و ملاقات میں ہم نے نہیں سنا کہ اس نے اپنے آپ کو ضلع ناظم یا ضلع کونسل کا میڈیا ایڈوائزرکہا ہو ۔

مطلب یہ کہ ہر ایک کو اپنی اصلاح پر توجہ دینی چاہییے کون اچھا ہے اورکون براہم سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں ہماراسارازورسب سے پہلے خوداچھا بننے اورپھر اچھائی پھیلانے پر صرف ہونا چاہییے اورثبوت کے بناکسی پر گالیوں،مغلظات اورنارواجملوں کی بارش نہیں کر دینی چاہییے ۔رہی بات وقار پر عائد مبینہ الزام کی تو اسے ثبوت،شہادتیں اوروقت ثابت کرے گا اورفیصلہ شواہدورائج الوقت قانون کی روشنی میں معزز عدلیہ نے کرنا ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اچھا بننے اوراچھائی پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ وقار علی عید سے ایک دو روز کسی شخص کے بلوانے پرنواحی موضع گیا کہ اس کے ساتھ مبینہ طور پر ناانصافی ہو رہی ہے جس کی منظرکشی اورویڈیو بھی وقار نے بناکر محفوظ کرنے کے علاوہ مبینہ ملوث عناصر کو جلد بے نقاب کرنے کا اپنی فیس بک پر عندیہ بھی دیا تھا بعض لوگ وقار کی گرفتاری کو اس اپ لوڈنگ سے بھی نتھی کررہے ہیں تاہم اس ایشو کا مقدمہ بھی متعلقہ تھانہ میں درج کر لیا گیا ہے حقائق کیا ہیں جلد منظرعام پر آجائیں گے اوریہ بھی واضح ہو جائے گا کہ وقارکی گرفتاری اوراس اپ لوڈنگ کا کوئی باہمی تعلق بنتا ہے یانہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :