برکس اعلامیہ ،دہشت گردی اور امریکی رویہ

جمعرات 7 ستمبر 2017

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

دفتر خارجہ کے مطابق خواجہ آصف ستمبر کے دوسرے ہفتے روس، ایران اور ترکی کا دورہ کریں گے۔ دفتر خارجہ کے مطابق افغان معاملے پر علاقائی فورسز سے مل کر چلیں گے۔قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم کے روس کے دورے کا اعلان کیا گیا۔ جرمنی اور جاپان کو مل کر شکست دینے کے بعد روس اور امریکہ میں طاقت کے حصول کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ دونوں ممالک برابری کی قوت تھے۔

کسی بھی ملک کے لیے روس یا امریکہ کے ساتھ وابستگی ضروری خیال کی جاتی ہے۔ روس علاقائی طاقت تھی۔ وزیراعظم کی طرف سے روس کے دورے کو منسوخ کر کے امریکہ کا دورہ کیا گیا تو روس کا انگاروں پر لوٹنا فطری امر تھا۔ بھارت نے روسی بلاک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ روس نے بھارت سے مل کر پاکستان کو جہاں تک ممکن تھا نقصان پہنچانے کی کوشش کی جبکہ امریکہ دور بیٹھا تماشائی بنا رہا۔

(جاری ہے)

پاکستان پر طویل عرصہ ایوب خان نے حکومت کی۔ انہوں نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں امریکہ کو دھوکہ باز اور فریب کار قرار دیا تھا۔ یہ صداقت آج مزید عیاں ہو رہی ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی جنگ میں دو مرتبہ کود کر اپنی معیشت برباد کرائی، اب تو 70 ہزار قیمتی جانیں بھی اس جنگ کی نذر کی ہیں اور خود دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے مگر امریکہ پاکستان پر اعتماد اور اعتبار کرنے کی بجائے بھارت کے ایما پر اس کی عینک سے پاکستان کو دیکھتا اور اس کی زبان بولتا ہے۔

پاکستان کی قربانیوں کا دل سے اعتراف کرنے کی بجائے پاکستان کو دہشت گردوں کا ساتھی اور پشت پناہ قرار دے کر نتائج بھگتنے کی دھمکیاں دیتا ہے جس پر عسکری، سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ نے اصولی اور جرات مندانہ جواب دیا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب راست سمت میں جا رہی ہے۔ وزیر خارجہ کے دورے سے یقیناً علاقائی فورسز کے متحد ہونے کا قوی امکان ہے۔

اہل وطن دفاع وطن کے اس جذبے کو تازہ رکھنے اور نئے عزم و تدبر کی صف بندی کیلئے ہر سال 6 ستمبر کو یوم دفاع کے طور پر مناتے ہیں جو حب الوطنی کا تقاضا بھی ہے۔ آج کا یوم دفاع اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ آج پھر ہمارا مکار دشمن ہماری آزادی و خودمختاری اور سالمیت کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے جو دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کے حوالے سے عالمی فورموں پر ہمارے خلاف مذموم پراپیگنڈا کرکے ہمیں اقوام عالم میں تنہا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے اور ہمارے خلاف نئی جنگ مسلط کرنے کی تیاریوں میں ہے۔

گزشتہ روز چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ہونیوالی پانچ ملکی برکس کانفرنس میں بالخصوص چین کی جانب سے جس طرح کالعدم تنظیموں لشکر طیبہ اور جیش محمد کی مذمت کی گئی اور انکے حوالے سے دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار پر شکوک و شبہات کا اظہار اور اس امر کا تقاضا کیا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث اور ان کا انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفرکردار کو پہنچایا جائے۔

اس سے بادی النظر میں یہی تاثر پختہ ہوتا ہے کہ سفارتی محاذ پر پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کی بھارتی کوششیں کامیاب ہورہی ہیں اور ہمارا چین جیسا مخلص دوست بھی ہمارے خلاف بھارتی پراپیگنڈے سے مرعوب ہوتا نظر آرہا ہے۔ اگر برکس کانفرنس کے 40 صفحات پر مشتمل مشترکہ اعلامیہ میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان ہی کو فوکس کیا گیا ہے اور عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ ایک وسیع البنیاد بین الاقوامی انسداد دہشت گردی اتحاد قائم کیا جائے جو درحقیقت پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کا عندیہ ہے تو آج یوم دفاع کے موقع پر ہمیں ملک کی سلامتی کے تحفظ کیلئے زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے۔

وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے گزشتہ روز برکس اعلامیہ کو مسترد کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ اسکے باوجود آج اس بنیاد پر قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے اور دفاع وطن کیلئے زیادہ متفکر ہونے کی ضرورت ہے کہ ہمارے جس قابل بھروسہ دوست ملک چین کے سی پیک کے حوالے سے بھی ہمارے ساتھ مفادات جڑے ہوئے ہیں اور جو ہر عالمی فورم اور محاذ پر ہمارا بہترین وکیل رہا ہے وہ بھی آج دہشت گردوں کیخلاف اپریشنز کے حوالے سے ہماری کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتا کیوں نظر آرہا ہے۔

اگر ہم خود دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے اور دشمن کی پھیلائی گئی دہشت گردی سے اپنے 70 ہزار سے زائد شہریوں کی جانوں کا اور ملکی معیشت کیلئے اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانے کے باوجود اپنے کردار پر اپنے دوستوں کو بھی مطمئن نہیں کرپا رہے تو ہمیں ملک کے دفاع کے حوالے سے زیادہ متفکر ہونے کی ضرورت ہے۔ آج کا یوم دفاع قومی‘ سیاسی ‘عسکری قیادتوں اور پوری قوم سے اس امر کا ہی متقاضی ہے کہ اتحاد و یکجہتی کے تحت دفاع وطن کے تقاضے نبھائے جائیں۔ آج ہر محاذ پر اور چاروں جانب سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں تو ہمیں اپنی اندرونی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ کسی کو ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہوسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :