ابابیلوں کی” کنکریاں“

اتوار 27 اگست 2017

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

اُس کا جسم اور دماغ پاگل ہاتھی کی طرح ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا،لیکن اُسے معلوم ہونا چاہئیے اسلحہ و بارود سے لدے ہاتھیوں کے لشکر ”ابابیلوں“ کے ہتھے چڑ جاتے ہیں پھر اُن کو مشرق و مغرب، شمال و جنوب کسی طرف جانے کا راستہ نہیں ملتا اور دنیا کے کمزور ترین پرندے کی چھوٹی سے چونچ میں اُٹھایا گیا ”کنکر“ ہی ہاتھوں کی زندگی کا فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے۔

پاکستان اور عرب مسلمانوں کے خلاف امریکی غنڈہ گردی اور پُر خماریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اللہ کے فضل و کرم سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف پالیسی بیان نے پاکستانی قوم کو یکجا کر دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں شامل جماعتیں پچھلے کافی عرصے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھا رہی تھیں لیکن امریکہ کی پاکستان دشمنی نے سب کو اپنے باہمی اختلافات بھلا کر ایک قوم بننے کاموقع فراہم کردیا۔

(جاری ہے)

پاکستان کی جانب سے امریکی پالیسی پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر نظر آرہی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکا نے امریکی الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ، پی ٹی آئی کی جانب سے بھی ان کے اس اقدام کی ستائش کی جارہی ہے۔حکومت پاکستان کو چاہیے قومی یکجہتی کو مزید مستحکم کرنے کیلئے فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائے اور اس میں اپنی خارجہ پالیسی کو زیربحث لاکر اہم فیصلے کرے تاکہ ملک کو امریکی غلامی میں جانے سے بچانے کیلئے ساری قوم ایک پیج پر آجائے۔

پاکستان کو امریکی حلقے سے ایک طرف چین اور روس سے بہتر تعلقات کی راہ اسے مزید مستحکم کرسکتی ہے۔اب آتے ہیں عالمی میڈیا کی طرف،ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو شکست دینے کے لیے جس نئی پالیسی کا اعلان کیا گیا اس کی اہم تفصیلات ابھی تک واضح نہیں۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اعلیٰ امریکی حکام نے بتایا ہے کہ تقریباً 3900 مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجے جا رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی خصوصاً پاکستان پر لگائے جانے والے سنگین الزامات اور تنقید امریکی ذرائع ابلاغ میں زیر بحث ہیں۔ ”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ماہرین کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ ایسے الزامات پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسوں کو دوبارہ ان جنگجو گروہوں کے قریب لانے کا باعث بنیں گے جن کی پاکستان ماضی میں حمایت کرتا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی تنقید پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مستحکم کرنے کا باعث بھی بنے گی کیونکہ دونوں ممالک بھارت کو خطے میں اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی پالیسی ساز ادارے سے وابستہ افغان ماہر سیتھ جونز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بھارت اور پاکستان کے مابین پراکسی جنگ جاری ہے اور ایک کی کامیابی دوسرے کے لئے بڑا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے بھارت کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کی دعوت بھی دی ہے جس پر حکومتِ پاکستان یقیناً ناخوش ہے۔ پاکستان کا دیرینہ موقف رہا ہے کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ افغانستان کی سرزمین کو بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کروانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اخبار کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے ممبر ایڈم بی شیف کا کہنا ہے کہ بھارت کو افغانستان میں اپنا کردار بڑھانے کی دعوت کے باعث پاکستان سے تعاون کی امید مزید کم ہو جائے گی۔

امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران پاکستان کو ناراض کرنا ایک دانشمندانہ قدم نہیں ہوگا۔ اگرچہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو بہت سخت الفاظ میں دھمکی دی گئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اسے حوالے سے ایک مخصوص حد تک ہی پاکستان پر دباوٴ ڈال سکتا ہے۔ صدر اوباما کی حکومت میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہنے والے نیوریارک یونیورسٹی کے پروفیسر بانٹ روبن کے بقول پیٹاگون کو افغانستان میں موجود امریکی افواج تک رسد پہنچانے کے لیے پاکستان کی ضرورت رہے گی۔

روبن اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کا امریکی امداد خصوصاً فوجی امداد پر انحصار بہت کم ہوا ہے جس کی وجہ چین سے دفاعی شعبے میں بڑھتا ہوا تعاون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کے سامنے مزید راستے بھی کھلے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق واشنگٹن میں قائم میڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ماہر کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکی دبا برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، چین کی جانب سے ملک میں کی جانے والی بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوا ہے۔

ادھراقوام ِ متحدہ کی نمائندہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تشویش ظاہر کی ہے کہ امریکی صدر کے حالیہ بیان سے بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انسا نی حقوق کے خلاف بدترین پلان تیار کرلیا ۔ وادی میں انٹرنیٹ سروس کے علاوہ ٹیلیفونک نظام بھی بند وادی کو قتل گاہ میں تبدیل کرنے کیلئے امریکی بدنام زمانہ’ ’بلیک واٹر “کی خدمات بھی حاصل کی گئی ،حریت رہنماؤں پر سخت پہرے لگانے کے علاوہ سکولوں اور کالجوں میں کشمیریوں کو روکنے اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے اقوام ِ متحدہ فوری طور پر نوٹس لے۔

ٹرمپ اپنے مفاد کی خاطر پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا کردار اداکرنے کیلئے جنگ مسلط کرنا چاہتے ہیں جو لاکھوں انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی حالیہ دنوں میں خلاف ورزی اور بلیک واٹر کے ایجنٹوں جن کی تعداد 9سو سے زائد بتائی جاتی ہے وہ بھارتی حکومت کے ساتھ تعاون کیلئے دہلی پہنچ گئے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ساتھ ملکر قتل ِ عام کے علاوہ جاسوسی کریں گے۔

سید علی گیلانی ، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک پر مشتمل حریت قیادت کا کہنا ہیکہ آرٹیکل 35اے کے ساتھ کسی بھی قسم کی چھیڑ چھاڑ کا بنیادی مقصد جموں کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے اور یہ مسئلہ براہ راست کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اسلئے ہمیں اتحاد اور پامردی کے ساتھ اس کا دفاع کرنا ہوگا۔امریکی پالیسی سازوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے سے افغانستان میں منفی نتائج سامنے آئیں گے۔

پاکستان پر دباؤ بڑھانے سے خطے کی سکیورٹی صورتحال میں عدم استحکام پیدا ہو گا۔ افغانستان پر امریکہ کی نئی پالیسی افسوناک ہے۔ امریکی صدر کی افغان پالیسی ”ڈیڈ اینڈ پالیسی“ ہے۔جو افغان مصالحتی عمل میں” طاقت کے استعمال“جیسی افسوسناک حکمت عملی کے سوا کچھ نہیں،وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری۔۔۔۔!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :