نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کا رومانس اور لڑائی!

منگل 22 اگست 2017

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے فوج اور سول قیادت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سول اور عسکری تعلقات میں سب اچھا نہیں۔ آئندہ دنوں میں بحران مزیدشدید ہوسکتا ہے۔ پلڈاٹ نے اپنی اس رپورٹ میں جس صورت حال کی نشاندہی کی ہے ،وہ ایک کھلا راز ہے جس سے ہر باشعور پاکستانی اچھی طرح واقف ہے البتہ ہمارے ہاں سیاسی کشمکش کے موجودہ ماحول میں رائے عامہ کے ایک طبقے کے خیال میں ملک کے سیاسی منظرنامے میں جو بھی تبدیلیاں آرہی ہیں، وہ ہموار آئینی و قانونی طریقے پر جمہوریت کے طبع زاد ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں اور پاناما لیکس معاملے پر عدالت عظمیٰ میں جوبھی کارروائی ہوئی،وہ عدلیہ کی آزادی و خود مختاری کا عکاس اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔

(جاری ہے)

اس طبقے کے مطابق پاکستان میں پہلی بار کسی طاقت ور حکمران کا احتساب ہوا ہے جو ملک میں آنے والی مثبت تبدیلی کی علامت ہے ۔جبکہ ایک دوسرے طبقے کا خیال ہے کہ احتساب کا غلغلہ بلند کرکے ایک اور منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجنا دراصل پاکستان کی طاقت ور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اس روایتی کھیل کا تسلسل ہے جو اس ملک میں 7عشروں سے جاری ہے اور جس کے نتیجے میں 70سال کے طویل عرصے میں ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کرسکا۔

اس طبقے کے مطابق پاناما لیکس کی تحقیقات کی آڑ میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کو گھیرا گیا اور اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کو پایہ ثبوت تک پہنچانے میں ناکامی کے بعد محض نواز شریف کے اقامہ کو جواز بناکر بدنام زمانہ بلیک ڈکشنری کی مدد سے ٹیکنیکل بنیاد پر دفعہ باسٹھ ایف کے تحت ایک منتخب وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا گیا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔


یہ دو انتہائی نوعیت کے متصادم نقطہ ہائے نظر ہیں جو ہمارے سیاسی رہنماوٴں کے بیانات،اخباری مضامین اور ٹاک شوز میں بڑے زورو شور کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا کہ پہلے نقطہٴ نظر کے حامل حضرات بیان کرتے ہیں اور ہمارے سیاست دان اتنے معصوم اور بے گناہ بھی نہیں ہیں، جتنا دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ تاثر دیتے ہیں۔

حقیقت بہر حال وہی ہے جو پلڈاٹ کی مذکورہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے کہ یہ سول قیادت( نواز شریف) اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی ہے اور اس لڑائی میں دونوں طرف سے تمام دستیاب ہلکے اور بھاری ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔
یہ لڑائی کوئی اچانک شروع نہیں ہوئی نہ ہی یہ نواز شریف کی نااہلی پر ختم ہوگئی ہے بلکہ اس کا ایک طویل پس منظر ہے ۔شریف خاندان اور پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان رومانس اور پھر لڑائی کی کہانی کی ابتدا سے متعلق تو مختلف باتیں بتائی جاتی ہیں تاہم اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ اس تعلق کی بنیاد دوطرفہ مفادات پر قائم ہوئی تھی۔

60کی دہائی میں شریف خاندان کی ملکیتی لوہے کی صنعت سے پاکستان کی فوجی ضروریات کا ایک حصہ وابستہ کردیا گیا تھا ،دیسی ساختہ اسلحے کے لیے لوہے کی فراہمی سے لے کر بعض چھوٹے ہتھیاروں کے ڈھانچے کی تیاری تک اتفاق فونڈری میں ہوتی تھی۔جنرل ایوب خان کے دور صدارت کے آخری دنوں کی ایک تصویر ملتی ہے جس میں انہیں بحیثیت صدر پاکستان اتفاق فونڈری کا دورہ کرتے دکھایا گیا ہے ،دل چسپ امر یہ ہے کہ میاں شریف کے نوجوان صاحب زادے میاں نواز شریف اس تصویر میں ان کے ہمراہ نظر آتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کاروباری مراسم نے شریف خاندان کو ”ریاستی کاروبار “ میں بھی اس کے ساتھ شریک بننے کی راہ سجھائی جبکہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی” شریر“ سیاست دانوں سے نمٹنے کے لیے کچھ ” شریف“ خاندان مطلوب تھے جن پر بھروسا کیا جاسکتا ہو۔
بھٹو کو پھانسی دلانے کے بعد کے پر آشوب ماحول میں جب یہ ”ضرورت“ شدت اختیار کر گئی،میاں شریف کے خاندان سے باقاعدہ طلب کرکے میاں نواز شریف جیسا ”ہیرا“ لیا گیا اور پھر اس کی خراش تراش کرکے اسے ٹیکسیشن کی صوبائی وزارت سے لے کر پنجاب کی وزارت علیا کے منصب تک پہنچایا گیا۔

پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب جنرل ضیاء الحق مرحوم کو اپنے اقتدار کا سورج زرد پڑتا دکھائی دیا اور انہوں نے اپنی عمر نواز شریف کولگنے کی دعا دی۔ جنرل ضیاء کے دور کے اختتام پر جب پیپلزپارٹی پھر ”سیکورٹی رسک“ بننے لگی تو آئی جے آئی کی تخلیق کرکے میاں صاحب کو وزارت عظمیٰ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔مگر میاں صاحب نے غلطی سے خود کو حقیقی حکمران سمجھنا شروع کردیا اور اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے خلاف چوکے چھکے لگانے لگے تو انہیں اڑھائی سال کے بعد58ٹو بی کی تیغ سے گھائل کردیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ نے کوئی پلان بی نہیں بنایا تھا اس لیے قدرتی طور پر پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آگئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس دفعہ بہت پھونک پھونک کر قدم لے رہی تھیں مگر ان کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کی بے لگام خواہشات نے ایک بار پھرپی پی کو ملک کے لیے ”خطرہ“ بنا دیا۔ نتیجہ ”آئین کے عین مطابق“ اپنے ہی جیالے صدرفاروق لغاری کے ہاتھوں نکالے جانے کی صورت میں نکلا۔

اب کی بار پھر میاں صاحب کی لاٹری نکلی اور وہ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار کے ایوان میں آئے۔میاں صاحب کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ ٹھنڈا کرکے کھانے کی صفت سے محروم ہیں۔انہوں نے بھاری مینڈیٹ کے نشے میں یکدم سارا دستور میخانہ بدلنے کی کوشش کی اور58ٹو بی اور فلور کراسنگ کے امکان کا خاتمہ کرکے خود کو محفوظ اور طاقتور سمجھنے لگے اور آرمی چیف کو کھڑے کھڑے فارغ کرنے کا اختیار بھی آزمانے لگے۔

کہا جاتا ہے کہ جب میاں صاحب نے جنرل جہانگیر کرامت کو فارغ کردیا تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اسی وقت یہ طے کر لیا تھا کہ آیندہ ایسے کسی اقدام کی صورت میں انہیں بروقت جواب دیا جائے گا۔ چنانچہ میاں صاحب نے جنرل پرویز مشرف کو بھی فارغ کردیا تو باجود اس کے کہ وہ اس وقت ہوئی جہاز میں تھے، فوج نے بغاوت کردی اور میاں صاحب کو اٹک جیل کا مہمان بننا پڑا۔


جنرل مشرف کے دور میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب کچھ بھی ہو، نواز شریف اور بے نظیر کو ملکی سیاست میں آنے نہیں دیا جائے گا۔ جنرل صاحب نے پوری قوت سے احتساب کا نعرہ بلند کیا۔مسلم لیگ ن سے ق اور پیپلز پارٹی سے پیٹریاٹ گروپ تخلیق کرکے قیادت کاخلاء پر کرنے کی کوشش کی گئی۔مگر 2005ء کے بعد بوجوہ ان کی گرفت بھی ڈھیلی پڑنے لگی اور دوسری جانب پی پی اور مسلم لیگ کی جلا وطن قیادت نے آپس میں ایکا اور عالمی قوتوں کے ساتھ رابطے کرکے جنرل مشرف پر دباوٴ بڑھادیا تو امریکا کی ثالثی میں ایک سمجھوتا طے پاگیا جس کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ ہوا اور یہ طے ہوا کہ جنرل مشرف کے زیر انتظام انتخابات کے بعد پہلی پانچ سال کی باری بے نظیر بھٹو اور اگلی باری میاں نواز شریف کی ہوگی۔

بے نظیر بھٹو بچاری معاہدے کے تحت واپس آئیں اور پرا سرار طور پر ماری گئیں جس کاسارا فائدہ ان کے شوہر نامدار آصف زرادری کو ہواجن کو ہماری اسٹیلشمنٹ نے دس برس تک قید میں ڈال کر” کندن “بنا دیا تھا۔زرادری صاحب نے پانچ سال تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک حد فاصل بناکر رکھی اور ٹھاٹھ سے حکومت کرتے رہے جبکہ میاں صاحب نے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں کچھ نہیں کہا اور اپنی باری کا انتظار کیا۔


مگر اسٹیبلشمنٹ کو جنرل مشرف کے خفیہ معاہدے کے باوجود کسی طور یہ منظور نہیں تھا کہ میاں نواز شریف دوبارہ اس وزیر اعظم ہاوٴس میں آکر براجمان ہوجائیں، جہاں سے انہیں ٹھڈے مار کر نکالا گیا تھا۔ ہمارے جرنیل اس کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ ایک بار پھر اس نواز شریف کو سلیوٹ کریں، جس کو وہ 15برس پہلے بوٹ دکھاچکے تھے۔ چنانچہ ہنگامی بنیاد پر متبادل کی تلاش شروع کی گئی اور عمران خان کی تحریک انصاف کو جسے 2002ء میں صرف ایک اور 2008ء میں تین نشستیں ہی ملی تھیں، ” پمپ“ کرکے ایک انتخابی طاقت بنانے کی کوشش کی گئی۔

جنرل احمد شجاع پاشا سرگرم ہوئے اور سیاست کے تمام” موسمی پرندوں“ کو تحریک انصاف کے تالاب میں جمع کرنے کی کوشش کی مگر شایداس وقت دیر ہوچکی تھی اس لیے زیادہ کامیابی نہ مل سکی اور نواز شریف پیپلز پارٹی کی ناکام اور بدنام حکومت کے خاتمے پر خالی جگہ پر کرتے ہوئے ایک بار پھر وزیر اعظم بن ہی گئے تو اب انتخابی دھاندلیوں کا ایشو اٹھاکر انہیں نکال باہر کرنے کی تگ و دو تیزہوگئی۔

دھرنا ون اور دھرنا ٹو ترتیب دیے گئے۔ دھرنا ون میں ایک جانب عین موقع پر جاوید ہاشمی کی” بغاوت“ نے کام خراب کردیا تو دوسری جانب مولانا فضل الرحمن اور آصف زرادری نے پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی صلاح دے کر بحران سے نکلنے میں میاں صاحب کی مدد کی مگر میاں صاحب اس کے بعد بھی خطرات سے کھیلنے سے باز نہ رہ سکے۔ میاں صاحب تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کے باوجود 1999ء کے صدمے کے نفسیاتی اثرات سے باہر نہ آسکے اور ایک بار پھر جارحانہ انداز اپنایا۔

میاں صاحب نے خواجہ آصف، پرویز رشید، نجم سیٹھی، عاصمہ جہانگیر، محمود اچکزئی سمیت ہر اس شخص کو اس کی حیثیت سے بڑا اعزاز دینا شروع کیا جو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ناپسند تھا اور راجہ ظفر الحق، چودھری نثار سمیت ہر اس شخص سے فاصلہ رکھا جواسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر روابط قائم کرنے کے لیے کار آمد ہوسکتا تھا۔بات یہیں تک محدود نہیں تھی بلکہ نازک تزویراتی معاملات اور بھارت اور افغانستان سے تعلقات کے سلسلے میں بھی ان کی جانب سے ”سرخ لکیریں“ عبور کرنے اور اسٹلبشمنٹ کے” تھوبڑ ے“ میں منہ ڈالنے کی کوششیں” پکڑی“ جاتی رہیں۔


اس دوران پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آیا، جس نے میاں صاحب کے اعصاب کو اور متاثر کردیا۔اس سے پہلے دھاندلی کیس کی تحقیقات کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد میاں صاحب کا ”کلہ “کافی مضبوط ہوگیا تھا۔مگر پاناما لیکس نے اسٹیلشمنٹ کے ہاتھ میں ایک نئی تلوار دے دی۔میاں صاحب اور ان کے عقابی مصاحبین کو یہ اندازہ ہوا کہ وہ اب گھیرے میں آچکے ہیں تو انہوں نے اس کے مقابلے میں انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ سے مدد لینے کا سوچا۔

ڈان لیکس دراصل اسی سوچ کا اظہار تھا۔اس کے ذریعے انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ہم تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں آپ کے ساتھ ہیں مگر فوج ہماری راہ میں رکاوٹ ہے۔ شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی جانب سے بم کو لات مارنے والا اقدام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈان لیکس کے بعد یہ طے ہوگیا تھا کہ میاں صاحب کی چھٹی لازمی ہے۔

چنانچہ سپریم کورٹ کی جانب سے شروع میں پاناما کیس کی سماعت سے انکار کے باوجود دوبارہ یہ کیس وہاں لگوایا گیا اور پھر جے آئی ٹی کی تشکیل سے لے کر عدالت سے فیصلہ آنے تک ہر مرحلے کی نہ صرف نگرانی کی گئی، بلکہ جے آئی ٹی کو شریف خاندان کے خلاف ایجنسیوں کی دس بارہ سال کی تحقیقات کا پلندہ بھی دیا گیا جس میں اتنا کچھ مواد تھا کہ عدالت کے لیے نیب کو ریفرنس بھیجنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچا تھا۔


البتہ عدالت کی جانب سے میاں صاحب کی نااہلی کے لیے جو ٹیکنیکل بنیاد بتائی گئی، وہ بہت سے لوگوں کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی اور اس نے میاں صاحب کو پلٹ کر حملہ کرنے کا سامان فراہم کردیا ہے۔ اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ کہ میاں صاحب کو نااہلی سے قبل سیاسی لحاظ سے تنہا کردینے کی خاطر پی پی کو زبردست مراعات دی گئیں، زرداری صاحب اور شرجیل میمن کی واپسی، ڈاکٹر عاصم اور ا یان علی کی رہائی اور دیگر اقدامات دیکھنے کو ملے، جن کے پیچھے چھپی ”حکمت“ میاں صاحب کی نااہلی کے بعد ہی کھلی!
اب کیا ہوگا؟ اس حوالے سے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس کا انحصار میاں صاحب کے طرز عمل پر ہے۔

عام خیال یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس فی الوقت کوئی متبادل نہیں ہے( عمران خان سے جو کام لیا جانا تھا، وہ لیا جاچکا ہے، اسٹیبلشمنٹ مسند اقتدار پر عمران خان جیسے متلون مزاج شخص کو افورڈ ہی نہیں کرسکتی۔) اس لیے شہباز شریف کے ساتھ چلا جاسکتا ہے، بشرطیکہ میاں صاحب اس کو قبول کر کے لڑائی چھوڑ دیں۔ دوسری صورت میں قومی حکومت جس کا نعرہ لے کر بڑے چودھری صاحب متحرک ہوچکے ہیں، یاٹیکنوکریٹس کی حکومت جیسے تجربات بھی بعید نہیں ہیں۔

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اسٹیلشمنٹ نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اب میاں صاحب کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ ان پر توہین عدالت کا مقدمہ چلے اور یہ بھی ممکن ہے کہ الطاف حسین کی طرح ان کے بیانات کی اشاعت پر بھی پابندی لگائی جائے تاکہ دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہوکہ اسٹیبلشمنٹ جس کو اٹھاکر تخت پر بٹھاسکتی ہے،اسے گراکر خاک میں بھی ملا سکتی ہے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :