میاں صاحب آپ عوام کے پاس چلے جائیں

منگل 22 اگست 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میاں نواز شریف کے پاس اب صرف دو راستے ہیں ،ایک راستہ ذو الفقار علی بھٹو کا ہے اور دوسرا شیخ مجیب الرحمان کا ، اب یہ ان کی صوابدید ہے کہ وہ بھٹو بنتے ہیں یا شیخ مجیب بن کر عوام کے سامنے جھولی پھیلانے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ ان کے پاس آخری موقعہ ہے ،ا گر اب بھی انہوں نے دیر کر دی اور مناسب لائحہ عمل نہ اپنایا تو ان کی کہانی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی ۔

میں میاں صاحب کی طرف آنے سے پہلے آپ کو یہ بتا دوں کہ شیخ مجیب اور بھٹوکا راستہ کون سا ہے۔بھارت کی مشرقی ریاستوں میں سے ایک ریا ست کا نام تری پورہے ، یہ ریاست بھارت اور بنگلہ دیش کی مشرقی سرحد پر واقع ہے ،اس کے دار الحکومت کا نام اگرتلہ ہے ، اگرتلہ شہر پورے بھارت میں پوجا کے حوالے سے معروف ہے ، 1965 کی جنگ کے بعد جب مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک زوروں پر تھی تو اس شہر میں بنگالیوں اوربھارت کے خفیہ اداروں کی ملاقات ہوئی جس میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی سازش تیار کی گئی تھی۔

(جاری ہے)

اس وقت لیفٹیننٹ کرنل شمس عالم مشرقی پاکستان میں آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، انہوں نے اس سازش کو پکڑ لیا اور حکام کو اس کی اطلاع دی اور بر وقت اس سازش پر قابو پا لیا گیا۔ سازش میں شریک افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف مقدمے چلائے گئے،بنگالی سول و فوجی افسروں اور سیاستدانوں کو اگرتلہ سازش کیس کا ذمہ دار قرار دے کر ان کا ٹرائل ہوا، صدر ایوب خان نے شیخ مجیب الرحمن کو اس کا مرکزی ملزم قرار دے دیا۔

19 جولائی 1968کو ایک سپیشل ٹریبونل نے اس مقدمے کی سماعت ڈھاچھاوٴنی میں کی، مشرقی پاکستان کے عوام کو پتا چلا تو وہ اپنے ”ہیروز “کو بچانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ۔ جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے شروع ہو گئے ، جنونیوں نے سرکاری عمارات کو جلا دیا ، جس عمارت میں ٹرائل ہو رہا تھا اس کو گھیرے میں لے کرآ گ لگا دی، ججوں نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور حکومت کو فوری طور پر یہ ٹرائل روکنا پڑا ۔

1968تک یہ کیس چلتا رہا ، اسی دوران صدر ایوب داخلی مسائل میں الجھ گئے ، انہوں نے بھٹو کو کابینہ سے نکالا تو اسی بھٹو نے صدر ایوب کو ٹف ٹائم دینا شروع کر دیا ، ایک طرف بنگالی عوام کا دباوٴ، احتجاج اور مظاہرے دوسری طر ف مغربی پاکستان کی نازک صورتحال کی وجہ سے صدر ایوب کو یہ کیس وا پس لینا پڑا اور اس سازش میں شریک تمام افراد کو باعزت بری کر دیا گیا ۔

ٹرائل بند ہو گیا ، شیخ مجیب واضح بغاوت کے باوجود اپنے ساتھیوں سمیت رہا ہو گئے اور یوں عوام کی مدد سے شیخ مجیب نے بغاوت جیسا خطرناک کیس جیت لیا ۔
دوسرا راستہ بھٹو کا ہے ۔بھٹو کی کہانی احمد رضا قصوری سے شروع ہوتی ہے ، احمد رضا قصوری گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے طالب علم اور بہترین مقرر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ء میں پیپلز پارٹی بنائی تو انہوں نے مغربی پاکستان کے تمام اہم کالجوں اور یونیورسٹیوں کا دورہ کیا اور نوجوان نسل کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

احمد رضا قصوری بھی ذوالفقار علی بھٹو کے پرستاروں میں سے تھے۔ وہ اپنی عادت کی بدولت جلد ہی پارٹی میں مشہور ہوگئے، ذوالفقار علی بھٹو کی کسی بھی میٹنگ میں کوئی پرندہ پَر نہیں مار سکتا تھا، احمد رضا قصوری مختلف معاملات میں ان کی باتوں سے اختلاف کرتے اور بَرملا اْن پر تنقید بھی کرتے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ تنقید ہی جمہوریت کا حْسن ہے۔

وہ ذوالفقار علی بھٹو کو جمہوریت کا چیمپیئن کہا کرتے تھے اور خوب زور دار آواز میں پارٹی اجلاس میں انہیں میرے چیمپیئن! ذرا غور سے سنئے! تک کہہ دیتے تھے۔ اس شخص نے پوری پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کی ناک میں دم کر دیاتھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہی دنوں فیڈرل سکیورٹی فورس کے نام سے اپنے ماتحت ایک خصوصی فورس بنائی تھی جس کو لامتناہی اختیارات حاصل تھے۔

یہ کسی کو بھی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیتے تھے۔ سینکڑوں مقدمات ہائی کورٹس میں حبس بے جا کے ہوئے لیکن گرفتار افراد مل نہیں پاتے تھے۔ عام طور پر مشہور کر دیا جاتا تھا کہ یہ فورس حراست میں لئے گئے افراد کو یا تو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے یا پھر انہیں ہمیشہ کے لئے غائب کر دیتی ہے۔ حالت یہ تھی کہ پولیس کے ضلع انچارج ایس پی اور ڈویژن انچارج ڈی آئی جی بھی اس فورس کے ایک عام انسپکٹر اور سب انسپکٹر سے ڈرتے تھے۔

اس فورس کے پاس جدید اسلحہ، جدید گاڑیاں، فون ٹیپ کرنے کے جدید آلات اور دوسری ایسی تمام چیزیں موجود تھیں جو بطور ایک خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی یا انٹیلی جنس اداروں کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہوتیں۔یہ فورس پورے ملک کے لئے ایک خوف کی علامت بن چکی تھی اور اس میں اکثریت بدنام زمانہ پولیس افسروں کی تھی جنہیں کئی گنا تنخواہ اور مراعات کے ساتھ یا تو ڈیپوٹیشن پر رکھا گیا تھا یا پھر انسپکٹر، ڈی ایس پی کے عہدوں پر براہ راست بھرتی کر کے مستقل کر دیا گیا تھا۔

جب احمد رضا قصوری پر دوسرے تمام حربے ناکام ہوگئے تو وزیراعظم ذوالفقار علی نے اس فورس کو حکم دیا کہ احمد رضا قصوری کا کام تمام کر دیا جائے۔ ایک رات جب وہ اپنے والد، والدہ اور رشتہ داروں کے ہمراہ شادمان لاہور کے علاقہ میں ایک شادی میں شرکت کے لیے جا رہے تھے تو ایف ایس ایف کے کچھ لوگوں نے ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ شادی ختم ہوئی اور احمد رضا قصوری اپنے خاندان کے ہمراہ واپسی کے لیے نکلے تو چھپے ہوئے اہل کاروں نے ان کی کار پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں احمد رضا کے والد محمد خان شدید زخمی ہوگئے، بعض دوسرے رشتہ داروں کو بھی گولیاں لگیں۔

نواب صاحب کو تقریباً ایک بجے رات لبرٹی کے یو سی ایچ ہسپتال لے جایا گیاجہاں ان کے جسم سے گولیاں تو نکال لی گئیں لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ شادمان کا علاقہ سول لائنز تھانہ کی حدود میں تھا، اس لئے رات گئے وہاں پرذوالفقار علی بھٹو اور ایف ایس ایف کے نامعلوم اہل کاروں کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ اس وقت اصغر خان عرف ہلاکو خان پولیس افسر بطور ڈی ایس پی وہاں تعینات تھے۔

انہوں نے ایف آئی آر کاٹی اور نقل احمد رضا خان قصوری کو دے دی ۔ یہ وہی ایف آئی آر تھی جو بعد میں بھٹو کی گرفتاری کا باعث بنی اور ہائی کورٹ میں براہ راست بھٹو پر مقدمہ چلا۔بھٹو پہلے جیل پھر تختہ دار پر لٹک گئے لیکن پیپلز پارٹی بھٹو کو نہ بچا سکی ، کیوں ؟ کیونکہ پیپلز پارٹی بھٹو کوبچانے کے لیے صرف کورٹس اور قانونی پیچیدگیوں میں الجھی رہی ، پیپلز پارٹی عوام کے پاس نہیں گئی ، اگر پارٹی کے قائدین بھٹو کی جان بچانے کے لیے عوام کے پاس جاتے تو عوام بھٹو کی دیوانی تھی وہ کبھی بھی بھٹو کو رات کے پچھلے پہر پھانسی کے پھندے پر نہ لٹکنے دیتی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔

اب نواز شریف بھی اگر سمجھتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کے ساتھ ذیادتی ہو رہی ہے تو ان کے پاس واحد راستہ عوام کا ہے ، ورنہ بظا ہر جو صورتحال دکھائی دے رہی وہ یہی ہے کہ اس نازک صورتحال میں ان کے اپنے بھی بیگانے ہو گئے ہیں ، ساری سیاسی جماعتیں ا ورسارا میڈیا ایک تماشے کا منتظر ہے ۔ اب میاں صاحب کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنا مقدمہ عوام کے سامنے لے جاتے ہیں یا نہیں اور عوام کو اپنی بے گناہی کو یقین دلا سکتے ہیں یا نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :