بطور قوم ہم منافقت کا شکار کیوں؟

منگل 22 اگست 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بچپن میں سنے اور دیکھے واقعات ،انسان کے ذہن پر اس قدر اثر چھوڑتے ہیں کہ زندگی کے کسی لمحے میں بھی ان کے بارے سوچا جائے تو فوری یاد آجاتے ہیں۔ بالخصوص امی جان سے رات میں سونے سے پہلے جو کہانیاں سنتے تھے وہ تو آج بھی حافظے کا حصہ ہیں ۔ بلاشبہ بچپن کے واقعات انسان کی زندگی پر بھی بڑا گہرا اثر چھوڑتے ہیں جو اسے کامیاب ا ور ناکام انسان بنا نے کے سفر میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔


آج ایک دفعہ پھر ماضی میں سنا ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک بادشاہ نے کسی بزرگ کوکھانے کی دعوت میں بلایا ، پہلے تو بزرگ نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ ہم بادشاہوں کی محفلوں میں نہیں جاتے، لیکن بادشاہ کے بار بار اصرار پر انہوں نے دعوت قبول کر لی اورجب وہ محل کے دروازے پر پہنچے تو یہاں سیکورٹی پر براجمان چوکیدار نے انہی ان کے پھٹے پرانے کپڑے دیکھ، کوئی فقیر اور مسکین سمجھ کر واپس لوٹا دیا ۔

(جاری ہے)

بزرگ بڑے پریشان ہوئے ، دوبارہ اپنے حجرے میں گئے اوربہترین اور نئے کپڑے پہن کرپھر محل کے دروزازے پر پہنچے ،اس دفعہ سیکورٹی پر مامور اسی شخص نے بغیر پوچھے آسانی سے اندر جانے دیا۔
کھانے کا وقت شروع ہوا تو بزرگ دسترخوان پربیٹھے اور پلیٹ میں کھا نا لے کر بجائے منہ میں ڈالنے کے آستین میں ڈالنے لگے اور اپنے کپڑوں کے مختلف حصوں کو سالن میں ڈال کر یہ کہتے کہ ”لے کھا “ جب بادشاہ اور یہاں موجود لوگوں نے اس حرکت کی وجہ پوچھی تو بزرگ اپنے ساتھ رونما ہونے والا واقعہ بتاتے ہوئے فر مانے لگے:” اگر یہ کپڑے نہ ہوتے تو میں اندر داخل نہ ہوسکتا۔

اصل تو ان کپڑوں کی دعوت و عزت ہے جس کو پہنے سے میں اندر آسکا تو کھانا بھی انہیں چاہئے۔یہ سن کر بادشاہ بہت شرمندہ ہوا اور اپنے درباریوں کی اس حرکت پر بزرگ سے معافی مانگی۔
قارئین ! اس واقعہ کے یاد آنے کا پس منظر ،آج پیش آنے والا کچھ ایسا ہی واقعہ ہے۔ حاجی صاحب میرے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کے پاس گھٹیاالقابات کی ایسی وسیع ڈکشنری ہے جس کے الفاظ سیاستدانوں کے لئے اکثر و بیشتر استعمال کرتے رہتے ہیں ۔

ان کے نزدیک چور اور ڈاکو سیاستدانوں نے ملک کو جتنا نقصان پہنچایا، اتنا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔پچھلے دنوں ان کے ایک عزیز نے ایک ادارے جس میں وہ ملازم تھا، یہاں کروڑوں روپے کا فراڈ کیا، ادارے والوں نے مقدمہ درج کرایا اور پولیس نے ان کے عزیز کو گرفتار کر لیا۔ حاجی صاحب اپنے اس عزیز کا ذکر بھی انہی گھٹیا القابات کے ساتھ کیا کرتے جو چور سیاستدانوں کے لئے استعمال کرتے۔

قید کے دوران جب بھی ان سے اس سلسلے میں بات ہوتی تو ان کی رائے یہی ہوتی کہ ایسے فراڈیوں کے لئے سخت سے سخت سزا ہونی چاہئے۔
آج حاجی صاحب کا فون آیا اور شہر کے پنج ستارہ ہوٹل میں کھانے کی دعوت پر مدعو کیا۔ چونکہ حاجی صاحب کا حکم تھا ، اس لئے تما م مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہوٹل پہنچا۔معلوم ہوا کہ آج کی تقریب کا اہتمام اسی عزیز کے اعزاز میں کیا ہوا تھا جوکچھ روز قبل ہی صرف کچھ ماہ بعد ہی با عزت رہا ہو گیا تھا۔

حاجی صاحب کچھ روز پہلے تک اس شخص کو جن جن القابات سے نوازتے تھے آج بالکل اسی طریقے سے تعریف و توصیف کے شیرے میں بھیگے لفظوں کے ساتھ اس کی نئی گاڑی و گھر کی خصوصیات ہمیں بتا رہے تھے ۔ کل تک جو چور اور فراڈیہ فاقوں میں تھا، کرایہ کے گھر میں مقیم تھا، بڑی مشکل سے گھر کے اخراجات پورے کر رہا تھا ، آج وہ کروڑوں روپے کا فراڈ کر کے نئی گاڑی و گھر کے ساتھ معزز و محترم قرار دے دیا گیا۔

بالکل اسی بزرگ کی طرح جو اپنی درویشی کے ساتھ عام کپڑوں میں آیا لیکن بظاہر حلیہ دیکھ کر ان کی رسوائی کی گئی لیکن جیسے ہی وہ نئے کپڑے پہن کر آئے ، انہیں باعزت اندر جانے دیا گیا۔
قارئین کرام !یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم بطور قوم منافقت کا شکار ہیں۔ ہم سیاستدانوں ، فراڈیوں ، چوروں اور ڈکیتوں کو تو بُرا کہتے ہیں لیکن وہی سیاستدان، وہی چور، ڈاکو اور فراڈیہ عزیز لوگوں کا مال ہڑپ کر کے ، نئی گاڑی و گھر خرید کر، نئی فیکٹری لگا کر ،جب حاجی صاحب اور ہم جیسے لوگوں کے پاس آتے ہیں تو پھر وہی لوگ معززو محترم قرار دے دئیے جاتے ہیں۔

پھر ایسے لوگوں کی عزت کی جاتی ہے انہیں محفلوں میں وی۔آئی۔پی پروٹوکول دیا جاتا ہے اور جبکہ صبح سے شام سخت محنت کر کے حلال روزی کمانے والے لوگوں کو ہم انسان ہی نہیں سمجھتے ۔ یہ لوگ بھی حرام خوری ، فراڈ اور ظلم کی کمائی کرنے والوں کی عزت و توصیف دیکھ کر احساس کمتری میں شکار ہو جاتے ہیں اور یہ بات سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کیا اس معاشرے میں معزز و محترم ہونے کے لئے چور، ڈاکو اور فراڈیا ہونا لازم ہے؟
اگر ہم معاشرے کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنا نا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم منافقت کے لبا دے کو اتاریں اور لوگوں کو بجائے دولت ، مقام و مرتبہ ، ان کی عزت کرنے کے ، ایسے لوگوں کو عزت و اکرام سے نوازیں جو صبح سے شام تک شدید محنت کر کے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور چور کو چور ، ڈاکو کو ڈاکو اور فراڈئیے کو فراڈیا کہنے کی ہمت پیدا کریں چاہے وہ ظلم کی کمائی سے کتنے ہی اربوں کے مالک کیوں نہ ہو جائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :