جدیدعہد عباسی کے پرانے چیلنجز

منگل 22 اگست 2017

Ashfaq Rehmani

اشفاق رحمانی

ایک تازہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 70 اداروں، اتھارٹیز کے پاس وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے 5911 احکامات پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے صوبے کے ان اداروں کو 9229 احکاما ت جاری کئے بیورو کریسی کی جانب سے سابق وزیراعظم کے احکامات پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے تاہم ان کے لئے دوبارہ وزیراعظم سیکرٹریٹ کو لیٹر لکھنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے تاکہ وزیراعظم سیکرٹریٹ سے دوبارہ منظوری لی جاسکے۔

تاہم وزیراعظم سیکرٹریٹ کے ذرائع کے مطابق موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے نے احکاما ت جاری کر دئیے ہیں۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ سے جن وزارتوں، صوبوں اور اداروں کو جو احکامات جاری کئے گئے تھے ان پر عملدرآمد رپورٹ طلب کی جائے۔ جس کے لئے وزیر اعظم سیکرٹریٹ نے چاروں صوبوں رپورٹ طلب کرنے کے لئے آئندہ ہفتے لیٹر جاری کر دے گا۔

(جاری ہے)

اس بارے میں وزیراعظم سیکرٹریٹ سے جو لسٹ پنجاب کے مختلف اداروں کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے احکامات پر جواب مانگا جارہا ہے ۔

پاکستان کی پہلی سوشل میڈیا نیوز ایجنسی میڈیاڈور کی ایک رپورٹ کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب کے پاس 1975 احکامات ، سیکرٹری فنانس گورنمنٹ آف پنجاب کے پاس 10 ، وزیراعلیٰ کے سیکرٹری کے پاس 69 ، ائی جی جیل خانہ جات کے دفتر میں 39 ، سیکرٹری صحت کے پاس 69 ،سیکرٹری پی اینڈ ڈی کے پاس 3 ، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے پاس 5 ، ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں 45 ، سپیشل سیکرٹری ٹو سی ایم کے پاس 328 ، چیئرمین کرائمز کمیٹی کے دفتر میں 70 ، سیکرٹری قانون کے دفتر میں 13، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کے دفتر میں 117 ، سیکرٹری ائرگیشن کے دفتر میں 49۔

سیکرٹری اوقاف کے دفتر میں 26 ، سیکرٹری پبلک سروس کمشن کے دفتر میں 1 ، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کے دفتر میں 14 ، اوورسیز پاکستانی کمشن کے دفتر میں 85 ، سیکرٹری لیبر کے دفتر میں 15 ، سیکرٹری سپیشل ایجوکیشن کے دفتر میں 11 ، سیکرٹری کمیونیکشن اینڈ ورکس کے دفتر میں 27 ، سیکرٹری انفورمیشن اینڈ کلچرل کے دفتر میں 14 ، سیکرٹری کالونیز کے دفتر میں 1 ، سیکرٹری ٹو گورنر کے دفتر میں 12 ، سیکرٹری یوتھ افیرز ٹورزم کے دفتر میں 5 ، سیکرٹری لائیو سٹاک کے دفتر میں 3 ، سیکرٹری سوشل ویلفیئر کے دفتر میں 23 ، بیت المال پنجاب کے دفتر میں 869 ،سیکرٹری جنگلات کے دفتر میں 12 ، سیکرٹری سکولز ایجوکیشن کے دفتر میں 94 ، چیئرمین پنجاب ہیلتھ کیئر کے دفتر میں 29 ، سیکرٹری آئی اینڈ سی کے دفتر میں 46 ، سیکرٹری کوآپریٹو کے دفتر میں 1 ، سیکرٹری فوڈ کے دفتر میں 7 ، ڈی جی ایل ڈی اے کے دفتر میں 47 ، سیکرٹری ہاؤسنگ کے دفتر میں 20 ، ڈی جی انٹی کرپشن کے دفتر میں 84 ، سیکرٹری زراعت کے دفتر میں 8 ، پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈز کے دفتر میں 5 ، ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر میڈیسن کے دفتر میں 2 ، سیکرٹری انرجی ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں 2 ، سیکرٹری ٹرانسپورٹ کے دفتر میں 2 ، پی ایس او لا اینڈ آرڈر وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے دفتر میں 16 ، سیکرٹری ایکسائز کے دفتر میں 3 ، ڈی جی ایکسائز پنجاب کے دفتر میں 2 ، سیکرٹری انڈسٹری کے دفتر میں 2 ، ڈی جی راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفتر میں 1 ، وائس چانسلر گورنمنٹ کالج یورنیورسٹی فیصل آباد کے دفتر میں 9 ، ڈائریکٹر فنانشل اسٹنٹ وزیر اعلی سیکرٹریٹ کے دفتر میں 358 ، کمشنر پنجاب ایمپلائز سوشل سکیورٹی کے دفتر میں 1 ، سیکرٹری ماحولیات کے دفتر میں 13 ، پی ایس او کوآرڈنیشن وزیر اعلی آفس کے دفتر میں 71 ، ڈی جی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے دفتر میں 155 ، چیف ایگزیکٹو راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے دفتر میں 5 ، سیکرٹری ویمن ڈویلپمنٹ کے دفتر میں 4 ، پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے دفتر میں 15 ، سیکرٹری پنجاب پرائمری ہیلتھ کئیر ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں 300 ، پی ایچ اے ملتان میں 1 ، ڈی جی ایف ڈی اے کے دفتر میں 1 ، ایم ڈی واسا کے دفتر میں2 احکامات پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں۔

سیاسی و عدلیہ محاذ ارائی کی افواہوں کا سلسلہ بھی جاری ہے،ذرائع کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے سینئر ترین جج اور پاناما بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف ریفرنس تیار کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ تاہم قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اٹارنی جنرل آفس اور سپریم کورٹ آفس نے کہا ہے کہ ایسا کوئی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر نہیں کیا گیا۔

دریں اثنا شہبازشریف نے پارٹی کے تمام رہنماؤں اور عہدیداروں سے کہا ہے کہ پاکستان اداروں کے درمیان تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا، پارٹی رہنما بیان بازی سے گریز کریں۔تردید اور شہبازشریف کی ہدایت کے بعد، ریفرنس پر بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ احتیاط اپنی جگہ، لیکن ، ہوشمندی کا بھی تقاضا ہے کہ بیان بازی سے گریز اور اجتناب کیا جائے۔ مگر اس کے باوجود مسلم لیگ ن کے اندر سے دونوں طرف سے بیان بازی جاری ہے، ن لیگ کا ایک حلقہ اداروں کے خلاف تلخ و تندبیان بازی کئے جا رہا ہے۔

یہ طرز عمل ن لیگ کے اندر انتشار کا باعث بن سکتا ہے ایک ایسی جماعت کے رہنماؤں نے جو جمہوریت پسند ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے اور جس نے آئین و قانون کی بالادستی کا عزم کر رکھا ہو، زیبا نہیں، کہ وہ خود ایک ایسا کام شروع کردے، جس پر دوسری جماعتوں پر تنقید کرتی رہی ہے، ماضی میں بھی اس قسم کی محاذ آرائی کے تلخ نتائج بھی، سیاسی قائدین اور جمہوریت کو بھگتنے پڑے۔

غیر ضروری، مہم جوئی کے شوق میں، ملک اور جمہوریت کو نقصان پہنچا۔ فیصلے سے اگر اختلاف ہے، تو اس کے اظہار کے لئے قانونی راستے کھلے ہیں، فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی جا سکتی ہے۔آج مسلم لیگ ن کا امتحان بھی ہے، کہ وہ وقتی فائدوں کو ترجیح دیتی ہے، یا ملک و قوم اور آئین جمہوریت کو مقدم رکھتی ہے،دوسری طرف آصف علی زرداری اوربلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اب میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا جائیگا۔

نواز شریف کا طرز عمل کبھی جمہوری نہیں رہا اور اگر وہ اب اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں تو پھر مقابلہ کریں اور ڈٹے رہیں۔ ہم پر تو سب کچھ گزر چکا ہے، ہمارے قائد بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا، ہمارے وزیراعظم کو نااہل کیا گیا، خود برسوں جیل میں قید رہے مگر کبھی کوئی ایسی بات نہ کہی کہ ملک کو نقصان پہنچے، دشمن فائدہ اٹھائے۔انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور تریسٹھ کے خاتمے کی ترمیم پارلیمان میں لائی جائے گی تو دیکھیں گے مگر رات کو بلاول نے کہا کہ 2018 میں اپنا مینڈیٹ لے کے آئینگے تو اس ترمیم کو آئین سے نکالیں گے۔

اصولی طور پر اگر یہ شق مفاد عامہ میں نہیں تو محض اس لئے اس سے صرف نظر کرنا مناسب نہیں کہ اسکی بات مسلم لیگ ن کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ مسلم لیگ ن بھی اپنے لوگوں کو قائل کرے کہ کل انہیں جو آرٹیکل ملک و قوم کے مفاد میں نظر آتی تھی آج محض میاں نوازشریف کی نااہلی سے وہ زہر کیوں لگنے لگی ہے اور جان چھڑانے کی اتنی جلدی بھی کیا ہے۔ آج مسلم لیگ ن اور پی پی پی ایک بار پھر دو انتہاوٴں پر نظر آ رہی ہیں۔

اب پی پی پی دوریاں اختیار کر رہی ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کے یک نکاتی ایجنڈے پر تو دونوں کو یکجہت ضرور ہونا چاہئے۔ آصف زرداری نے عدلیہ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔تا حیات نااہل سابق وزیراعظم نوازشریف بھی اپنی ٹون کو ذرا نرم کریں تو خود ان کیلئے بھی بہتر ہے۔جبکہ شہباز شریف کو چاہیے کہ پنجاب کے 70 اداروں، اتھارٹیز کے پاس وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے 5911 احکامات جو پینڈنگ پڑے ہوئے ہیں اس کی طرف خصوصی توجہ دے کر پنجاب کی سیاسی، معاشی ساکھ کو مزید بہتر بنا ئیں،وقت کم اور شریف حکومت کے زیر اثر جدیدعہد عباسی کے پرانے چیلنجز انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :