پاکستان میں میکاولین اور چانکیائی فلسفہ سیاست

ہفتہ 12 اگست 2017

Israr Ahmad Raja

اسرار احمد راجہ

پاکستان پیپلز پارٹی کس طرح مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتی ہے یہ سب پر عیاں ہے مگر بولنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ سر شاہنواز بھٹو کے پاکستان کی سرحدوں سے میلوں دور ہندو اکثریتی ریاست جونا گڑھ کا پاکستان سے الحاق کا غیر منطقی کارنامہ سرانجام دینے پر سب سے پہلے نواب آف جونا گڑھ طویل عرصہ تک کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے کے لیے بے سہارا چھوڑ دیے گے او رساتھ ہی بھارتی حکومت کے لیے جوناگڑھ پر قبضے اور کشمیر میں مداخلت کی راہ ہموار کر دی ۔

کانگریسی لیڈروں نے غدار کشمیر شیخ عبداللہ کو شیشے میں اتار ا توغدار عبداللہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح  سے بد کلامی پر اتر آیا۔ مرحوم کے ایچ خورشید کہتے ہیں کہ جب جونا گڑھ کے الحاق کی دستاویز قائداعظم کے سامنے رکھی گئی تو آپ نے اسے پڑھنے کے بعد دستخط کرتے ہوئے فرمایا کہ This wil not workقائداعظم کا کہنا درست ثابت ہوا اور چند یوم کے اندر ہی بھارتی افواج نے جونا گڑھ پر قبضہ کر لیا ۔

(جاری ہے)

نواب صاحب ذاتی کپڑوں میں جونا گڑھ سے نکلے اور کراچی آکر غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ۔ جونا گڑھ ہندوستان کی امیر ترین ریاست تھی اور عوام انتہائی خوشحال تھے۔ کراچی کے ایک بینک میں جونا گڑھ اسٹیٹ کے تین کروڑ روپے بھی بھارتی حکومت نے انگریزوں کی مدد سے نکال لیے اور نواب صاحب کے وزیر اعظم نے کبھی غریب الوطن نواب کا حال بھی نہ پوچھا۔


جونا گڑھ کا سانحہ مہاراجہ کشمیر کو ہراساں کرنے کا موجب بنا جس کی وجہ سے مہاراجہ کشمیر تزبذب کا شکار ہو گیا۔ شیخ عبداللہ کی سازشوں نے سیاسی ابتری پیدا کی تو مسلم کانفرنس کی دوسرے اور تیسرے درجہ کی قیادت نے صف اول کے رہنماؤں جن میں سرفہرست چوہدری غلام عباس اور اللہ رکھا ساغر شامل تھے کی غیرموجودگی میں آزادکشمیر کی حکومت کے قیام کا اعلان کر کے مسائل کو مزید الجھادیا ۔

اسیران جموں نے اپنے قائد چوہدری غلام عباس کی مشاورت سے سردار ابراہیم خان اور دیگر کو لکھا کہ وہ جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کریں جو مہاراجہ کشمیر کو انتہائی قدم اُٹھانے اور نیشنل کانفرنس کو کانگرس کی گود میں بٹھانے کاسبب بنے ۔ مہاراجہ کشمیر کو ریاست کی آزاد حیثیت سے قائم رہنے کی جدوجہد کو کامیاب کرنے کاموقع دیا جائے ۔ بیرونی مداخلت اور دباؤ سے فارغ ہو کر مہاراجہ کو عوام کی رائے لینے اور بہتر فیصلہ کرنے کا موقع ملاتواسے کشمیر ی عوام کی کامیابی تصور کیا جائیگا ۔

مہاراجہ کسی بھی صورت میں عوامی رائے کے بغیر اپنی حکومت قائم نہیں رکھ سکے گا اور مجبوراًعوام کی مرضی و منشا کے سامنے سرنگوں ہو جائے گا۔ سردار ابراہیم خان اور دیگر نے جو فیصلہ کیا اس پر شادیا نے تو بجائے گئے مگر کوئی اس کے نتائج پر بولنے اور لکھنے کی جرات نہیں کرتا۔ یہ سب جلد ی اور جذباتی فیصلوں کا نتیجہ ہے جو ستر سال سے کشمیری عوام بھگت رہے ہیں ۔

مرحوم سردار عبدالقیوم خان اپنی تقاریر میں اکثرپتھر مسجد سرینگر اور آبی گزرگاہ کا ذکرکرتے تھے اور اب سردار عتیق احمد بھی پتھر مسجد کا ذکرکر تے نہیں تھکتے مگر ان فیصلوں کے بعد کیا ہواا س پر روشنی بھی نہیں ڈالتے ۔ظاہر ہے کہ پتھر مسجد اور آبی گزر گاہ میں ہونے والے فیصلوں نے کشمیر کو اندھیروں میں دھکیل دیا جہاں روشنی کا تصور بھی محال ہے۔

آزادکشمیر بنا تو اسے انقلاب پونچھ کا نام دے کر صرف سندھن قبیلے کو آزادی کا سرخیل بناکر پیش کیا گیا اور آزادکشمیر پر حکمرانی کا حقدار تسلیم کر لیا ۔آج بھی تنخواہ دار کالم نگار اور لفافہ صحافی صدر مسعود خان کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ آپ کا تعلق غیور ، جنگجو اور تحریک آزادکشمیر کے سرخیل قبیلے سے ہے۔ صدر مسعود خان کے قصیدہ خواں بھول گئے کہ جنگ آزادی کشمیر کسی ایک قبیلے یا برادری نے نہیں بلکہ سارے کشمیر یوں نے مل کر لڑی ۔

تحریک آزادی کشمیر سے غداری کرنیوالے بھی مسلمان ہی تھے جن میں سارے کشمیر کے چھوٹے بڑے جاگیردار اور مراعات یافتہ طبقات شامل تھے۔ صرف سدھن قبیلے کے سر آزادی کا تاج رکھنا کس بھی لحاظ سے درست نہیں ۔ ایسا پراپیگنڈہ تاریخ سے انحراف اور شہدائے کشمیر کے خون سے غداری کے مترادف ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سدھن قبیلے نے بھی اپنے حصے کا خون پیش کیا اور قربانیاں دیں مگر اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ گلگت بلتستان سے لیکر بھمبر اور ہیڈ مرالہ تک دیگر کشمیریوں نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔

سدھن قبیلے نے اپنے علاقے میں بہادری کے جوہر دکھائے اور دیگر علاقوں میں رہنے والوں نے اپنے علاقوں میں ڈوگرہ فوج کا مقابلہ کیا اور اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا ۔ چمچہ گیر صحافی اگر تاریخ تحریک آزادی سے واقف نہیں تو یہ اُن کا قصور ہے۔ کشمیر کا ایک المیہ جاہلانہ صحافت اور متعصبانہ دانشوری بھی ہے ۔ ایسے ہی کچھ نام نہاد دانشور جنرل انور اور سردار یعقوب خان کی خوشنودی اور قصیدہ گوئی میں بھی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ۔

ساری دنیا کو پتہ ہے کہ جنرل انور صدر مشرف کے کشمیر سے متعلق چار نقاتی فارمولے کا محافظ بن کر آیا تھا اور سردار یعقوب عہدہ صدارت کے لیے زیادہ بولی دینے والوں میں شامل تھے۔ورنہ صدارت کا اصل حقدار چوہدری لطیف اکبر تھا۔
پونچھ کے حوالے سے دیکھا جائے تو تحریک آزادی کشمیر پونچھ چپڑ کا اصل ہیر و کیپٹن حسین خان شہید ہے ۔ کیپٹن حسین خان شہیدکی قیادت میں سدھن قبیلے کے علاوہ دیگر قبائل اور برادریوں نے ڈوگرہ فوج اور پولیس کا بھرپور مقابلہ کیا اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو عسکری تاریخ میں سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں ۔

سردار مسعود نہ تو عوامی نمائندے ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی ، سماجی اور فلاحی جماعت یا ادارے سے منسلک ہیں۔ سردار مسعود کا سدھن قبیلے سے ہونا صدارت کا سر ٹیفکیٹ نہیں ہوسکتا ۔یوں تو سیاسی صدور نے بھی کوئی ایسا کارنامہ سر انجام نہیں دیا جوقابل تعریف و تقلید ہو ۔ ایسا ہی احوال وزیراعظموں کا بھی رہا ہے۔ کاغذی سکیموں کے علاوہ اقرباء پروری ، برادری از م اور جیالہ از م پر سیاسی حکومت کی اولین ترجیحی رہی جو آخر کار ناسور کی شکل اختیار کر گئی ۔

کرپشن ، دھونس دھاندلی اور غنڈہ گردی نے آزادکشمیر کی ابتر سیاسی فضاکو مزیدمکدر کیا تو تحریک آزادی نے آزادی بزنس کا روپ دھا رلیا ۔ آزادکشمیر کی تاریخ پر سچائی کی نگارہ ڈالی جائے تو یہ خطہ زمین خوش فہموں ، خودفہموں اور جی حضوریوں کی جنت سے کم نہیں ۔جناب کے ایچ خورشید اور جناب سردار محمد ابراہیم نے کچھ دیر تک خیالی تصوارتی جنت سے نکل کر حقیقت کی سیاست اور سیاست کو خدمت کاروپ دینے کی کوشش کی تو ایو ب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں بنددروازں کے پیچھے رہنے پر مجبور کر دیا۔

مجاہد اول نے سیاست کو روابطت ، روحانیت اور مفادات کا رنگ دیا توہر سوچ او رفلسفے کے فریم میں فٹ ہو گئے۔ مجاہد اول جرنیلوں سے قربت اور سیاستدانوں سے عداوت کے فورمولے پر کام کرتے رہے اور آخر دم تک کا میاب رہے ۔ بھٹو سے اصولی اختلاف کیا اور جیل چلے گئے ۔ وہ جانتے تھے کہ جذبانی اورہیجانی سیاست زیادہ دیر نہیں چلتی۔ سردا ر ابراہیم خان اور کے ایچ خورشید کی شرافت بھٹو ازم کا مقابلہ نہ کر سکی اور دونوں نے وقت کے سلطان سے سمجھوتا کر لیا ۔

بھٹو سیاست میں شرافت اور مدمقابل کو پسند نہ کرتے تھے۔
سید ہ عابدہ حسین اپنی کتاب دی پاو ر فیلئیر میں لکھتی ہیں کہ جناب بھٹو شاہ جیونا حویلی تشریف لائے تو دوران ملاقات پوچھا کہ تمہارا گھر کتنا بڑا ہے۔ میں نے گھر کا رقبہ بتایا تو فرمانے لگے کہ میرا گھر اس سے کئی گنا بڑا اور شاندار ہے۔ پھرزرعی زمینوں کا پوچھا اور جواباً کہا کہ میری جاگیر اس سے کئی گنا بڑی اور وسیع ہے۔

بھٹو کسی کو بھی اپنے برابر یا بڑا ہونے کا حق نہیں دیتے تھے۔ سیاست ہو یا امارت بھٹو برابری اور مساوات کے قائل نہ تھے۔ سیدہ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ مجھے بھٹو کی رعونت اور تکبر پسند نہ آیا ۔
ہم بھی وہاں موجود تھے کے مصنف لیفٹینٹ جنرل عبدالمجید ملک مرحوم لکھتے ہیں کہ جنا ب بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز کیا تو فوجی روایات کے مطابق میرے علاوہ جنرل اکبر خان نے استعفیٰ دے دیا۔

جنرل ضیاء الحق کے ترقیاب ہونے سے دیگر چار جرنیل بھی متاثر ہوئے مگر انہوں نے نوکری جاری رکھنے اور خاموش رہنے میں آفیت سمجھی جسکاتب مجھے اندازہ نہ ہوا۔ جنر ل ٹکا خان کا خیال تھا کہ شائد میں نے اور جنرل اکبر خان نے باہمی مشورے سے ایسا کیا ہے۔
میرے استعفیٰ پیش کرنے کے بعد جناب بھٹو پشاور تشریف لائے اور گورنر ہاؤس میں ملاقات کے دوران بتایاکہ تمہارے بینک اکاؤنٹ میں زیادہ پیسہ نہیں اور تمہارے بچے بھی زیر تعلیم ہیں اس لیے تمہیں ایک اچھی پیش کش کر ینگے ۔

بھٹو صاحب ہمارے استعفیٰ دینے پر بے چین ہوگئے اور بہت سے خدشات دل میں بٹھا لیے ۔ بھٹو نے فیصلہ کیا کہ مجھے اور جنرل اکبر کو سفیر بنا کر ملک سے باہر بھجوا دیا جائے۔ جنرل اکبر کو میکسیکو میں سفیر بننے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے فوراً قبول کر لی جس پر مجھے حیرت ہوئی۔
مجھے پہلے لیبیا اور پھر ابوظہبی کی آفر ہوئی تومیں نے اسے قبول نہ کیا ۔

میں نوکری سے فارغ ہو کر اپنے گاؤں چکوال چلا گیا تو کچھ روز بعد فارن آفس کے ایکٹنگ سیکرٹری ریٹائر ڈ جنرل این اے ایم رضا نے فارن آفس کے ایک افسر کو گاڑی دیکر میرے گاؤ ں بھجوایا اور مجھے ملنے کے لیے کہا۔ میں نے کچھ عرصہ جنرل رضا کے ماتحت کام کیا تھا اور وہ مجھے پسند کرتے تھے ۔ ملتے ہی بے تکلفی سے کہا کہ بیوقوف نہ بنو اور فوراً اس ملک سے نکل جاؤور نہ تمہاری ، تمہارے خاندان اور دوستوں کی زندگی جہنم بن جائے گی ۔

جنرل رضا نے کہا کہ ہم نے آپ کو مراکش میں سفیر تعینات کیا ہے ۔ اسے قبول کرو اور جلد ی مراکش چلے جاؤ۔
جنرل مجید ملک لکھتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد میں بھی مراکش چلا گیا تو مجھے سمجھ آئی کہ جنرل اکبر نے میکسیکو کی سفارت کیوں قبول کی تھی۔ بھٹو میکاولین فلسفہ سیاست کے مقلد تھے اور میکاولی کے اصولوں کے مطابق کام کرتے تھے۔ میکاولی کا مشہو رقول ہے کہ حکمران کو لومٹری کی طرح مکار اور شیر کی طرح خونخوار ہونا چاہیے ۔

میکاولی عوام کو احمق اور غرضمند قرار دیتا ہے اور حکمران کو تاکید کرتا ہے کہ وہ ان کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اپنی گرفت مضبوط رکھے۔ میکاولی سیاست میں اصول پر ستی کا قائل نہیں اور نہ ہی اخلاقی اقدار کا حامی ہے۔ جنرل مجید اور جنرل اکبر کی طرح جناب کے ایچ خورشید اور سردار ابراہیم خان نے بھی اطاعت قبول کرلی ۔ سردار عبدالقیوم خان اور کرنل حسن مرزا نے رقابت کاراستہ اختیار کیا تو جیل چلے گئے ۔

بختیار رانا اور جے اے رحیم نے اختلاف کیا تو نشان عبرت بن گئے اور کچھ صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئے۔
پاکستان میں میکاولین فلسفہ سیاست کے مقابلے میں چانکیائی سیاست نے قدم جمائے تو بھٹو ازم کے پیروکاروں نے میثاق جموریت کا سہارا لینے میں آفیت جانی ۔ کوئی چالیس سال پہلے کی بات ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے یہی بات ائیر مارشل اصغر خان کو سمجھانے کو کوشش کی مگر ناکام رہے ۔

قائدعوام کو ائیر مارشل کو گراؤ نڈ کرنے میں کامیابی نہ ہوئی مگر کامیابی ائیر مارشل کو بھی نہ ملی ۔ شریف برادران سمیت بہت سے کارکن اور لیڈر ضیاالحق کی توپوں کی زد میں آکر کریش کر گئے تو ائیر مارشل اپنے سیاسی اصولوں اور اخلاقی اقدار کی پوٹلی بچاکر گوشہ نشین ہوگئے ۔
بڑھاپے میں انہیں پہلا جھٹکااُس وقت لگا جب اُن کا بیٹا عمر اصغر جنرل پرویز مشرف کے دربار سے منسلک ہوا اور عوام کو روشن خیالی کا درس دینے لگا ۔

جنرل پرویز مشرف کی قربت کے باجود عمر اصغر نے بھی رقابت کا ر استہ اختیار کیا اور راہی ملک عدم ہو گیا۔ سردار مسعود خان کی صدارت وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین کشمیر کونسل کی کشمیر پالیسی کا حصہ ہے ۔ یہ پالیسی کیا ہے شائدمولانا فضل الرحمان اور مریم صفدرجیسے کو بھی علم نہ ہو ۔
روموز مملکت داند خسران

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :