سانڈ ،ایک حیوان! میٹا ڈار، ایک ہیرو

جمعرات 10 اگست 2017

Jahid Ahmad

جاہد احمد

انتہائی درجے کی حب الوطنی اور حقیقی جمہوریت کے جذبے سے سرشار بیانیہ پیش کیا جاتا ہے ! یہ جمہوریت نہیں، مذاق ہے۔ وزیرِ اعظم دو نہیں بلکہ تین پہیوں کی سائیکل چلاتا ہے۔ بھلا جمہوریت میں بھی کبھی ایسا ہوا ہے!
یہ جمہوریت بھی کوئی جمہوریت ہے۔ دیکھو وزیرِ اعظم دو پہیوں کے بجائے ایک پہیے کی سائیکل چلاتا ہے۔ یہ جمہوریت نہیں سرکس ہے!
ایسی جمہوریت کو جمہوریت کہنا جمہوریت کے منہ پر کالک پوتھنے کے مترادف ہے۔

وزیرِ اعظم دو پہیوں کی سائیکل پر ون ویلنگ کرتا ہے !یہ جمہوریت نہیں لا ابالی لونڈے لپاڑوں کا گینگ ہے!
کون سی جمہوریت؟ جہاں وزیرِ اعظم موٹر کا ر کے دور میں دو پہیوں کی سائیکل چلاتا ہے۔ یہ نالائقی ہے،نا اہلی ہے، قدامت پسندی ہے، جمہوریت نہیں!
کیا یہ جمہوریت ہے کہ غریب ملک کا وزیرِ اعظم عوام کے پیسوں پر موٹر کار چلائے؟ یہ آخر دو پہیوں کی سائیکل کیوں نہیں چلاتا۔

(جاری ہے)

یہ جمہوریت نہیں جمہوریت کے نام پر ڈاکا ہے!
جمہوریت مخالف بیانیہ اب ایسے سکے کے طور پر سامنے آیا ہے جس کا چت اور پٹ دونوں جمہور سے وابستہ جمہوریت کی شکست کی علامت ہے۔بیانیہ پیش کرنے والے عناصر کے لئے اچھی والی قابلِ قبول جمہوریت وہ ہے جس میں عقل مند جمہور اچھے اچھے تصدیق شدہ سیاستدانوں کومنتخب کریں جو انحراف کی صلاحیت سے مکمل بے بہرہ ہوں اور بری والی بدترین جمہوریت وہ ہے جس میں کم عقل جمہور ناپسندیدہ بے لگام سیاستدانوں کا انتخاب کریں۔


پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر آج تک جمہوری اور غیر جمہوری عناصر میں جاری سیاسی مڈ بھیڑ اور سپین کے مقبول کھیل ’ بُل فائٹنگ‘ میں بہت مماثلت پیدا ہو چکی ہے۔ ’ بُل فائٹنگ‘ کا یہ کھیل اپنی تمام تر حیوانیت کے باوجود دنیا بھر میں اپنی خاص مقبولیت رکھتا ہے۔ یہ کھیل خصوصاٌ جنگجو ذہن افراد کے لئے انتہائی پرکشش نظارہ پیش کرتا ہے جہاں کھلے میدان میں انسان بمقابلہ حیوان دکھائی دیتا ہے۔

ایک تگڑابپھرا سانڈ اور اس کے مد مقابل دبلا پتلا، چست رنگیں لباس میں ملبوس، انتہائی پھرتیلامیٹاڈار جو ہزاروں افراد کے مجمع کے سامنے اپنی جان جوکھوں ڈال کر ایک لال کپڑے ، اپنے زورِ بازو اور کیل کانٹے کی مدد سے سانڈ کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے۔
بشمول جانوروں کے حقوق کی پرچارک تنظیموں کے، اس کھیل کے مخالفین سپین کے اندر بھی موجود ہیں اور باہر بھی لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود اس کھیل کے شائیقین کی تعداد ابھی بھی اس قدر ضرور ہے کہ جو اس کھیل کے کھیلنے والوں کو اسے جاری رکھنے کے لئے تحریک دیتی ہے۔

جب تک کہ میدان تماشائیوں سے بھرے ہیں ،سانڈ میٹا ڈار کے ہاتھوں دھول چاٹتا رہے گا۔ تالیاں بجتی رہیں گی۔سانڈ ایک خونخوار حیوان اور میٹاڈار ایک ہیرو کے طور پر ابھرتا رہے گا۔ اس بات سے قطع نظر کے سانڈ یہ کھیل کھیلنا چاہتا ہے کہ نہیں یہ کھیل کھیلا جاتا ہے کیونکہ شائقین یہ کھیل دیکھنا چاہتے ہیں اور میٹا ڈار یہ کھیل کھیلتے رہنا چاہتا ہے۔

سانڈ کی افزائش بھی میٹاڈار کی خواہش کے عین مطابق کی جاتی ہے۔ اسے مقابلے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ مقابلے سے پہلے بدترین سلوک روا رکھا جاتا ہے اور باقائدہ مستقل جسمانی اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ مقابلہ شروع ہونے پر میٹاڈار سانڈ سے کھیلتا ہے، اسے لال کپڑا دکھا کر طیش دلاتا ہے، تماشائیوں کے ذوق کے پیشِ نظر سانڈ کو میدان میں ادھر سے ادھر بھگایا جاتا ہے۔

وقت پورا ہونے پر میٹاڈار بھرپور ہنر مندی اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے سانڈ کی کمر میں پتلی تلوار نما چھریاں پیوست کر نے کا عمل شروع کرتا ہے۔ خون بہتا ہے، سانڈ کمزور پڑتا ہے، قدم اٹھانے سے قاصر ہوتا چلا جاتا ہے اور تب میٹا ڈار کمال بہادری اور ادا سے آخری وار کر کے سانڈ کی زندگی اور کھیل کا خاتمہ کر دیتا ہے۔اس دوران میٹا ڈار کی مدد کے لئے معاون میٹا ڈار میدان میں پوری تیاری کے ساتھ ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔

بدقسمت سانڈ کسی موقع پر میٹاڈار پر حاوی ہوتا نظر آئے تو معاون میٹا ڈار چھریوں تلواروں سے لیس گھوڑوں پر چڑھ کر سانڈ پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور اس عمل کو بھی بھرپور بہادری ہی تصور کیا جاتا ہے۔
اب بس میٹا ڈار کی جگہ پاکستان کی نادیدہ غیر جمہوری قوتوں کو رکھ دیں اور سانڈ کو منتخب پاکستانی وزراء اعظم سے تبدیل کر دیں۔ آپ خود کو سپین کے کسی ’بل فائٹنگ‘ کے میدان میں تماشائیوں کے بیچ بیٹھا محسوس کریں گے۔ لہو لہان سانڈ مٹی چاٹ رہا ہے جبکہ میٹاڈار کی شجاعت پر تماشائی پھولے نہیں سما رہے۔جب تک میدان میں تالیاں پیٹنے والے، خراجِ تحسین پیش کرتے تماش بین بھرے رہیں گے، کھیل یوں ہی چلتا رہے گا۔
سانڈ ،ایک خونخوار حیوان! میٹا ڈار، ایک ہیرو۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :