نوشتہء دیوار

جمعرات 10 اگست 2017

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

ولادی میر لینن روس کے انقلابی سیاستدان تھے۔ یہ 1917سے 1924 تک روس کے حکمران رہے۔ یہ مشہور فلا سی اور ماہر معاشیات کارل مارکس کے نظریات اور مارکس ازم کے زبردست حامی تھے۔ پہلی عالمی جنگ میں اتحادیوں نے ”پراپیگنڈہ“ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ جرمنی اور برطانیہ کے پراپیگنڈہ نے حریفوں کو روائتی ہتھیاروں سے زیادہ نقصان پہنچایا۔

یہ ملک پراپیگنڈہ کے ذریعے حقائق مسخ کرکے من پسند خبریں اور تجزیے نشر کرتے اور متحارب کیمپوں میں مایوسی اور بے چینی پھیلاتے لینن نے اتحادیوں کے پراپیگنڈے کے پس منظر میں ایک تاریخی جملہ کہا جو بعد میں ایک قول کی صورت میں تاریخ میں رقم ہوگیا۔ لینن نے کہا ”باربار بولا گیا جھوٹ سچ بن جاتا ہے۔“
لینن کا یہ تاریخی جملہ اس کی وفات 1924 سے1976 تک ایک قول ہی تھا اور لوگ اس جملے کو ہراس جگہ استعمال کرتے تھے جہاں سچ کی بجائے جھوٹ بار بار بول کر اُسے سچ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی یہاں تک کہ دو امریکی یونیورسٹیوں نے اس پر ریسرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔

(جاری ہے)


یہ 1977 ء کی بات ہے امریکی ریاست پنسلوانیا کی ویلا نو وا یونیورسٹی اور ریاست فلاڈیلفیا کی ٹمپل یونیورسٹی میں ایک مشترکہ ریسرچ کا آغاز ہوا۔ ماہرین نفسیات سچ اور جھوٹ بارے انسانی رویے اور انسانی نفسیات پر تحقیق کرنے لگے۔ یہ لوگ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ انسان حقیقت جانتے ہوئے بھی جھوٹ کو سچ ماننے پر کس طرح آمادہ ہوجاتا ہے اور وہ کون سا محرک ہوتا ہے جو انسان کی فیصلہ سازی کی قوت پر اثر انداز ہوتے ہوئے اُسے حقیقت جاننے کے باوجود جھوٹ کو سچ تسلیم کرنے پر آمادہ کردیتا ہی؟ ماہرین نے شرکاء کی ایک ٹیم بنائی اور تین الگ الگ مرحلوں میں ان کو ساٹھ سوالوں کا جواب صحیح اور غلط میں سے منتخب کرنے کو کہا۔

ہر مرحلے کے درمیان 2 ہفتوں کا وقت تھا اور پوچھے گئے سوال انتہائی عام فہم تھے جو بچے بچے کو معلوم تھے۔ تینوں مرحلوں میں پوچھے گئے ساٹھ سوالوں میں سے 20 سوال غلط تھے جو تینوں مرحلوں میں پوچھے گئے۔ حیران کن طور پر ریسرچ کے شرکاء نے ان 20 غلط جوابات کو درست سمجھ کر منتخب کیا محض یہ سمجھتے ہوئے کہ چونکہ یہ بار بار دہرائے جارہے ہیں۔ لہٰذا یہی درست جواب ہوں گے۔

ویلا نووا اور ٹمپل یونیورسٹی نے اس رویے کو illusory Truth Effect کا نام دیا اور ا س نتیجے پر پہنچے کہ یہ انسانی نفسیات ہے کہ جب اس کے سامنے ایک جھوٹ بار بار دہرایا جاتا ہے تو سامنے والد اُسے سچ تسلیم کرلیتا ہے۔
اگرچہ وہ حقیقت ثابت ہوئی اور اس ریسرچ کو یورپین جرنل آوسائیکا لوجی نے شائع کیا۔
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جب کسی بات کو بار بار دہرایا جاتا رہے تو وہ حقیقت معلوم ہونے لگتی ہے۔

مسلم لیگ ن کی حکومت اس بات کی عملی تصویر ہے۔ اپریل 2016ء میں پانامہ پیپزز کا سکینڈل آیا۔ عوامی سطح پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ احتجاج ریلیوں اور ریلیاں دھرنے میں بدلنے لگیں مگر حکومتی پارٹی کا مئوقف تھا کہ الزامات غلط ہیں اور جب تک عدالتی فورم سے الزامات ثابت نہیں ہوجاتے وزیراعظم استعفی نہیں دیں گے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج میں اضافہ ہوا مگر وزیراعظم اوران کا خاندان الگ الگ سٹوری سناتا رہا۔

وزیر دفاع نے تو پارلیمنٹ میں یہاں تک کہہ دیا کہ جناب سپیکر ! چند دنوں ہفتوں کی بات ہے یہ پانامہ بھی قصہء پارینہ بن جائے گا۔ اور لوگ اسے بھول جائیں گے۔ بادی النظر میں وہ اسے ماڈل ٹاؤن جیسا سانحہ سمجھ رہے تھے جہاں چودہ لاشیں گرنے کے باوجود ذمہ داروں کا تعین تک نہیں ہوسکا تھا سزا دلوانا تو دور کی بات تھی۔ عوامی تحریک نے تحریک قصاص شروع تو کی مگر قصاص میں سنجیدہ نہ ہونے کے سبب محض جلسوں اور جلوسوں تک ہی محدود رہی۔

مگر تحریک انصاف نے کمال ثابت قدمی سے اوپر سنجیدگی سے نہ صرف پانامہ ایشوء کو زندہ رکھا بلکہ حکمران خاندان کو گھسیٹ کر پاکستان کے عدالتی سسٹم کے سامنے لے آئی مگرن لیگ پھر بھی یہی کہتی رہی ان کا دامن صاف ہے۔ عدالتی کاروائی ہوئی اور ثبوت پیش کئے گئے کہ کس طرح انہوں نے پارک لین اور ون ہائیڈپارک جیسی مہنگی پراپرٹیز خریدیں۔ ن لیگ پھر بھی نہ مانی۔

یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے ملک کے اعلیٰ ترین اداروں سے تحقیقات کا حکم دیا جے آئی ٹی رپورٹ آئی اور ہوش ربا حقائق سامنے آئے مگر ن لیگ نے رپورٹ مسترد کردی۔
یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے ان کو ایک بار پھر اپنی صفائی کا موقع دیا اور اثاثوں کی خریداری اور منی ٹریل ثابت کرنے کو کہا مگر ن لیگ اثاثوں کی خریداری کے نہ تو ذرائع پیش کر سکی اور نہ ہی منی ٹریل اُلٹا عدالتی حکم نامے کو عدالتی 58-28 قرار دے دیا اور یہ ماننے سے انکار کردیا کہ کرپشن کہ الزامات میں رتی برابر بھی سچائی ہے۔

یہ آج بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ کیسے اصغر خان کیس میں شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹی ٹی کیے گئے۔ جنرل اسد درانی نے یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم پر مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کے اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کئے تاکہ محترم بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کی جاسکے ۔ یہ آج بھی ماننے سے انکاری ہیں کہ وہ گلف سٹیل مل جو خسارے میں تھی وہ کس طرح منافع میں بک گئی جس سے لندن فلیٹ خریدے گئے۔

یہ آج بھی اُسی بیسویں صدی کی پراپیگنڈہ مہم پر عمل کرتے ہوئے اپنی مرضی کے حقائق عوام کے بتانے پر عمل پیرا ہیں۔ مسلم لیگ کی یہ میں نہ مانوں کی پالیسی دور جدید میں illusory TRUTH EFEECT کی زندہ مثال ہے۔ یہ نوشتہء دیوار پڑھنے پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ جھوٹ اس طرح سے بار بار دہرارہے ہیں کہ ان کے عام گراس روٹ ورکرز کو سچ لگ رہا ہے اور وہ ایسے حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

مسلم لیگ ن کی اس
illusory Truth Effect نے عام گلی محلے کے سیاسی ورکر کی نفسیات پر اس قدر گہرا اثر کیا ہے کہ یواے ای اقامہ سمیت باقی تمام دستاویزی ثبوت اور جے آئی ٹی رپورٹ کو خوددیکھ لینے کے باوجود اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے زیادہ وہ اپنے لیڈرز کے ربانی کلامی بیانات پر یقین کررہے ہیں اور عدالتی فیصلہ ماننے سے انکاری ہیں ۔ مسلم لیگ کی قیادت نے نہ صرف خودکرپشن کی بلکہ اس ملک کے نظام کے ساتھ عام عوام کی نفسیات کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کو بھی جانبدار تصور کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اتنی بڑی سیاسی جماعت کے اندر کہیں سے بھی پارٹی سربراہ کی کرپشن کے خلاف آواز بلند نہیں ہورہی۔ کیا کسی پارٹی سے وابستگی اس کے ملک اور عوام سے وابستگی سے بالاتر ہو سکتی ہے؟ کیا مسلم لیگی ورکر ہونے کیلئے یہ اولین شرط ہے کہ آپ صرف حکمران خاندان کی چاپلوسی کریں اور ان کی کرپشن کے الزامات پر کوئی سوال نہ کریں؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ ایک مسلم لیگی مسلم لیگ میں ہی رہتے ہوئے اس پارٹی کو کسی ایک مخصوص خاندان کی ذاتی پراپرٹی یا جائیداد نہ بننے دے؟
کیا ایسا ممکن نہیں کہ سیاسی ورکر اپنی پارٹی سے وابستہ رہتے ہوئے اپنا جمہوری حق استعمال کرے اور کرپشن الزامات پر کسی خاندان کا دفاع کرنے سے ہاتھ کھڑے کردے؟ کیا ایسا ممکن نہیں کہ کوئی سیاسی ورکر اپنی پارٹی بدلے بغیر ہی ضمیرکی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ووٹ سے منتخب شدہ پارٹی صدر کو کرپشن الزامات کے تحت معزول ہونے پر مجبور کردے؟ کیا ایسا ہمارے ہاں ممکن نہیں؟
کس قدر عجیب منافقت ہے کہ کل میاں نواز شریف قوم سے خطاب میں کہہ رہے تھے کہ مجھ پر کرپشن کا الزام ثابت ہوگیا تو میں گھر چلا جاؤں گا آج جب عدالت نے ان کو گھر بھیجا ہے تو آج وہی میاں نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ کرپشن الزامات پر فارغ نہیں ہوئے تو سپریم کورٹ نے نیب عدالت میں ریفرنس کسی خلائی مخلوق کے خلاف بھیجے ہیں؟ اور کیا اگر کوئی وزیراعظم خلاف قانون یا خلاف آئین کام کرتا ہوا پایا جائے یا دبئی لندن میں جائدادیں بنائے نوکری کرے تو کیا اس وزیراعظم کے خلاف عدلیہ صرف اس محبت اور دلیل کے تحت فیصلہ نہ دے کہ وزیراعظم کو اپنی ٹرم پوری کرلینے دی جائے چاہے تب تک ملک بنانا سٹیٹ سے بھی نچلے درجے تک چلا جائے۔

کیا وزیراعظم کا ٹرم پوری کرنا زیادہ ضروری اور اہم ہے یا پھر ملک کے آئین و قانون کے ہر خلاف کام کرکے ملک کے وسائل لوٹ کرمے فیئرفلیٹس اور ون ہائیڈپارک جیسے محلات بنانا زیادہ ضروری ہے؟
دنیا کاکون سا ملک اور کون سی قوم یہ پسند کرتی ہیں کہ جس شخص کو انہو ں نے اپنی آنکھوں پر بٹھا کر اپنے مستقبل کا محافظ منتخب کیا وہ کسی اور ملک میں چند ہزار درہم پر مارکٹینگ مینیجر کی ملازمت کا اقامہ لیے بیٹھاہو؟ کیا پاکستان کا وزیراعظم کم اعزاز تھا کہ میاں نواز شریف کو دبئی کی فری زون میں ایک چھوٹی سی کمپنی میں مارکٹینگ مینیجر نوکری کرنی پڑگئی اور کیا ریاست پاکستان جناب وزیراعظم کو ذاتی اخراجات کیلئے اتنا مشاہرہ نہیں دیتی تھی کہ انہیں اخراجات پورے کرنے کیلئے ایک دوسرے ملک میں نوکری کرنی پڑگئی؟
حکمران خاندان اور ن لیگ جو مرضی کرلیں مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ 1920ء کا عشرہ نہیں یہ 2017ء ہے ۔

یہ من پسند پراپیگنڈے کا نہیں یہ گوگل ،وکی پیڈیا اورسوشل میڈیا کا دور ہے۔ آپ illusory Truth Effect سے لوگوں کو زیادہ تر حقائق سے بے خبر نہیں رکھ سکتے۔
جھوٹ 100 کیا ایک ہزار بار بھی بول دیا جائے تو وہ سچ کا متبادل اور قائم مقام نہیں ہوسکتا اقتدار کا سورج اب غروب ہوا چاہتا ہے۔ بادشاہت اگر اللہ کے برگزیدہ بنی سلیمان علیہ السلام کیلئے درفانی ولازوال نہیں ہوسکتی ، حکمران اگر عمر بن خطاب عمر بن عبدالعزیر جیسے جلیل القدر صحابی اور تابعی کیلئے تاابد نہیں ہوسکتی، عباسیوں، تا تاریوں، منگولوں،ترکوں، مغلوں کیلئے آبِ حیات نہیں پی کہ آئی تو باقی لوگ کس شمار اور کس قطاریں ہوسکتے ہیں۔

عقلمندی ہی ہے کہ اب نوشتہء دیوار پر لکھا بسروچشم تسلیم کر لیاجائے وگرنہ نظام ہستی کایہ دستور ہے وہ کسی کے جانے سے نہیں رکتا ۔چاہے جانے والا کوئی ہی کیوں نہ ہو!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :