ہم دلشاد جیسے لوگوں کو کیسے منہ دیکھائیں گے؟

جمعرات 10 اگست 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

دلشاد بھی اپنی بیوی اور چار بچوں سمیت عام آدمی کی طرح زندگی گذار رہا تھا۔ ایک فیکٹری میں ملازمت کر کے کرایہ کے گھر اور باقی اخراجات بآسانی پورے ہوتے تھے۔ اس کا گھرانہ خوشحالی، سکون او ر اتفاق کی زندہ مثال سمجھا جا تا تھا۔ یہ بھی باقی والدین کی طرح اپنے بچوں کو بہترین تعلیم کے ساتھ زندگی کی تما م تر آسائشیں فراہم کر نے کے لئے صبح سے شام شدید محنت کرتا اور باعزت طریقے سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کی سعی کرتا رہتا تھا۔

کئی سالوں سے جاری اس سفر میں بالآخر ایک روز ایسا سورج طلوع ہوتا ہے جوہنستے بستے گھرانے کو دکھ، تکلیف اور پریشانیوں کے عذاب میں مبتلا کر جا تا ہے ۔ اُس روز فیکٹری میں دلشاد کا کسی افسر سے جھگڑا ہوتا ہے اور چھوٹی سی بات پر اسے ملازمت سے فارغ کر دیا جا تا ہے ۔

(جاری ہے)

وہ بڑے دکھ اور کرب بھرے لہجے میں گھرا ٓتا ہے اور مستقبل کے بارے سوچنا شروع کردیتا ہے ۔

اب جبکہ اس کے گھر کی تمام خوشیاں اس کی ملازمت کے ساتھ وابستہ تھیں، ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے اس کے دکھ اور کرب میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور اسی کیفیت میں وہ دوسری ملازمت کی تلاش شروع کر دیتا ہے ۔ ایک جگہ سے دوسری، دوسری سے تیسری ،ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا کہ:” ابھی کوئی جگہ خالی نہیں ہے ، جب ہو گی تو اطلاع کردیں گے“۔
جیسے جیسے دن گذرتے جاتے ، دلشاد کے دکھ اور کرب میں مزید اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔

گھر کا کرایہ ، بچوں کی فیس اور دیگر ضروری اخراجات؟اسے کیسے پورا کیا جائے ۔ یہ سوال اسے پریشان کئے رکھا تھا۔ بالآخر جو گھر خوشحالی،سکون اور اتفاق کی زندہ مثال سمجھا جاتا تھا وہاں بھوک ، افلاس اور غربت نے ڈیرے ڈال لئے تھے ۔سکول انتظامیہ بھی فیس نہ جمع کرانے کی وجہ سے ایک ایک کر کے تما م بچوں کو سکول سے نکال رہی تھی ۔ تمام جمع پونجی پہلے ہی خرچ ہو چکی تھی۔

دلشاد چونکہ خود دار انسان تھا اس لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو گناہ سمجھتا تھا۔ انہی حالات میں ایک روز جب وہ شہر کے پوش علاقے کے ایک بازار میں پھر ملازمت کی تلاش میں نکلتا ہے تو وہی ذلالت وخواری اور ہر طرف سے” انکار “کا پرانا جواب ملتا ۔ اب جبکہ سکول سے نکالے گئے، بھوک سے بلکتے بچوں کے چہرے، روزمرہ کے اخراجات اور گھر میں جاری فاقوں کے بارے سوچتا ہے تو اچانک اس کی نظر سامنے ناچتے ہوئے خواجہ سرا پر پڑی جو اپنے تھڑکتے جسم کو دیکھا کر پیسے جمع کر رہا تھا۔


وہ اگلے ہی لمحے وہاں سے نکلتا ہے اورخواجہ سرا کا بھیس بدل کر شادی بیاہ کی تقریبات میں ڈانس کر کے اپنے اور اپنے گھر والوں کی بھوک کو مٹانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ حالات پھرتبدیل ہو نا شروع ہوتے ہیں۔ بھوک، افلاس اور بے روزگاری، آہستہ آہستہ اپنی موت مرنا شروع ہو جاتے ہیں ، دلشاد گھر سے کچھ دور ایک کمرہ کرایہ پر لیتا ہے اور وہاں خواجہ سراؤں کو ڈانس کی تربیت دینا شروع کر دیتا ہے ۔

اس کا معمول تھا کہ وہ ہر روز اپنے گھر جاتا تھا لیکن جب گذشتہ دو دن سے وہ اپنے بچوں کو ملنے نہ گیا تو انہیں تشویش ہوئی ۔جس پر اس کا بیٹااپنے باپ کا پتہ کرنے کے لیے اس کے کوارٹرپہنچا تو دروازہ بند تھا ،وہ صحن کی دیوار پھلانگ کرا ندر داخل ہوا تو دیکھا اس کے باپ کی خون میں لت پت لاش بیڈ پر پڑی ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق مقتول نے لیڈیز کپڑے پہن رکھے تھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملزمان نے قتل کرنے سے پہلے اسے ڈانس کرواتے رہے اور بعدازاں تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے چھریوں کے وار کر کے اس کو قتل کر کے فرار ہوگئے۔


قارئین کرام !مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ جہاں دلشاد جیسے لوگ بھوک، افلاس اوربے روزگاری کی وجہ سے جس رستے کے مسافر بنتے ہیں وہاں ایسے بھی لو گ موجود ہیں جو ہر جمعہ کی نماز حرم کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ میں جا کر اداء کرتے ہیں ، جو اپنے بابوں پر ماہانہ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں ،جو سیکڑوں پلاٹوں کے مالک ہیں ، جو ہر مہینے یورپ کی سیر کرتے ہیں ، جن کے بنک اکاؤٹنس دولت سے بھرے ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم کتنے اربوں کے مالک ہیں ،ظلم تو یہ ہے کہ جہاں ایسے لوگ دلشاد جیسے سفید پوش لوگوں کی دادرسی کرتے، ان کے بچوں کے سکولوں کی فیس ادا ء کرتے ، انکے گھروں میں ڈیرے ڈالے فاقوں کو ختم کرتے، ان کے کرایہ کے گھروں کے کرایہ میں کچھ مدد کرتے، وہاں یہ اپنی اپنی موج مستی میں مصروف صرف اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب دیکھنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اپنی مجبوریوں کے تحت بے راہ روی کی شہراہ کا مسافر بننے والے مرد و خواتین کو فوری گنہگار کا فتوی صادر کر کے ، اپنے اندر کے مفتی کو سلا دیتے ہیں ۔


قارئین کرام !میں سمجھتا ہوں کہ اصل گنہگار ہم لوگ ہیں جو بھوک سے تڑپتے لوگوں کے دکھ کو سمجھ نہیں پاتے اور انہیں دوسری راپ پر چلنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے یہ سوچا کہ روز قیامت جب دلشاد جیسے لوگوں نے رب تعالیٰ کے سامنے اپنے تما م تر گناہوں کا ذمہ دار ہمیں قرار دے دیا تو ہمارے پاس کیا جواب ہو گا اور ہم دلشاد جیسے لوگو ں کو کیسے منہ دیکھائیں گے؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :