کیا شہباز شریف کو ابھی وزیر اعظم نہیں بننا چاہئے؟

منگل 1 اگست 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

کیا نواز شریف کی نا اہلی سے سیاسی طوفان تھم گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلہ سے طوفان بڑھ جائے گا۔ پہلے یہ طوفان یک طرفہ تھا لیکن اب جوابی حملہ بھی ہو گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کھل گئی ہیں۔ ان کی خاموشی ٹوٹ گئی ہے۔ وہ اب آزاد انسان ہیں۔ اور پہلے زیادہ خطرناک ہو نگے۔ وہ مائنس ہو کر بھی مائنس ہو نے کے لئے تیار نہیں۔

وہ میدان سے باہر ہو کر میدان سے باہر ہونے کے لئے تیار نہیں۔ وہ آؤٹ ہو کر بھی آؤٹ نہیں۔ یہ بات ان کے مخالفین کے لئے زیادہ خطرناک ہو گی۔ اب وہ گالی کا جواب دینے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ اقتدار کی مجبوریوں سے بے نیاز نواز شریف پہلے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ ایک مختلف سیاست کرنے کے موڈ میں نظر آرہا ہے۔

(جاری ہے)

جس طرح بھٹو کی پھانسی کے بعد یہ نعرہ تھا کہ تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔

نواز شریف کی نا اہلی کے بعد اب یہ نعرہ یوں ہو گیا ہے تم کتنے اقامے مارو گے ہر گھرسے اقامہ نکلے گا۔ نا اہلی کا فیصلہ قانونی طور پر بے شک درست ہو لیکن سیاسی طور پر اس کی تشریح مختلف ہو رہی ہے۔
آپ دیکھیں کہ نواز شریف کے اقتدار کے ایوان کے اندر اور باہر جھانکنے والے ہمیں یہ سمجھاتے تھے کہ نواز شریف کو اگر وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑی تب بھی وہ کبھی شہباز شریف کو موقع نہیں دیں گے۔

بتانے والے بتاتے تھے کہ کوئی بھی بن سکتا ہے لیکن خاندانی سیاست اتنی پیچیدہ ہو چکی ہے کہ شہباز شریف پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ گھنٹوں دلیلیں پیش کی جا تی تھیں کہ دونوں بھائیوں میں بہت فاصلے پیدا ہو چکے ہیں۔اس لئے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ نہیں مل سکتی۔ کوئی بتاتا تھا کہ فیصلے اب مریم بی بی کر رہی ہیں۔مریم بی بی ہی نواز شریف کے آنکھ اور کان ہیں۔

اس لئے شہباز شریف نہیں بن سکتے۔ کوئی بتاتا تھا کہ محترمہ کلثوم نواز رکاوٹ ہیں۔ کوئی بتا تا تھا کہ دیور بھابھی کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ اس لئے شہباز شریف کا کوئی چانس نہیں۔ کوئی بتا تا تھا کہ اسی لئے شہباز شریف نے وزیر اعظم ہاؤس جانا بند کر دیا ہے۔ دیکھیں اب وزیر اعظم ہاؤس کے اہم مشاورتی اجلاسوں میں شہباز شریف کو نہیں بلا یا جاتا۔

نااہلی سے قبل نواز شریف کے دورہ سیالکوٹ سے خواجہ آصف کا نام بھی زور پکڑ گیا تھا۔ اور وہاں شہباز شریف کی عدم موجودگی نے بھی سوالات پیدا کر دیے۔ غرض دلیلوں کے اتنے انبار تھے کہ سیاسی تجزیہ ایک طرف ہی رہ جاتا تھا۔ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد شہباز شریف کو کیسے نظر انداز کیا جا سکے گا۔
لیکن منظر نامہ بدلتے ہی دیکھیں دلیلیں اور سوچ بد ل گئی۔

وہ جو شہباز شریف کی راہ میں حائل رکاوٹوں گنواتے تھکتے نہیں تھے وہ اب شہباز شریف کو پہلی اور آخری چوائس بتا رہے ہیں۔ کل کے مخالف آج وکیل بن گئے ہیں۔ لیکن منظر نامہ یک طرفہ نہیں بدلا۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ اب شہباز شریف وزیر اعظم نہیں بننا چاہتے۔ اور نواز شریف انہیں وزیر اعظم بنانے پر بضد ہیں۔ شہباز شریف نے گزشتہ تین دن میں اپنے بھائی نواز شریف کو متعدد بار درخواست کی ہے کہ وہ ابھی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہی رہنا چاہتے ہیں۔

وہ وزیر اعلیٰ رہ کر پارٹی کی زیادہ بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں پنجاب میں بہت سے اہم بجلی اور دیگر منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں وہ انہیں مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بنیاد پنجاب ہے۔ اگر وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہیں تو مسلم لیگ (ن) کی اگلے انتخابات میں پنجاب کی جیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

لیکن میاں نواز شریف نے بار بار کی جانیوالی ان کی یہ درخواست مسترد کر دی ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد وزیر اعظم بن جائیں یہی پارٹی کے لئے بہتر ہے۔اس طرح منظر نامہ اب یہ ہے کہ نواز شریف شہباز شریف کو وزیر اعظم بنا نے پر بضد ہیں۔ اور شہباز شریف نہیں بننا چاہتے۔
اس حوالہ سے شہباز شریف کے تھنک ٹینک کی دلیل یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کے اس وقت وزیر اعظم بننے سے شہباز شریف کو سیاسی طور پر نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔

ان کے مطابق ن لیگ اپنے اقتدار کی نوے فیصد مدت پوری کر چکی ہے۔ دس فیصد مدت میں اب کام کرنے کا موقع نہیں۔ بس وقت گزارنا ہے۔ بحران ہی بحران ہیں۔ سیاسی ہیجان انگیزی میں سینٹ کے انتخابات تک وقت گزارنا ہے۔پاکستان کی سیاست میں کرکٹ آگئی ہے جیسے کرکٹ میں سیاست آگئی ہے۔ اب ہم سیاست میں کرکٹ کی زبان استعمال کر کے اپنی بات آسانی سے سمجھا لیتے ہیں۔

اس کو کرکٹ کے اس منظر نامہ سے تشبیح دی جا رہی ہے کہ شام کو کھیل کا وقت گزرنے سے چند اوور پہلے وکٹ گر گئی ہے۔ اس موقع پر سمجھداری اسی میں ہے کہ اب اپنا بہترین بیٹسمین وکٹ پر نہ بھیجا جائے بلکہ وقت گزارنے کے لئے نائٹ واچ مین کو بھیجا جائے۔ تا کہ وقت بھی گزارا جا سکے۔ اور اپنے بہترین بیٹسمین کو بھی بچایا جا سکے۔ اس طرح شہباز شریف کو بچا یا جائے۔

انہیں اس موقع پر میدان میں اتارنے سے خطرہ ہو گا کہ کہیں وہ ا س بحرانی کیفیت کا شکار نہ ہو جائیں۔اور کسی انجانے حادثہ یا سازش کا شکار نہ ہو جائیں۔ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی مدت پوری کریں۔ اور 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم کے طور پر انتخابی مہم کی قیادت کریں۔ دوستوں کا خیال ہے کہ یہ شہباز شریف کے لئے اور مسلم لیگ (ن) کے لئے بہتر ہے۔

اس پر ایک دوست نے کچھ ایسے تبصرہ کیا ہے کہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ سے منگنی ہو گئی ہے اب یہ طے ہونا باقی ہے رخصتی کب ہونی ہے۔ لیکن میاں نواز شریف ان تمام دلیلوں کو نہیں مان رہے۔ ان کا موقف ہے کہ سیاست ڈر کر نہیں ہو سکتی۔ ہم انجانے خوف کو دلیل بنا کر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ۔
لیکن میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کو لیکر مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک ڈائیلاگ موجود ہے۔

یہ ڈائیلاگ اس بنیادپر نہیں کہ شہباز شریف کو وزیر اعظم ہونا چاہئے کہ نہیں۔ بلکہ صورتحال یہ ہے کہ شہباز شریف ہی وہ واحد شخصیت ہیں جن پر پوری جماعت متفق ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ شاہد خاقان عباسی کو بھی اسی لئے قبول کر لیا گیا کہ وہ عارضی وزیر اعظم ہیں۔ اگر یہ کہا جا تا کہ انہیں مستقل وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے۔ تو مخالفت سامنے آتی۔

اور اس نام کو ہضم کرنا مشکل ہو جاتا۔ وہ کوئی متفقہ میدوار نہیں ہے بلکہ انہیں عارضی امیدوار کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔
کیا شہباز شریف کو اب چند ماہ کے لئے وزیر اعظم بن جانا چاہئے یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کیا انہیں 2018 کے انتخابات میں جیت کی صورت میں ہی بننا چاہئے۔ کیا چند ماہ میں وہ خود کو وزارت عظمیٰ کے لئے اہل ثابت کر دیں گے۔ یا اتنی قلیل مدت میں ان کے پاس عوام میں اپنے لئے جگہ بنانے کے لئے وقت کم ہے۔

جس کا نقصان ہو گا۔ وہ بطور وزیر اعلیٰ ایک پہچان بنا چکے ہیں، اور اس پہچان کے ساتھ ہی انہیں اگلے انتخابات میں عوام کے سامنے جانا چاہئے۔ وہ اپنے ووٹر کو کنفیوژ نہ کریں۔ یہی ان کے لئے بہتر ہے۔ لیکن دوسری طرف پارٹی کی ضررورت اور نواز شریف کا فیصلہ بھی اپنی جگہ ہے۔ جس کے آگے انکار مشکل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :