ینگ ڈاکٹرز کا مقدمہ

پیر 24 جولائی 2017

Muzzamil Soharwardi

مزمل سہروردی

میرا اب بھی یہ ماننا ہے کہ پانامہ کا ہنگامہ تھمنے کے بعد اگلے انتخابات کارکردگی کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔ لوگ ووٹ سیاسی جماعت کو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی دیں گے۔ اس وقت تحریک انصاف کی کے پی کے میں حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے۔ اور مسلم لیگ (ن) کی مرکز پنجاب بلوچستان گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں حکومت ہے۔ لیکن اگر سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو بنیادی طور پر پنجاب سندھ اور کے پی کے کی حکومتوں کے درمیان عوامی خدمت اور کارکردگی کا موازنہ ضرور ہو گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ تینوں بڑے صوبوں میں تین مختلف بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے اور ان تینوں جماعتوں کو اگلے انتخابات میں اپنی صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کے حوالہ سے جوابدہ ہونا ہو گا۔

(جاری ہے)


اگر پانامہ کی بنیاد پر ووٹ نہیں ملیں گے تو پھر سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر ووٹ ملیں گے۔ اگر دھاندلی انتخابی ایشو نہیں پانامہ انتخابی ایشو نہیں ہے۔

تو پھر عوام کے نزدیک ووٹ دینے کا معیار کیا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ ووٹ کا معیاربراہ راست عوام کی خدمت ہے۔ ا س سے قبل پیپلزپارٹی نے اپنے دور اقتدار میں صوبائی خودمختاری سمیت اہم آئینی ترامیم کیں ۔ اور پیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ صوبائی خود مختاری اور آئین کی بحالی کے نام پر ووٹ مل جائیں گے۔ تا ہم عوام نے آئین کی بحالی کو سراہا لیکن اس کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیے۔

عوام نے لوڈ شیڈنگ کی بنیاد پر ووٹ دئے۔ لیکن اگلا انتخاب شاید لوڈ شیڈنگ پر نہیں ہو گا کیونکہ ایک انداذہ تو یہی ہے کہ اگر انتخابات مقررہ وقت پر ہوئے تو لوڈ شیڈنگ اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہے گا۔ تو پھر کیا اہم ہو گا۔ یقینا صحت تعلیم اور عوامی ترقیاتی کام ووٹ کی بنیاد ہو نگے۔ عوام یہ دیکھیں گے تینوں بڑے صوبوں میں تین مختلف سیاسی حکومتوں نے ان کے لئے کیا کیا ہے۔


اس ضمن میں صحت ایک اہم مسئلہ ہے۔ بلا شبہ جب شہباز شریف پنجاب میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے مکمل کر رہے تھے تو تحریک انصاف کا موقف تھا کہ ان کی ترجیح صحت ہے۔ یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی نے اس ضمن میں مقابلہ کی کبھی کوشش نہیں کی۔ تا ہم وہ چاہیں یا نہ چاہیں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اس مقابلہ کا حصہ ہے۔
صحت کے شعبہ میں جتنے مرضی فنڈز مہیا کر دیے جائیں ان کا تب تک کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب تک ہم ڈاکٹروں کو ٹھیک نہیں کریں گے۔

ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں کی وبا چند سال پہلے پنجاب سے شروع ہوئی ۔ افسوس کی بات تو یہی تھا کہ ینگ ڈاکٹرز کی اس ہڑتال کو سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کیا۔ لیکن سیاسی مفاد کے اس کھیل نے ینگ ڈاکٹرز کی تنظیم کو پریشرگروپ بنا دیا۔ جب سیاسی مفاد کی خاطر ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کو سیاسی چھتری دی گئی تو یہ جن بوتل سے باہر آگیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ چاروں صوبوں کو ینگ ڈاکٹرز کی ہٹرتالوں کا سامنا ہے۔ پشاور اور کے پی کے دیگرشہروں میں بھی ینگ ڈاکٹرز نے ہڑتال کر کے حکومت اور مریضوں کے ناک میں دم کیا۔ کراچی میں بھی ینگ ڈاکٹرز نے ہڑتال کی۔ اور پنجاب میں تو اب یہ رواج ہی بن گیا۔ گزشتہ چند ماہ میں کے پی کے میں ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال بہت شدت سے سامنے آئی ہے۔ کے پی کے کی حکومت نے ینگ ڈاکٹرز کے خلاف سختی بھی کی ہے ۔

لیکن پھر بھی یہ جن واپس بوتل میں بند نہیں ہوا ہے۔ پشاور میں ایک آپریشن میں غفلت پر جب ڈاکٹروں کے خلاف انضباطی کاروائی کی گئی ہے تو یہ ینگ ڈاکٹرز دوبارہ ہڑتال کی دھمکی دی رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کی تنظیمیں بلا شبہ ڈاکٹر ز کی فلاح کیلئے کام کریں لیکن ہڑتالوں سے ان کی بدنامی بھی ہو رہی ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ینگ ڈاکٹرز کی یہ خواہش ہے کہ وہ ہر وقت حکومت کو اپنے سامنے سرنگوں رکھیں۔

پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز نے اب حکومت سے سیکرٹری ہیلتھ نجم شاہ کی تبدیلی کا مطالبہ کر دیا ہے ۔اور مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں لاہورایک لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔یقینا ینگ ڈاکٹرز کو بخوبی انداذہ ہے کہ اس وقت حکومت کمزور پوزیشن میں ہے۔اس لئے احتجاج سود مند ثابت ہو سکتاہے۔
سوال یہ ہے کہ نجم شاہ کا قصور کیا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ساہیوال پلانٹ کے موقع پر لیڈی ڈاکٹرز کو استقبال کے لئے بلانے پر سیکرٹری ہیلتھ کو تبدیل کر دیا جائے۔

حالانکہ صورتحال یہ ہے کہ جب رات کو سیکر یٹر ی ہیلتھ کے علم میں آیا کہ لیڈی ڈاکٹرز کو ایسی تقریب میں آنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے اسے روک دیا ۔ اور اگلے دن لیڈی ڈاکٹرز اس تقریب میں نہیں گئیں۔ بیچارے نجم شاہ کو ایک ایسے جرم کی سزا کا مطالبہ کیا جا رہا جو اول تو سرزد ہی نہیں ہوا۔ دوسرا انہوں نے اسے ہونے سے روکا۔ویسے حکومت پنجاب اس اسسٹنٹ کمشنر کو بھی او ایس ڈی کر چکی ہے ۔

لیکن شاید اصل وجہ کچھ اور ہے ۔ کہیں ایسا تونہیں کہ ساہیوال میڈیکل کالج کے معاملا ت محرک بنے ہوں ۔
ینگ ڈاکٹرز کا موقف ہے کہ جب تک ہسپتالوں پر ایک بیڈ پر ایک مریض نہیں ہو تا۔ وہ احتجاج جاری رکھیں گے۔ اور وہ اسکی ذمہ داری بھی سیکرٹری ہیلتھ کو ہی دے رہے ہیں۔ ادھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ لاہور کے چلڈرن ہسپتا ل میں ساڑھے چھ سو بیڈ کا اضافہ ہو ہے ۔

جنرل ہسپتال لاہور میں PIMS کے منصوبہ نے کام بھی شروع کر دیا ہے۔ میو ہسپتال کے سرجیکل ٹاور کے تمام فنڈز جاری کردیے گئے ۔ کیا ریجنل بلڈ سنٹرز نہیں بنائے گئے۔ کیا ملتان اور فیصل آباد میں برن یونٹس نہیں بن گئے۔ کیا بہاولپور میں کارڈیک سنٹر مکمل نہیں ہوا۔ لیکن ینگ ڈاکٹرز کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ کہ جب تک یہ سب مکمل نہ ہو جائے وہ کام نہیں کر یں گے۔


میرے لئے یہ جاننا اہم تھا کہ اصل مسلئہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سنٹرل انڈکشن پالیسی نجم شاہ نے بنائی اور چٹوں پر داخلوں کا کلچر ختم کر دیا ہے۔ وہ پرائیوٹ میڈیکل کالج میں بھی میرٹ پر داخلوں پر بضد ہیں۔ شاید اسی لئے کچھ طاقت وار حلقے ان کوہٹانا چاہتے ہوں ۔بہر حال یہ سب باتیں اپنی جگہ رہیں ، ینگ ڈاکٹر ز کے جائز مطالبات پر بھی غور ہونا چاہئے ، حکومت اگر ایشو پیدا نہ کرے تو ہڑتال تک نوبت نہیں آتی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :