دوسروں کو برداشت کرنے کاہنر سیکھناہوگا

پیر 24 جولائی 2017

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

فیس بک ایک عام سی چیز بن چکی ہے جو اس وقت تقریباًہرشخص کی دسترس میں ہے(یقینا یہ تعلقات اورمعلومات بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہوسکتی ہے اگر اسے اس مقصد کیلئے استعمال کیاجائے )تاہم برائی یہ ہے کہ ہرشخص اب قاری بننے اور مشاہدہ ، مطالعہ کی بجائے خود کو بہت کچھ سمجھنے لگا ہے ۔شاید نجی ٹی وی چینلز کی بہتات اور پھر لفنٹرو قسم کے اینکرز نے یہ شعبہ بھی نیم حکیموں کے سپرد کردیا ہے۔

تجزیہ نگار عموماً اسے کہاجاتا ہے یاجہا ں تک معلومات ہیں کہ وہ جس موضوع پر بولنے جارہاہو اس کے حوالے سے اسے مکمل معلومات ہوں، وہ متعلقہ موضوع کاہرزاویہ سے نقطہ نظر بیان کرنے کی صلاحیت رکھتاہو۔مگر ہوتایوں ہے کہ ہرشخص نے اپنی آنکھ پر مرضی کی عینک اوراپنے اردگرد مخصوص خول چڑھارکھا ہے ، وہ نہیں چاہتا کہ اس کی آنکھ وہ مناظر دیکھے جسے وہ دیکھنا نہیں چاہتا۔

(جاری ہے)

دوسری جانب وہ صرف وہ چاہتاہے کہ اس کی آنکھ وہی کچھ دیکھے جو وہ دیکھنا چاہتاہے چاہے وہ جھوٹ پر مبنی ہو ، دوسری جانب ہم نے اپنے ارد گرد خول بنارکھے ہیں ہم اس میں بیٹھ کر الگ دنیا بسالیتے ہیں ہمیں آس پاس کی دنیا سے یایوں کہہ لیں کہ ہمیں مختلف النوع لوگوں اور آس پاس بسنے والوں کی خیرخبر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس جس سے ہمارے نظریا ت ،خیالات ملتے جلتے ہیں وہی قریب ہوتاہے اورجس سے نظریاتی اختلافات ہووہ دور ہوتا ہے بلکہ اسے دشمن تک سمجھ لیا جاتا ہے
ہوتا یوں ہے کہ ہم جس خول میں رہتے ہیں وہ خول ذرا وسیع تو ہوجاتاہے لیکن ایک ہی جیسے اندھے یا دل کے اندھوں کے اجتماع کے سوا اسے کچھ نہیں کہاجاسکتا۔

پھر․․․ان ایک جیسے نظریات والوں کے درمیان کہیں نہ کہیں مذہبی ،سیاسی یاکسی بھی حوالے سے اختلاف پایاجاتا ہے ، وہ اگراختلاف معمولی سا بھی ہوتو بڑھتے بڑھتے نئی خلیج کو جنم دیتا ہے اور اسی دوران ہمارے خول کے بہت سے لوگ ہم سے جدا ہو جاتے ہیں۔ آگے بڑھئے باقی رہ جانیوالوں کے درمیان پھر کسی اور نظرئیے پر اختلاف ہوجاتا ہے اور ان میں بہت سے لوگ جداہوجاتے ہیں۔

گویا تقسیم درتقسیم کایہ عمل جاری رہتاہے ۔حالانکہ اس عمل سے بچنے کیلئے ایک چھوٹا سانسخہ یہ بھی ہوسکتاہے کہ جن لوگوں سے سیاسی حوالے سے اختلاف ہو انہیں کہاجاسکتا ہے کہ آپ ہم سے اس موضوع پربات نہیں کریں گے باقی موضوعات کیلئے جی بسم اللہ۔ جس سے مذہبی نظریات کے معاملے پر اختلاف پایاجاتاہے اسے روک دیں کہ براہ کرم ہم سے مذہبی تنازعات کے ضمن میں بات نہ کریں۔

پھر ہوگا یوں کہ ہم میں سے ہرشخص موقع محل کے مطابق گفتگو کی صلاحیت حاصل کرلے گا پھر ایک اگلا سبق یوں ہو سکتاہے،ہم اپنے اندر اس جذبے کو پختہ کرتے جائیں بلکہ اس رائے پرمسلسل ضرور دیتے ہیں کہ ہم ”عقل کل “ نہیں، نہ ہمارا کہاہوا بالکل سچ ہوسکتا ہے“ پھر خود سے طے کرلیں کہ ” فلاں شخص کو نظریاتی طورپر کم تر سمجھتے ہوئے اسے ٹیس نہیں کرنا نہ اس کے سامنے اس معاملہ میں کوئی ایسی بات کرنا ہے جو اسے بری لگی“ یہ دوسرا درجہ ہے، ہوگا یوں کہ آپ کے ایک قدم آگے بڑھنے سے دوسری طرف والا دو قدم آگے بڑھ آئے گا۔

پھرہوتے ہوتے مختلف نظریات کے لوگ آپ کے دائرہ کار میں شامل ہوتے جائیں گے یہ وہ لوگ ہونگے جو آپ کو اپنے خول تک محدود نہیں ہونے دیں گے۔
چند دن قبل فیس بک پر ایک نہایت ہی سادہ سی ،ہلکی پھلکی مگر چھوٹی تحریر(سٹیٹس) اپ ڈیٹ کیا تو ایک صاحب جن کانام بھی شایدہمارے لئے کچھ نیانیا تھاان صاحب کو ہماری اس چھوٹی سی تحریر سے اختلاف تھا انہوں نے اختلاف کو شاید دشمنی تصور کرتے ہوئے عجیب سے کمنٹس کرنے کے بعد ان باکس میں ایسے ایسے جملے پھینکے کہ الامان والحفیظ۔

ہم بوجوہ اس کوجواب نہیں دے پائے تو شاید موصوف نے سمجھ لیاکہ ہمارے پاس اس کی باتوں کاجواب نہیں۔ پھر ہوا یوں کہ ایک دن بازار سے گزرتے ہوئے ایک جانے پہچانے چہرے سے ملاقات ہوگئی۔ چونکہ نام نہیں جانتے تھے البتہ شکل سے ایسے لگتا تھا کہ موصوف دیکھے بھالے ہوئے ہیں۔ خیر پکڑکر قریبی دکان میں لے گئے۔ چائے پینے پلانے کے دوران بولے ”ثقلین بھائی میں وہی ہوں جس نے آپ کی پوسٹ پرفلاں کمنٹس کئے اورپھر بعد میں آپکو ان باکس میں بہت کچھ لکھا لیکن آپ نے جواب نہیں دیا “ ابھی ہم اس کی بات کاجواب دینے ہی والے تھے کہ وہ شخص خود ہی بول اٹھا” میں شرمندہ ہوں، غلط یا صحیح آپ کی رائے ہے اورمجھے اس انداز میں اتنی شدت کے ساتھ اس پراپنی رائے مسلط نہیں کرنی چاہئے تھی ، میں سو چ رہا تھا کہ مجھ سے اختلاف کرنے والے بھی اگر مجھ سے اسی انداز میں بات کریں یا رائے دیں جس طرح میں نے دی ہے تو پھرمعاشرہ مسلسل بگاڑ کی طرف ہی جائے گا“اس ظاہراً سادہ سے نظرآنیوالے شخص کی بات نے آنکھیں کھول دیں۔

سوچ رہے تھے کہ واقعی ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں دوسروں کے دل دکھنے کاخوف رہتاہے اوریہ بھی جانتے ہیں کہ جس قسم کا سلوک وہ دوسروں سے کریں گے تو کوئی اوربھی ان سے ویسا ہی سلوک کرسکتاہے۔
صاحبو! اسی مخصوص عینک اورخول کا ہی نتیجہ ہے کہ آج پاکستان عجب طرز کے ماحول کاشکار ہوتاجارہاہے۔ صرف سیاست کے میدان کو ہی دیکھ لیں اس وقت پورا ملک دو مختلف دھڑو ں یاگروہوں میں بٹاہوا ہے، سارے اورپورے کے پورے صحیح اورغلط دونوں میں نہیں ،جس کی وجہ سے ہی بے شمار معاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں اور آج اگر آپ اپنے ہاں کے سیاسی کلچر کاجائزہ لیں تو محض ایک ہی وجہ سے اب دلوں میں نفرتوں کے الاؤ مسلسل بھڑکتے نظرآتے ہیں، سیاست اب دشمنی کا روپ دھارنے لگی ہے۔

ایسا ہی ماضی میں مذہبی حوالے سے بھی رہانتیجہ آج تک بھگت رہے ہیں ،ہم نے مذہبی نظریات کے بعد اب سیاسی نظریات کو بھی دشمنی کی اس انتہا تک پہنچادیا ہے کہ اس کے بعد نیچے دیکھنے والا اپنے ہی ہاتھوں مارا جاتا ہے لیکن باعث افسوس فعل یہ ہے کہ اس جانب توجہ دینے اوردلانے والا کوئی نہیں، ہرشعبہ کے نیم حکیم (خاص طورپر میڈیائی مخلوق) اس معاملے میں نمایاں دکھائے دیتے ہیں اور پھر ”اسی عطا ر کے لونڈے سے دوا لینے پر مجبورہوتے ہیں جس کے سبب وہ بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :