پانی اور ہم !

پیر 24 جولائی 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

کچھ دن قبل قومی اخبارات میں ایک خبر چھپی تھی جس میں انکشاف کیا گیاتھا کہ کراچی میں پینے کی پانی میں انسانی فضلہ جات کا انکشاف ہوا ہے۔ اگر آپ نے بھی یہ خبر پڑھی ہے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس وقت آپ کے کیا احساسات تھے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پانی جیسے بنیادی مسئلے کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ۔ پاکستان دنیا کے ان سترہ ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قِلت کا شکار ہیں۔

پاکستان میں زیر زمین سطح پر صاف پانی کی شرح 50 ملین ایکڑ فٹ ہے جس کا75 فیصدپنجاب جبکہ صرف28 فیصد حصہ سندھ میں استعمال ہوتا ہے۔قیام پاکستان کے وقت ہر شہری کے لیے پانچ ہزارچھ سوکیوبک میٹر پانی موجود تھا جو اب کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور 2025 تک آٹھ سو کیوبک میٹر رہ جائیگا۔بھارت پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اب تک 114سے زائد ڈیم بناچکا ہے جبکہ پاکستان میں صرف 2 بڑے تربیلا اور منگلا ڈیم بنے ہیں جوکہ مٹی اور ریت سے بھرچکے ہیں اور گنجائش سے کم مقدار میں پانی ذخیرہ کررہے ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان میں 1976 کے بعد سے تاحال پانی کا کوئی اہم ذخیرہ تعمیر نہیں ہوا۔کچھ عرصہ قبل پاکستان کے مختلف علاقوں سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ 62 سے 82 فیصد پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔صوبہ پنجاب میں اٹک کے مقام پر 85 فیصد،بہاولپور50، فیصل آباد45، گوجرانوالہ 68 ، گجرات اور قصور میں 78 فیصد ، لاہور میں 24فیصد، ملتان میں 48 فیصد، راولپنڈی میں 73 ،سرگودھا 77 ،شیخوپورہ 44 اور سیالکوٹ کے پانی میں 45 فیصد آلودگی پائی جاتی ہے جبکہ لاہور،ملتان، سرگودھا ، قصور اور بہاولپور کے پانی میں سینکھیا کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

انسانی جسم میں زیادہ بیماریاں مضرِ صحت پانی سے پیدا ہو تی ہیں۔ بیکٹیریا سے آلودہ پانی ہیپاٹائٹس، خسرے اور ہیضہ جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے جبکہ پانی میں آرسینک کی زیادہ مقدار ذیابیطس، سرطان، پیدائشی نقص، گردوں اور دل کی بیماریوں کا موجب بنتا ہے۔ ہمارے شہروں میں کیمیائی مادوں کی پانی میں ملاوٹ کے باعث لوگ یرقان،جلد اور سانس کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

اسکے علاوہ آلودہ پانی گیسٹرو، ٹائیفائیڈ، انتڑیوں کی تکالیف، دست، قے ، خون آنا اور آنکھوں سمیت بالوں کی مختلف بیماریاں کا بھی باعث بنتا ہے۔پینے کے پانی میں دھاتوں کی آمیزش بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں ہر سال تقریباََ دو لاکھ تیس ہزار بچے مضرِ صحت پانی کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

ملک کے مختلف علاقوں میں مضر صحت پانی کے استعمال سے ڈائریا کے سالانہ دس کروڑ کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ہسپتالوں میں چالیس فیصد اموات آلودہ پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
عالمی سطح پر پانی کی صورتحال کچھ اس طرح ہے کہ شمالی اور وسطی امریکہ دنیا کی کل آبادی کا 8فیصدہیں لیکن اس کے پاس کل دنیا کے 15فیصد پانی کے ذخائر ہیں۔

جنوبی امریکہ دنیا کی کل آبادی کا 6فیصدہے لیکن اس کے پاس 26فیصد پانی کے ذخائر ہیں۔یورپ کی کل آبادی کا 13فیصدہے لیکن اس کے پاس8فیصد پانی کے ذخائر ہیں۔ آسٹر یلیا کی کل آبادی دنیا کا 1فیصدہے لیکن اس کے پاس 5فیصد پانی کے ذخائر ہیں۔افریقہ کی کل آبادی دنیا کا 13فیصدہے لیکن اس کے پاس 11فیصد پانی کے ذخائر ہیں۔ ایشیاء کی کل آبادی دنیا کا 60فیصدہے لیکن اس کے پاس 36فیصد پانی کے ذخائر ہیں۔

ہر سال کرہ ارض پر 0.11ٹریلین لیٹر بارش ہوتی ہے جس کا 92فیصد مختلف وجوہ کی بناء پر ضائع ہوجاتا ہے۔ اس وقت فی کس پانی کی دستیابی کی شرح6000کیوبک میٹر سالانہ ہے۔ انسانی، زرعی ، صنعتی اور ماحولیاتی ضرورت کے لئے 1000کیوبک میٹر سالانہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ میں پانی کا سالانہ استعمال 3000کیوبک میٹرہے۔ شام اردن میں 500اور یمن میں 200کیوبک میٹر سالانہ پانی دستیاب ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں پانی کے فی کس استعمال کی شرح زیادہ ہے لیکن پانی کے بہترانتظام کی تکنیکوں اور عمل کی بدولت وہ اپنی آبادی کی مستقبل کی ضروریات پورا کرنے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔1927میں انسانی آبادی صرف2ارب تھی جو 2011میں بڑھ کر 7ارب ہو گئی ہے 2050میں یہی آبادی9.3ارب ہو جائے گی۔ جس کے لئے پینے،زراعت ، ،توانائی ،خوراک صنعت کے لئے صاف پانی کے مزیدذخیروں کی ضرورت ہو گی۔

2050تک آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خوراک کی پیداوار میں70فیصد، تونائی کی پیداوار میں2035تک 36فیصد اور عالمی واٹر ریسورسز گروپ کے اندازوں کے مطابق تازہ پانی کے ذخائر میں نمایاں اضافہ کرنا ناگزیر ہے۔اندیشہ ہے کہ2025تک 3ارب لوگ پانی کی کمی کا شکار ہوں گے۔ جس میں ایشیاء اور افریقہ کے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔دنیا کے مختلف ممالک میں پانی استعمال کرنے کی شرح مختلف ہے۔

روزانہ گھریلو، صنعتی اور زراعت کے لئے امریکہ میں فی کس استعمال 1313لیٹر، چین میں 1521لیٹر اور بھارت میں1166لیٹر ہے۔2040میں یہ شرح امریکہ میں1167لیٹر، چین میں 2192لیٹراور بھارت میں2463لیٹر ہو جائے گی۔یوں اس وقت چین امریکہ سے16فیصد زیادہ پانی استعمال کر رہا ہے جبکہ 2040میں یہ شرح 88 فیصد ہو جائے گی۔ بھارت امریکہ کے مقابلے میں فی الوقت42فیصد جبکہ 2040میں111فیصد زیادہ پانی استعمال کرے گا۔

جنوبی ایشیاء کے نو ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، بھارت، ایران، نیپال، پاکستان، سری لنکا اور مالدیپ میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رہتی ہے۔ دنیا کے انتہائی غریب افراد کا 50فیصد یہاں رہتے ہیں۔ جن کی یومیہ آمدن ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔اگرچہ جنوبی ایشیاء میں کل زمین کے ایک تہائی قابل استعمال پانی کے ذخائر ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کو کل کرہ ارض کے 43,659ارب مکعب میٹرسالانہ قابل استعمال پانی کا صرف 4.2فیصد یعنی 1945ارب مکعب میٹرپانی دستیاب ہے۔

جنوبی ایشیاء میں میٹھے پانی کے ذخائر کی صورت حال خاصی تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں گنگا،برہمن پتراء ،میگنا، سندھ اور ہیلمند طاس بڑے دریائی سلسلے اور تازہ پانی کی فراہمی کے ذرائع ہیں۔ بھارت دنیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ہے لیکن اس کے پاس دنیا کا صرف پچیسواں حصہ پانی ہے۔ بھارت اس وقت 829ارب کیوبک میٹر پانی استعمال کر رہا ہے۔

2050میں اس کی ضرورت 1.4ٹریلین کیوبک میٹرہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ 2025تک اس کی شہری آبادی 30فیصد سے بڑھ کر50فیصد ہو جائے گی جوپانی کی دستیابی کے موجودہ بحران کو سنگین تر بنا دے گی۔ دریاوٴں اور جھیلوں کا پانی آلودہ اور زیر زمین پانی ختم ہو جائے گا۔یہی حال پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کا ہے ۔ مستقبل میں پانی کے حوالے سے یہ مسائل مزید بڑھ جائیں گے اور حکومتوں میں اتنا دم خم نہیں ہو گا کہ وہ پانی کے مسائل حل کر سکیں اور اس سے ایک نئے انسانی المیے کا آغاز ہو گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :