یہ علامتیں ہیں ثبوت نہیں

بدھ 12 جولائی 2017

Molana Shafi Chitrali

مولانا شفیع چترالی

پاناما کیس کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ نے ملکی تاریخ کے اس اہم مقدمے سے متعلق صورت حال واضح کرنے کی بجائے مزید کنفیوژن پیدا کردی ہے۔ ایک فریق اسے وزیراعظم کے خلاف” فیصلہ “قرار دے کر ان کے استعفے پر بضد ہے جبکہ دوسرا فریق اسی” ردی“ قرار دے کر مسترد کرتا ہے۔حالانکہ حقیقت ان دونوں انتہاؤں کے درمیان میں کہیں کھڑی ہے۔اس میں شک نہیں ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے مالی معاملات بالکل صاف اور شفاف نہیں ہیں جیسا کہ ان کا دعوی رہا ہے۔

وزیرا عظم اور ان کے بچوں کے سابقہ بیانات، اثاثوں کی تفصیلات اور جے آئی ٹی کے سامنے بیان کردہ حقائق میں ایسے تضادات کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی تردید کرنا اب شاید ان کے لیے آسان نہ ہو۔

(جاری ہے)

تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رپورٹ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی کسی متعین بدعنوانی کی نشاندہی کرنے میں بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔
سیاسی نوعیت کے اس مقدمے کی جے آئی ٹی رپورٹ کا خلاصہ دو باتیں ہیں۔


1۔وزیر اعظم اوران کے خاندان کے طرز زندگی اور ذرائع آمدن میں تفاوت پایا گیا ہے۔
2۔ ان کے مالی معاملات میں بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔
اب یہ دونوں باتیں بدعنوانی کی ممکنہ علامت تو ہوسکتی ہیں ثبوت نہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر بے قاعدگی بدعنوانی ہی ہو۔ جیساکہ الیکشن کمیشن میں عمران خان اور ان کی جماعت کی بے قاعدگیوں کے ثبوت سامنے آچکے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ ان میں کہیں بد عنوانی نہیں ہے۔

اسی طرح کسی کی شخصی یا خاندانی وجاہت اس کے طرز زندگی پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ خود جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کے خلاف براہ راست کارروائی کی بجائے نیب میں ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ علامات اور شواہد کی بنیاد پر کسی متعین بدعنوانی کو ثابت کرنا ابھی باقی ہے۔
پھر یہ سارے معاملات وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے ذاتی اور خاندانی کاروبار سے متعلق ہیں۔

ان کا قومی سیاست سے تعلق اس سوال سے جڑا ہوا ہے کہ کیا شریف خاندان نے سرکاری عہدوں پر رہتے ہوئے اپنے کاروبار میں قومی خزانے کی رقم بھی لگائی ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کہیں سے کوئی ایسے ناقابل تردید شواہد ڈھونڈکر لائے جائیں کہ میاں نواز شریف نے بحیثت وزیراعظم پاکستان یا وزیراعلیٰ پنجاب کسی بھی دور میں کسی منصوبے میں خود یا اپنے کسی فرنٹ مین کے ذریعے کمیشن، کک بیک، شئیرعلیا ہے،خورد برد کی ہے یا کسی اور طریقے سے دانستہ قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے۔

اب تک کی تحقیقات اور جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ایسے کسی معاملے کی نشاندہی نہیں کی گئی۔اس لیے جے آئی ٹی رپورٹ کو وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ قرار دینا مشکل ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اورکوئی بھی محب وطن پاکستانی کرپشن میں ملوث کسی سیاست دان کی حمایت نہیں کرسکتا لیکن پہلے یہ ثابت کیا جانا ضروری ہے کہ اس نے کیا کرپشن کی ہے؟ اسی طرح پاکستان میں اداروں کی کشمکش کی طویل اور تلخ تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا اطمینان کیا جانا بھی ضروری ہے کہ کسی سیاست دان کے خلاف جو بھی کارروائی ہورہی ہے،واقعی احتساب اور انصاف کے حصول کے لیے ہورہی ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور اہداف اور مقاصد ہیں؟ جے آئی ٹی کی تفتیش کے مختلف مراحل میں واٹس اپ کال ، تصویر لیک اور اس طرح کے دیگر جو رویے دیکھنے کو ملے،کیا وہ اس کارروائی کی شفافیت پر دلالت کرتے ہیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر تشکیل پانے والی مشترکہ تفتیشی ٹیم اپنی غیر جانب داری کا تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور یقینا اس کے اثرات اس رپورٹ کی روشنی میں کیے جانے والے ممکنہ عدالتی فیصلے پر بھی پڑیں گے۔


پاناما لیکس میں 450 سے زائد افراد کے نام آئے تھے،کیا وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے علاوہ کسی اور کے خلاف بھی تحقیقات ہورہی ہیں یا ہوں گی اورلوٹی گئی قومی دولت واپس لائی جائے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے اور یہ سوال پاناما کیس کے اولین مدعی جناب سراج الحق صاحب کی زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔یہاں ایک سوال اور بھی ہے۔ کیا نواز شریف کی دو ارب روپے کی مبینہ کرپشن پر حد درجے حساسیت اور حب الوطنی کا مظاپرہ کرنے والے ہمارے” حساس“ ادارے اور سیاسی جماعتیں او بی آئی اسکینڈل میں چالیس ارب روپے کے گھپلے اور جنرل مشرف کو مبینہ طور پر ایک عرب ملک سے "تحفے" میں ملنے والے چالیس ارب روپوں کی تحقیقات میں بھی کوئی دل چسپی دکھائیں گے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :