ایک میچ․․․․․ایک قوم

اتوار 25 جون 2017

Mubeen Rasheed

مبین رشید

صبح 4 بج کر 15 منٹ پر اس کے گھر پر دستک ہوتی ہے۔گھر کے اندر سے بزرگ عورت باہر نکلتی ہے اور سوچتی ہے کہ اتنی صبح انہیں ملنے کون آسکتا ہے۔ حیرت مزید اپنی انتہا کو چھوگئی جب اسے ایک فالج زدہ معذور بچہ وہیل چیئر پر نظرآتا ہے۔بغوردیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ بچہ اکیلا نہیں بلکہ اس کے ماں باپ بھی ہمراہ ہیں۔ وہ بچپن ہی میں فالج کا شکار ہوگیا تھا۔

دو روز قبل اسے ایسی عجیب وغریب خوشی ملی تھی کہ وہ مسلسل دو راتوں سے سو نہیں سکا تھا، اس نے اپنے ماں باپ سے ضد لگائی ہوئی تھی کہ میں نے اس ہیرو سے ملنا ہے ۔ماں باپ نے اسے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ تو بہت بڑا سٹار بن گیا ہے، اب تو ہزاروں کا مجمع اس کے استقبال کے لئے آرہا ہے ،ہم بھلاتمہیں اس سے کیسے ملوائیں لیکن بچہ ٹس سے مس نہیں ہورہاتھا کہ وہ مجھ سے ضرور ملے گا چاہے یہ اس کی آخری خواہش سمجھ لی جائے ۔

(جاری ہے)


ہیرو کی ماں نے دروازے کی چوکھٹ سے والدین کی آنکھوں میں موجود التجا کو فوراََ بھانپ لیا اور بغیر کسی توقف کے اندر گئی اور اپنے لخت جگر کے کان میں جا کر کہا،حافظ جی !اٹھو،با ہر ایک بچہ تم سے ملنے آیا ہے۔حافظ جی نے بغیر کسی حیل وحجت کے ماں کے حکم پر بستر سے چھلانگ لگائی اور آنکھیں ملتے ہوئے بالکونی سے نیچے جھانکا ، اس معصوم بچے کے ہاتھوں کی جنبش میں تیزی آئی اور اس نے اپنے پورے جسم کا زور لگاتے ہوئے اپنے ہیرو کاہاتھ ہلا کرجواب دینے کی کوشش کی۔

حافظ جی نے فوراََ دروازے کی طرف دوڑ لگائی اور اس بچے کو گلے لگالیا اپنے نام کی 57 نمبر گرین شرٹ اس کے سینے کے ساتھ لگائی اور کہا میرے لیے دعا کرنا۔ بچہ اور اس کے والدین اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور فورا ان کی آنکھوں سے آنسو جھلک اٹھے کہ اتنا بڑا سٹار جس نے محض دو روز قبل 20 کروڑ لوگوں کی آنکھوں کی چمک تبدیل کردی اس قدر ملنسار اور سادہ مزاج ہوسکتا ہے کہ رات کے تیسرے پہر میں ایک انجانے فین کی خواہش پر اسے گلے ملنے آجاتا ہے ۔


جی ہاں یہ وہی مشہور حافظ جی ہیں جنہیں بین الاقوامی دنیا سرفرازاحمد کے نام سے جانتی ہے۔جو اپنے لاکھوں فینز کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بھی اپنا تعارف لکھتا ہے”حافظ قرآن اور کرکٹر“۔اس کے لیے حافظ قرآن ہونا کرکٹر ہونے سے کہیں اہم ہے۔وہ دنیا کا بہترین وکٹ کیپر،مضبوط اعصاب کا مالک بلے باز اور اب ایک مقبول ترین کپتان بن کر سامنے آیا۔

آئی سی سی چیمپینز ٹرافی میں آٹھویں نمبر کی ٹیم سے کوئی سیمی فائنل میں کوالیفائی کرنے کی بھی امید نہیں کر رہاتھاکجا یہ کہ اپنے سے سات گنا بڑے یعنی ایک ارب 20 کروڑ سے زائد آبادی کے جیالے کرکٹ جنونیوں کی ٹیم کو فائنل میں شرمناک شکست سے دوچار کریں گے۔دنیائے کرکٹ کے اولین ترین سٹیڈیم اوول کے ایک ایسے گراؤنڈ میں جہاں 80 فیصد تماشائی انڈین تھے اور کمنٹیرز سے لے کر امپائرز تک بھارتی میڈیا سے مرعوب نظر آتے تھے وہاں کوئی چھٹی یا ساتویں حس ہی کام دکھا رہی تھی یا شائد کوئی تیسری طاقت کھیل رہی تھی۔

وگرنہ بھارت کاٹاس ہار کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دینا، پاکستان کی بیٹنگ لائن میں فخر زمان کا نو بال پر آؤٹ ہونا ، پھر حیران کن مسلسل تیسری ففٹی اور اسے سنچری میں تبدیل کرنا،اظہر علی اور محمد حفیظ جیسے ٹھنڈے کھلاڑیوں کا تیز ترین رن ریٹ کو برقرار رکھنا اور ایک نسبتاََ مشکل وکٹ پر فائنل جیسی پریشر گیم میں ناتجربہ کار بیٹنگ لائن کا338 رنز کا پہاڑ جیسا ٹوٹل کرنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔


کھیل ابھی یہیں ختم نہیں ہوتا کیونکہ بھارت جیسی تباہ کن بیٹنگ لائن کے لیے 300 سے 325 رنز کے ٹارگٹ کو حاصل کرنا معمول بن چکا ہے لیکن محمد عامر کی تباہ کن بولنگ اور بھارت کے سورما کپتان اور تہلکہ خیز بلے باز ویرات کوہلی کا دو مسلسل گیندوں پر آؤٹ ہونا یقینا حیرت انگیز تھا۔شاداب جیسے ننھے نوجوان کو پورا یقین ہونا کہ یہ متعصب امپائر یوراج سنگھ جیسے شعلہ انگیز بلے باز کو اس نوآموز سپینر کی گیند پر کیسے آؤٹ قرار دے سکتا ہے ،یقینا عجیب وغریب تھا۔

آپ میچ کے بعد کی تقریب کو بھی دیکھیں تو سرفراز معصوم بچوں کی طرح ٹرافی وصول کررہا ہے اور ٹیم کے بقیہ کھلاڑی سکول اور کالج کے بچوں کی طرح اس پر لپک پڑے۔اس سادہ انداز میں اپنی سیلفیاں کھینچوا رہے ہیں یعنی انہیں خود یقین نہیں کہ وہ کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے چکے ہیں۔
انسانوں کا ہجوم کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد سرفراز کو ائیرپورٹ سے گھر تک پہنچا کر آتا ہے اور رات گئے تک بالکونی سے اس کے ہاتھ کے اشاروں سے” موقع موقع“ گاتے رہتے ہیں۔

انہیں یقین ہے کہ قوموں کی زندگی میں ایسے خوشی کے مواقع بہت کم آتے ہیں جب دنیا بھرمیں موجود 20 کروڑ پاکستانی خوشی سے پھولے نہ سمائیں۔ فخرزمان کامردان واپس جا کر اسی نہرمیں دوستوں کے ساتھ چھلانگ لگا کر سیلفی بنوانااس قوم کی سادگی اورمعصومیت کی دلیل ہے۔ فادرزڈے پر رشی کپور اور وریندر سہواگ کاباپ باپ کی رٹ لگا کرمیچ کو مزید ہوادینابھی ان کو مہنگا پڑگیا۔

انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس وقت بھارت پاکستان سے سات گنا بڑاملک ہو سکتا ہے لیکن پھر بات مغلیہ سلطنت سے شروع ہو گی جنہوں نے 300سال ان پرانتہائی جاہ وجلال کے ساتھ حکومت کی۔بھارتی مبصرین کی پاکستان کے ساتھ انتہائی دشمنی اس تاثرکو تقویت دیتا ہے کہ بھارت نے سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کو انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رکھا۔ آٹھ سال بعدآئی سی سی کاپاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا اعلان اور اسی سال لاہورمیں ورلڈ الیون کیساتھ میچز کا اعلان کرنا کسی کامیابی سے کم نہیں۔


1992ء میں ورلڈ کپ فتح کرنے کی ایسی خوشی تھی یا پھر 2017ء میں اس چیمپئنز ٹرافی کی وہ مسرت ،جس نے ہر دل کو باغ باغ کر دیا۔پاکستانیوں نے بھارت سمیت دنیا کے تمام ممالک کو ایک واضح پیغام دیا کہ ہمیں آسان مت لو ہم کرنے کو آئیں تو ایٹم بم بنالیں اور ہارنے پر آئیں تو ایک امریکی ڈرون طیارہ بھی مار نہ گرائیں۔جیتنے پر آئیں تو 30مرتبہ سکوائش کے عالمی چیمپئن رہیں اور ہارنے پر آئیں تو اب عالمی سکوائش مقابلوں میں پاکستان کانام ونشان بھی نہ ملے۔

جیتنے پر آئیں تو 4 مرتبہ ہاکی ورلڈ کپ3 مرتبہ چیمپئنز ٹرافی اور 3 مرتبہ اولمپک کپ لے اڑیں اور ہارنے پر آئیں تو اولمپک کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں مقابلے سے باہرہوجائیں۔ جیتنے پر آئیں تو محمد یوسف کو سنوکر کا عالمی چیمپئن بنوادیں اور شرمندگی پر آئیں تو سنوکر کلب صرف گلی محلے میں جوئے کے اڈوں تک محدود کریں۔
البتہ اس ورلڈ کپ کے ایک فائنل میچ میں بھارت سے شاندار فتح نے دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں کو خوشی ومسرت کی حیرت میں ڈبو دیا ہے اور جس طرح وہ تمام دوسرے ممالک کے لوگوں سے لندن،نیویارک، برسلز،پیرس،سڈنی،جدہ اور دبئی میں مبارکبادیں وصول کررہے ہیں اس نے لاکھوں پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیاہے۔

ایک جیتا ہوا میچ ایک ہاری ہوئی قوم کو فتح کے خمارسے شرسار کرسکتا ہے۔18جون 2017ء کو محض ایک دن کے چندگھنٹوں میں ملنے والی دلی تسکین نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :