وزیر اعظم جھوٹ بول رہے ہیں

پیر 26 جون 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

جے آئی ٹی کا کھیل اپنے عروج پر ہے۔ابتداء میں جسے ایک روایتی انکوائری تصور کیا جا رہا تھا اب اسکے ہاتھوں میں نظام کی لگام آگئی ہے۔ بساط کے سارے مہرے ایک ہی چال چل رہے ہیں۔ شاہ کو شکست دینا مقصد بن گیا ہے۔ اس کھیل میں گھوڑے، پیادے اور وزیر سب شامل ہو گئے ہیں ۔جے آئی ٹی کی غیر جانبداری روز بہ روزمشکوک ہوتی جا رہی ہے۔ وٹس ایپ کال سے جس بد گمانی کا آغاز ہوا اب اس کے مزید جانبدارانہ پہلو سامنے آ رہے ہیں۔

خفیہ طاقتیں پھر میدان میں اتر گئی ہیں۔نا معلوم افراد پھر سر گرم عمل ہو گئے ہیں۔میڈیا کے طبلچی اپنا اپنا ڈھول پیٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ بہت سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔کچھ اس جے آئی ٹی کوجمہوریت کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں اور کچھ اس کے توسط سے سچ کا بول بالا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ابھی تک جو کچھ ہوا ہے اس کو ایک نظر دیکھ کر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔


اس جے آئی ٹی کی ساکھ کو پہلی زک اس وقت پہنچی جب وٹس ایپ کال والی خبر منظر عام پر آئی۔ یہ بات درست ہے کہ ممبران کا انتخاب بنچ کا استحقاق ہے۔ اس کے لئے ایک عدالتی خط سے بھی کام لیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کاروائی سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیئے خفیہ ہتھکنڈے اختیار کیئے گئے۔جس نے معاملے کو ابتدا سے ہی مشکوک کر دیا۔
ان ممبران کے انتخاب کے لئے وہ کون ہے جو مثبت اور منفی رپورٹیں دے رہا ہے؟سلیکشن کا معیار کیا ہے؟انتخاب کون کر رہاے اور منتخب لوگوں سے کیا کام لیا جا رہا ہے ؟ اس بارے میں بہت سے سوال اٹھے مگر کوئی بھی جواب دینے سے قاصر ہے۔

یہ سوال بھی اٹھا کہ صرف ایسے لوگوں کا انتخاب کیوں کیا گیا جو پہلے ہی انہی معاملات کی انکوائریوں میں اپنی جانبدارنہ رائے دے چکے ہیں۔ سیکیورٹی اینڈ ایکس چینج کے ممبر کی جانبداری انکی اینٹی نواز سوچ سے عیاں ہے، مزید براں انکی اہلیہ پی ٹی آئی کی سرگرم کارکن ہیں اور فیس بک پر اپنے زریں خیالات کا ظہار بھی کر چکی ہیں۔ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہ جس لہجے میں جے آئی ٹی کے ممبران گواہان سے گفتگو کر رہے ہیں وہ اس جے آئی ٹی کا دائرہ کار نہیں ۔

جے آئی ٹی کے ممبران کے پاس صرف ثبوت جمع کرنے کا اختیار ہے لیکن لہجہ مجرمان کی تفتیش کا اختیار کیا جا رہا ہے۔ کسی کی تضحیک کرنے کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے لیکن اکثر گواہان کے ساتھ یہی ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ کسی کو ڈرایا دھمکایا گیا کسی کو خوفزدہ کر کے کروعدہ معاف گواہ بننے کی پیش کش کی گئی۔اس پر بھی بات ہوئی کہ جے آئی ٹی کو کیسے پتہ چلا کہ گواہان کی بریفنگ کی جا رہی ہے۔

ان کو وزیر اعظم ہاوس بلا کر سبق پڑھائے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے فون ٹیپ کیئے جا رہے ہیں اور انکی نقل حرکت پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ جے آئی ٹی کے پاس یہ ذرائع نہیں تو پھر کون ہے جو انکے لیئے یہ غیر قانونی خدمات سر انجام دے رہا ہے؟ ایک اور دلچسپ امر یہ ہے کہ جے آئی ٹی کا دھیان پاناما کیس کے ثبوت پر رہنا چاہیے تھا مگر انکا دھیان میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ رہا ہے۔

کون انکے لئے یہ مانٹیرنگ کر رہا ہے۔ ہر کالم ، ہر خبر ، ہر پروگرام اور ہر ٹوئیٹ پر نظر رکھ رہا ہے؟ اس کا جواب بھی ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔دی نیوز کے انویسٹی یگیٹو سیل کی بروزاتوار چھپنے والی خبر نے معاملے کی اصلیت کھول دی ہے۔ جے آئی ٹی کی جانب سے جو شکایات میڈیا کے حوالے سے سامنے آئیں ان کے مطابق ویسے تو درجنوں صحافیوں کے ایک ایک عمل کی نگرانی کی گئی لیکن شکایات کے پلندے میں (مختلف چینلز کے انتیس ٹاک شوز کی مانیٹرنگ کے بعد )بائیس صحافیوں، چارسیاستدانوں اور تین قانونی ماہرین کے ایسے تبصروں کا بھی ذکر ہے وہ جی آئی ٹی کے قیام سے بہت پہلے کا ہے۔

سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ان افسران کو جے آئی ٹی میں اپنی شمولیت کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے جے آئی ٹی کے باقاعدہ تشکیل سے پہلے ہی اپنا کام شروع کر دیااور اس کام میں اتنے بڑے پیمانے پر میڈیا مانیٹرنگ بھی شامل ہے۔ اس انکشاف کے بعد اس ملک کے عوام کا حق کا بنتا ہے کہ انہیں بتایا جائے کہ جے آئی ٹی کا شو کون چلا رہا ہے؟
حسین نواز کی تصویر کس نے لیک کی؟ یہ تصویر کس نے کھینچی ؟ کس کے ذریعے عمارت سے باہر جا کر سوشل میڈیا کی زینت بنی اس بارے میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔

سب سے زیادہ حیران کن اور توجہ طلب وہ ناز و انداز اور شرمیلی سی ادائیں ہیں جنکے زریعے اس شخص اور اسکے ادارے کا نام مخفی رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جس نے یہ تصویر کھینچی تھی۔ ان سوالات کی وجہ سے جے آئی ٹی کی غیر جانبداری واضح طور پر مشکوک ہو چکی ہے۔ اب صاف پتہ چل ر ہا کہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت اس کا قیام عمل میں لایا گیا اور خاص نتائج کے حصول کی توقع کی جا رہی ہے۔


ان سب سوالات میں سے سب سے دلچسپ سوال تصویر لیک کا ہے۔ ایک ایسی عمارت جہاں پرندہ پر نہیں مار سکتا ، کسی شخص کو موبائل لے جانے کی اجازت نہیں ہے، داخلے پر تین تین جگہ تلاشی ہوتی ہے۔ کیمرے ہر آنے جانے والے کی مانٹیرنگ کر رہے ہیں ہیں ۔ وہاں تصویر لیک کرنے والے شخص کے ادارے کا پتہ کیوں نہیں چل رہا؟ تصویر لیک کرنے والے کا پتہ لگ جانے کے باوجود اسکے ادارے کا نام کو چھپانا کیا،کسی سمت سے پڑنے والے بدترین دباؤ کو ثابت نہیں کر رہا ؟ جناب والا، یہ ثابت کرنے کیلیے کہ یہ سارے کا سارا عمل اب ہائی جیک ہو چکا اور کس کس ثبوت کی ضرورت ہے؟تصویر کے معاملے پر صحافیوں نے شور مچایا۔

اخبارات میں لکھا گیا، ٹی وی کے پروگرام کیئے گئے مگر جواب ندارد ۔ ایک ایسی انکوائری جس میں وزیر اعظم اور انکے خاندان کو مجرموں کی طرح رگیدا جا رہا ہے ، جہاں ماضی کی ایک ایک پائی کا حساب وصول کیا جا رہا ہے، جہاں پوری خاندان کی سرعام پیشی کی جا رہی ہے وہاں اس ایک شخص کے ادارے کا نام کیوں چھپایا جا رہا ہے؟ یہ اطلاع بھی آئی کہ جس شخص نے تصویر اتاری اس کو برخواست کر دیا گیا ہے۔

لیکن کون تھا وہ شخص ؟ کس ادارے سے تعلق رکھتا تھا؟ کس نے اس کو یہ ذمہ داری سونپی تھی؟نام کیا تھا؟ عہدہ کیا تھا ان سب کے جواب نہیں مل سکے۔ کبھی سیکیورٹی کا بہانہ بنایا گیا کبھی ادارے کی ساکھ کی آڑ لی گئی لیکن ابھی تک اس شخص کا کوئی اتہ پتہ نہیں معلوم۔ چند دوستوں سے بات کی تو پتہ چلا کہ اگر اس شخص کا نام، پتہ بتانا اگر ناگزیربھی ہوا تو کسی نچلے درجے کی ملازم کا نام سامنے لایا جائے گا اصل مجرم کبھی بھی سامنے نہیں آئے گا۔

مجھے نہ اس شخص کے ادارے کا علم ہے نہ رتبے اور رینک کا پتہ ہے لیکن میں بہت خوش ہوں کہ ادارے کس بے مثال جرات سے اپنے لوگوں کا تحفظ کررہے ہیں۔اس کہتے ہیں ڈسپلن ، اسے کہتے ہیں وفاداری ، اسے کہتے ہیں تنظیم۔
اس فخریہ مثال کے بعد ایک نظر عوام کے اداروں پر بھی ڈالنی چاہیے۔ عوام کے ادارے تو قومی اسمبلی اور ایوان ہیں۔ یہ وہ ادارے ہیں جنہیں ہمیشہ بدنام کیا گیا ، کرپشن کا گڑھ بتایا گیا۔

انکے عہدایدروں کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیر وں اور مشیروں کی ہمیشہ سرعام تذلیل کی گئی۔ جمہوریت کو کرپشن کی جڑ بتایا گیا۔ ہر سکینڈل کوبڑھا چڑھا کر میڈیا کی زینت بنایا گیا۔ یہ سلسلہ کوئی آج کا نہیں ہے جب سے اس ملک کا قیام عمل میں آیا ہے ہمیں اپنے جمہوری اداروں پر فخر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ہر دفعہ جس کو عوام ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں اسی پر چور ، ڈاکو ، کافر اور غدار کے الزامات لگے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ستر سال کی تاریخ میں ایک بھی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ کسی کو بیچ جلسے کے گولی مار دی گئی ، کسی کو برطرف کر دیا گیا، کسی کو پھانسی لگا دی گئی کسی پر کرپشن کا الزام لگا دیا گیا۔اس ملک کے عوام کو کچھ سبق حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے ادارے سے سیکھنا چاہیئے۔اپنے منتخب کردہ لوگوں کے تحفظ کا سبق سیکھنا چاہیئے۔


میرے کانوں میں جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد وزیر اعظم کی تقریر بار بار گونجتی ہے۔ جب وزیر اعظم بہت رسان سے کہتے ہیں اب کٹھ پتلیوں کا کھیل نہیں چلے گا ، اب تاریخ کا پہیہ واپس نہیں مڑے گا اب جمہوریت کی گاڑی پٹری سے نہیں اترے گی۔میرا بہت دل چاہتا ہے کہ وزیر اعظم کوبتاوں کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔اس ملک میں کٹھ پتلیوں کا کھیل اب بھی جاری ہے۔

اب بھی انہی کی حکومت ہے۔اب بھی جمہوریت کی گاڑی جڑواں شہروں کی سڑکوں پر ہچکولے کھا رہی ہے۔ اب بھی تاریخ کا پہیہ غلط سمت میں جا رہا ہے۔ اس لئے کہ جب عوامی نمائندوں کے احتساب کے نام پر نظام کی بساط لپیٹنے کی بات کی جا رہی ہو۔جب پائی پائی کے حساب کا نعرہ لگ رہا ہو۔ جب تین دفعہ، کڑوڑں لوگوں کے منتخب کردہ وزیر اعظم سے سرعام رسیدیں طلب کی جا رہی ہوں،جب بار بارتلاشی کا تقاضہ کیا جا رہا ہو،جب بے مہر احتساب کا مطالبہ کیا جا رہا ہو ایسے میں سارے ادارے، سارے صحافی ، سارے منصف ایک شخص، صرف ایک شخص کے ادارے کا نام معلوم کرنے سے قاصر ہوں تو ایسے میں جمہوریت نہیں چلتی۔

ایسے میں ووٹ کی حرمت نہیں ہوتی۔ ایسے میں عوام کی رائے کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ایسے میں جمہوری وزیر اعظم کے مثبت بیانات بس حرف تسلی ہوتے ہیں، قوم کی تقدیر نہیں بنتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :