گونگے کا خواب

پیر 12 جون 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

آج کے اس مشینی دور میں جہاں انسان اپنی قدریں کھورہا ہے وہاں کتابوں سے بھی دور ہو تا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عدم برداشت، نفرت، حسد اور غصہ جیسی لعنتیں ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر رہی ہیں ۔ جہاں انسانوں کے ذہن کسی ادیب کے شاندار جملے سے اپنے شعور کو جلا بخشتے تھے وہاں نفرتوں اور کدورتوں کا بازار گرم ہے ۔ایسے حالات میں کسی اچھی کتاب کا ہاتھ لگ جانا اور اسے پڑھنے کا وقت میسر آجانا کسی بھی نعمت سے کم نہیں ہے ۔

دو روز قبل معروف ادیب طارق بلوچ صحرائی کی کتاب ”گونگے کا خواب“ہاتھ لگی۔ جس کاپہلا صفحہ پڑھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ اگر اس کتاب کو مکمل نہ کیا تو اپنے ساتھ زیادتی ہو گی ۔ کتاب کا ہر ہر لفظ اپنے اندر تاثیر کی ایک ایسی طاقت سموئے ہوئے ہے جسے پڑھنے کے بعد عمل کے رستے کا مسافر بننا بہت آسان ہو جا تا ہے ۔

(جاری ہے)


طارق ایک ہی وقت میں بلوچ بھی ہے اور صحرائی بھی، اور یہی ان کی طبیعت کا خاصہ ہے جو ان کی تحریروں میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے ۔

دل سے نکلنے والے الفاظ دل پر اثر کر کے انسانوں کو پھر سے نفرتوں اور کدورتوں کے گرداب سے نکال کر محبت، امن اورسکون کا پیغام دیتے ہیں ۔ بانو قدسیہ اسی وجہ سے تو کہتی ہیں کہ طارق بلوچ کی تحریروں میں ادبی قرینہ اور سلیقہ کے ساتھ ساتھ اصلاحی پہلو بھی نمایاں ہے مگر وہ کوئی طویل سفر طے کر کے یہاں تک نہیں پہنچا۔ بلکہ اس نے تو آغاز ہی یہاں سے کیا ہے ۔

احمد رفیق اختر ،با با عرفان الحق، سرفراز شاہ جیسے بڑے لوگوں سے طارق بلوچ کا طرز سخن اس حوالے سے مختلف ہے کہ وہ اپنی فکر کو افسانوی لبادے میں پیش کرنے کا فن بخوبی جانتا ہے ۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان لکھتے ہیں کہ صحرائی صاحب کے افسانے نہایت دلچسپ اور جذبات کی نہایت اعلیٰ پیرایہ میں عکاسی کرتے ہیں ۔ اگر یہ کہوں کہ ان کے افسانے صحرا نورد کے خطوط کی طرح دلچسپ اور دل کو موہ لینے والے ہیں تو بیجا نہ ہوگا ۔

طارق بلوچ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میری ذات کے ساتھ کئی المیے وابستہ ہیں ، میں پتھر کی آنکھ میں آنسو دیکھنا چاہتا ہوں ، میں آدمی کو انسان دیکھنا چاہتا ہوں، میں موم آنکھوں سے سورج کے خواب دیکھنا چاہتا ہوں ، میں وہ محبت دیکھنا چا ہتا ہوں جو الہام بن جاتی ہے ۔ میں جھوٹ بولنا چاہتا ہو کہ انسانیت کو زوال نہیں مگر جب میں ناموں کو عہدوں کے ساتھ دیکھتا ہوں تو نادم ہو جا تا ہوں۔

میں رب کو انسانوں کے درمیان دیکھنا چاہتا ہوں مگر میرا با با کہتا ہے جھلیا”تنہا“ تو تنہائی ہی میں ملتا ہے ۔میں برف پہ لکھی کوئی لافانی تحریردیکھنا چاہتا ہوں مگر وقت کا جون سب کچھ مٹا دیتا ہے ۔ میری زندگی کے منڈھیر پر بیٹھے محبت کے بھوکے پنچھیوں کا شور مجھے سونے نہیں دیتا ۔ پرندے مجھ سے کہتے ہیں اشرف الخلوقات سے کہنا زندگی سے جب اخلاص اور محبت ہجرت کر جائے تو زندہ لوگ عذاب قبر میں مبتلا کر دئیے جاتے ہیں۔


قارئین کرام !ویسے تو 182صفحات پر مشتمل کتاب کا ہر ورق ہی اپنے اندر انسان کو اندھیرے سے اجالے کی جانب لے جانے کی طاقت رکھتا ہے۔نہی میں سے ایک اقتباس آپ کی نذر کر رہا ہوں۔”جب تہذیبوں کو زوال آتا ہے تو وقت کی نعمت واپس لے لی جاتی ہے اور لوگوں کے پاس اپنوں کو دفنا نے کے لئے بھی وقت نہیں رہتا۔ نسلوں کا ضمیر مر جائے تو شہر شہر قابیل بن جا یا کرتے ہیں ۔

حسد اور خون حکمرانی کر نے لگ جاتے ہیں ۔ جگنو شہر کا راستہ بھولنے لگتے ہیں ، دلوں کی بینائی رات بن جا یا کرتی ہے ۔ پھر یہاں ہر شخص سورج کا پتا پوچھتا پھرتا ہے ۔ کھلونوں کی جگہ دل ٹوٹنے لگتے ہیں ، کوئی مجھے یا میں دوسرے کو قتل نہ کردوں؟ہر شخص دوسرے سے اور خود سے ہی خوفزدہ رہنے لگ جا تا ہے ۔ خامشی کا زہر پیتی سنسان گلیاں آہٹوں کی آس لئے اونگھتی رہتی ہیں ۔

رزق کا ایسا قحط پڑتا ہے کہ جو بھی پردیس جا تا ہے پلٹ کر واپس نہیں آتا۔ اہل قلم بجائے رہنمائی کے اسی شاخ کو کاٹنا شروع کر دیتے ہیں جس پر وہ خود بیٹھے ہوتے ہیں۔ قومیں جنتریوں کی آہنی سلاخوں والی زنداں میں اسیر ہو جا یا ککرتی ہیں اور غربت اس حد کو پہنچ جاتی ہے کہ یہاں کسی کو بھی اپنے ہو نے کی گواہی نہیں ملتی۔“
قارئین محترم !کئی سالوں بعد ”گونگے کا خواب“ کی صورت ایسی کتاب پڑھنے کو ملی جس کو پڑھتے ہوئے آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ آتا تھا۔

ایک ایسی کتاب جسے بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ، ایک ایسی کتاب جسے پڑھنے کے بعد مجھ جیسا انسان بھی ایک بار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ زندگی کے کئی ما ہ وسال ضا ئع ہوئے اور آج زندگی کا اصل مقصد سمجھ میں آیا ہے ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم طارق بلوچ صحرائی کی طرح اپنے حصے کا چراغ جلاتے ہوئے” گونگے کا خواب“ جیسی کتابوں کو فروغ دیتے ہوئے معاشرے میں امن، سکون اور محبت کی فضا کو قائم کریں۔ اللہ کرے ایسا ہو جائے!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :