ٹرمپ کا دوری سعودی عرب

منگل 23 مئی 2017

Khalid Irshad Soofi

خالد ارشاد صوفی

امریکی صدر ٹرمپ عہدہ سنبھالنے کے پورے پانچ ماہ ہفتہ کے روزبعد پہلی بار کسی غیر ملکی دورے پر روانہ ہوئے اور سب سے پہلے سعودی عرب پہنچے۔ وہ آٹھ دن وائٹ ہاؤس سے باہر رہیں گے اور اس دوران سعودی عرب سے فارغ ہو کر اسرائیل‘ فلسطین‘ برسلز‘ ویٹیکن اور سسلی (اٹلی) جائیں گے۔ ماہرین اس دورے میں دو چیزوں کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ پہلی سعودی عرب کے دورے میں ہونے والی بریک تھرو اور دوسرے اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سے کوئی اعلان۔

ٹرمپ کا سعودی عرب کا دورہ مکمل ہو چکا ۔ ہفتہ کے روزجب وہ سعودی عرب کی سرزمین پر اترے تو ان کا پُرتپاک استقبال کیا گیا‘ حتیٰ کہ امریکی خاتون اول میلانیا ٹرمپ اوران کی بیٹی ایوانکا کو سکارف پہننے سے مستثنیٰ قرار دیا گیا‘ جبکہ سعودی وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیرنے کہا کہ امریکہ اور مغرب اسلامی دنیا کے دشمن نہیں ہیں اور یہ مغرب کے لئے بھی بھرپور پیغام ہے کہ اسلام آپ کا دشمن نہیں ہے۔

(جاری ہے)


یہ بات بالکل واضح ہے کہ ٹرمپ اوباما کی پالیسیوں کے بالکل الٹ چل رہے ہیں۔ مثلاً اوباما نے ایران کے ساتھ معاہدہ کہ وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے تو اس پر لگی پابندیاں ہٹتا دی جائیں گی اور یہ کہ اسے مراعات بھی فراہم کی جائیں گی‘ دوسری جانب ان کا سعودی عرب کے ساتھ رویہ غیر دوستانہ رہا‘ اتنا غیر دوستانہ دو سال پہلے سعودی عرب نے خود کو تنہا محسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔

اب ٹرمپ نے پہلا دورہ ہی سعودی عرب کا کیا ہے ‘جس پر سعودی عوام کا ایک خاصا بڑا حصہ پھولے نہیں سما رہا‘ یہ الگ بات کہ تنقید کرنے والے بھی کم نہیں ہیں‘ جبکہ ٹرمپ گزشتہ چھ ماہ میں کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ کیا گیا امریکی معاہدہ ختم کر دیں گے۔ تو کیا مشرقِ وسطیٰ کے اس حصے میں کوئی نئی تبدیلی آنے والی ہے؟ کیا سعودی عرب کی اہمیت ایک بار پھر بڑھنے والی ہے؟ ان سوالات کے جواب تو وقت کے ساتھ ہی مل سکیں گے‘ فی الحال یہ دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ کے اس دورے سے کون فائدے میں رہتا ہے۔

اس حوالے سے فی الحال تو امریکہ کا پلڑا بھاری محسوس ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے دورے کے پہلے ہی روزسعودی عرب کے ساتھ 110بلین ڈالر کے ہتھیار فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے‘ جبکہ یہ طے پایا ہے کہ امریکہ اگلے دس سالوں میں سعودی عرب کو مزید 350بلین ڈالر کے ہتھیارر فراہم کرے گا یعنی کل 460بلین ڈالر کی ڈیل ہوئی ہے اور ہفتے کی شام سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کی خوشی دیدنی تھی۔

وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے: یہ ایک نہایت کامیاب اور شاندار دن ہے‘ امریکہ میں بہت بڑی سرمایہ کاری ہو رہی ہے‘ سینکڑوں بلین ڈالر کی سرمایہ کاری‘ جس کا مطلب ہے امریکی عوام کے لئے نئی نوکریاں ہی نوکریاں۔
علاوہ ازیں امریکہ کی ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے حوالے سے ایک بڑی کمپنی جی ای نے سعودی عرب کے ساتھ 15بلین ڈالر کی بزنس ڈیل کی ہے جبکہ امریکی ادارے ڈوdow کیمیکلز نے بھی سعودی عرب سے ایک معاہدہ کیا۔


یہ واضح نہیں کہ سعودی عرب یہ ہتھیار دہشت گردی اور داعش کے خاتمے کے لئے استعمال کرے گا یا شام میں کوئی ختمی کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے یا پھر یہ ہتھیار اس 41ملکی فوجی اتحاد کومسلح کرنے کے کام آئے گا‘ جو حال ہی میں تشکیل پایا ہے اور جس کا سربراہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو مقرر کیا گیا ہے؛ تاہم یہ واضح ہے کہ سعودی عرب اگلے چند برسوں میں خود کو زیادہ مسلح کرنے جا رہا ہے۔

اس کا سبب مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی ابتری سے خود کو بچانا ہو سکتا ہے اور داعش کے خطرے سے نمٹنے کے لئے خود کو تیار کرنا بھی۔ خود امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کی اپنی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل ہے‘ تو سوال یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد ایک متزلزل معیشت کے حامل سعودی عرب پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کیا اس سے بہتر یہ نہیں تھا کہ عرب لیگ یا او آئی سی کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے مسائل حل کرنے پر توجہ دی جاتی۔

میں نے اپنے کسی پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں گزشتہ چار پانچ برسوں میں جو کچھ رونما ہو چکا ہے اور جو تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں‘ ان کو ٹھیک کرنے کے لئے کم از کم چار پانچ دہائیاں درکار ہوں گی اور پھر بھی یہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہو پائیں گی۔ ایسی ہی ایک پیش گوئی یہ کی جا سکتی ہے کہ سعودی امریکہ آرمز ڈیل کے نتائج بھی اس خطے کو اور خود سعودی عرب کو بہت زیاددہ متاثر کر سکتے ہیں‘ البتہ امریکہ کے لئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ افغانستان اور عراق کی جنگوں سے ہونے والے مالی نقصانات کی تلافی کرکے ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے۔


او آئی سی کو آواز نہیں دی گئی‘ نہ ہی عرب لیگ کو زحمت دی گئی‘ البتہ عرب اسلامک امریکن سمٹ کا اہتمام کر لیا۔ یہ بھی ایک اچھی پیش رفت تھی‘ کیونکہ اس دوران ٹرمپ مسلم ممالک سے آئے پچاس سے زائد رہنماؤں سے ملے‘ جس سے ان کے اسلام کے بارے میں نظریات تبدیل ہونے کی راہ ہموار ہوئی ہو گی۔ کانفرنس میں دہشت گردی سے کیسے نمٹا جائے‘ تجارتی تعلقات میں اضافہ کیسے کیا جائے ‘ جیسے معاملات زیر غور آئے اور اس بارے میں بات چیت کی گئی کہ نوجوانوں کی صلاھٰتوں سے کیسے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔

ٹرمپ نے داعش اور دوسری انتہا پسند تنظیموں سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے امریکہ کے مسلم پارٹنرز کو ٹھوس موقف اختیار کرنے کا کہا۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔ گزشتہ موسم گرما میں جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یکے بعد دیگرے کئی ممالک کے دورے کئے تھے تو ان کی واہ واہ کے ساتھ یہ بھی سننے کو ملا کہ وزیر اعظم نواز شریف کیوں اتنے متحرک نہیں اور کیوں صرف بیانات پر گزارہ کر رہے ہیں۔

اس موسم گرما میں انہوں نے پچھلی ساری سستی کی کسر نکال دی ہے۔ 2017کا پانچواں مہینہ ابھی مکمل نہیں ہوا اور وہ دس بارہ ممالک کے دورے کر چکے ہیں۔ توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ ان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہو گی‘ لیکن پھر کہا گیا کہ کانفرنس کے مصروف شیڈول کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں۔اس اکنفرنس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہونے کی راہ نکلے گی؟ اس بارے میں ابھی وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں‘ بہرحال اس کانفرنس اور ٹرمپ کے دورے کو ایک اہم‘ مثبت اور اچھی پیش رفت کہا جا سکتا ہے کہ اس طرح ان کے مسلمانوں کے بارے میں تحفظات میں کمی آئی ہو گی‘ ایک سافٹ امیج ابھرا ہو گا اور وہ اب مزید مسلم ممالک کے امریکہ داخلے پر پابندی کا حکم جاری نہیں کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :