ضلعی عدلیہ : جسٹس منصور علی شاہ کی راہ تک رہی ہے

پیر 8 مئی 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

بلا شبہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ قائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ شفاف کردار کے حامل انسان ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ستمبر2015میں خاکسار نے اپنے ایک کالم میں ان کے کاموں کو سراہتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ ماڈل کو تما م عدالتوں کے لئے رول ماڈل بنا نے کی تجویز بھی دی تھی، جسے وہ کامیاب بنا نے میں کسی حد تک کامیاب ضرور ہوئے ہیں ۔

بطور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی ،عدلیہ کے کرپٹ ججوں اور اہلکاروں کے خلاف سخت ایکشن لیا اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ،ایسے بد ترین لوگوں کو کھڈے لائن لگا دیا۔ ان کی یہ اہلیت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ وہ موجودہ عدالتی نظام کو تبدیل کر کے ایسا نظام وضع کرنا چاہتے ہیں جہاں عام غریب سائل کو بغیر کسی رکاوٹ کے بروقت اور سستا انصاف مل سکے‘ وہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بروقت انصاف فراہم نہ ہونے کی حقیقت کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور اس کے حل کے لیے مثبت سوچ اور ویژن بھی رکھتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ موجودہ عدالتی نظام میں نسلیں تھک جاتی ہیں مگر انصاف نہیں ملتا‘ چیف جسٹس صاحب ضلعی عدالتوں سے بدعنوانی اور وکلاء سے مافیا ختم کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بگاڑ اس حد تک ہے بڑھ چکا ہے جس میں بہتری لانے کے لئے طویل عرصہ در کار ہے ۔
قارئین !مجھے پچھلے دنوں ضلعی عدلیہ میں دو ایسے کیسز کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملااور جنہیں دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ضلعی عدالتوں میں حالات پہلے سے زیادہ خراب ہو رہے ہیں ۔ کرپشن کا ناسور سر بازار گرم ہے جس میں ججوں کے ریڈرز کے ساتھ تما م عدالتی عملہ پورے زور و شور کے ساتھ اپنی جیبیں گرم رکھنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ انصاف کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ،غریب سائل کی پوری زندگی عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر گذر جاتی ہے، لیکن آنکھوں میں سجا انصاف اپنے ساتھ لئے ہی منوں مٹی تلے دفن ہو جا تا ہے ۔
میرے ایک قریبی دوست کے دفتر میں ان کے ایک ملازم نے فراڈ کیا، مقدمہ درج ہوا تو ملاز م روپوش ہو گیا۔ اس دوران انوسٹی گیشن افسر نے تفتیش مکمل کے تو ملازم گنہگار ثابت ہوا ۔

اس کے چند روز بعد اس ملازم نے سیشن عدالت لاہور سے اپنی عبوری ضمانت کرائی اور جج نے اسے پھر شامل تفتیش ہونے کے احکامات صادر کئے ۔ جج صاحب کے شامل تفتیش ہونے کے حکم کو ہوا میں اڑاتے ہوئے وہ ملازم دی گئی تاریخ کو دوبارہ عدالت میں پیش ہوا اور اس کی ضمانت میں مزید تین روز کی توسیع کر دی گئی ۔ تفتیشی افسر کی اس کے خلاف رپورٹ کے باوجود بھی جج صاحب ملزم کو تاریخ پر تاریخ دیتے رہے، اور یوں اس کی ضمانت میں ایک مہینہ تک توسیع ہوتی رہی ۔

بالآخر ایک تاریخ پر جب ملزم عدالت میں پیش نہ ہوا تو عدالت نے اس کی ضمانت کینسل کرنے کے احکامات صادر فر مائے ،لیکن پھر اسی ہی روزدوپہر میں ملزم کے پیش ہونے عبوری ضمانت پھر لے لی گئی اور جس میں پھر ایک دفعہ توسیع ہوتی جا ہی ہے ۔ اب آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح چور ، ڈاکو اور قاتل عدالتی سست روی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشرے کے معزز اور شریف شہریوں کو اذیت دیتے ہیں اور عدالتوں کی کاروائی کی وجہ سے شریف شہری خود اپنے آپ کو مجرم سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں اور چور اچکے ، فراڈئیے اسے بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔


ایک دوسرا واقعہ میری ایک غریب اور بیوہ عزیز ہ کے ساتھ پیش آیا ،جب گوجرانوالہ میں ان کے گھر پر ایک خاتون کرایہ دار نے قبضہ کر لیاجسے مقامی سیاستدانوں کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ چار سال پہلے انہوں نے متعلقہ تھانے میں درخواست دی لیکن کوئی فریاد رسی نہ ہو سکی اورمجبوراََ ضلعی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا ۔ لیکن ملکیت کے تما م تر شواہد ہونے کے باوجود وہ پچھلے چار سالوں سے حق پر ہونے کے باوجود مصدقہ فراڈیوں کے ہاتھوں یر غمال بنی ہوئی ہیں ۔

آپ اندازہ لگائیں کہ اس غریب اور بیوہ خاتون کا کیا حال ہوتا ہو گا جب وہ اپنے ہی گھر سے در بدر کردی گئی اور فراڈئیے خوب مزے لے رہے ہیں۔
قارئین کرام ! ان دونوں واقعات کا تو میں ذاتی گواہ ہوں اور جس کے نتیجے میں یہ لوگ کس اذیت سے گذر رہے ہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں ،لیکن ماتحت عدالتوں میں روزانہ ایسے بیسیوں واقعات سننے کو ملتے ہیں جب لوگوں کو فوری انصاف فراہم نہیں ہو تا۔

لوگوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی پر کچھ ہی دیر میں قبضہ کرنے، اور محنت سے کمائی جانے والی رقم کو ڈکارنے والے ، انصاف فراہم کرنے والے ادارے کی سستی کی وجہ سے اپنے انجام کو نہیں پہنچ پاتے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چیف جسٹس منصور علی شاہ اپنی تما م تر تو جہ ضلعی عدلیہ اور ماتحت عدالتوں پر مرکوز کرتے ہوئے ،ہنگامی بنیادوں پر یہاں کرپٹ اہلکاروں اور مافیا ز کے خلاف ایکشن لیں ،اور کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے جس کے تحت ایک مخصوص وقت میں لوگوں کو بر وقت انصاف فراہم کیا جائے ۔ امید کی جا سکتی ہے جس کی وجہ سے جسٹس منصور علی شاہ ماڈل کے حقیقی ثمرات دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :