کتاب اور خوشی !

منگل 2 مئی 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ تجربہ بڑا دلچسپ تھا اور اس کے نتائج حیران کن تھے ،انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں امریکی شہر نیو یارک جرائم کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ،سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ تھے ،چوری اور ڈکیتی عام تھی ، راہ چلتے مسافروں کو لوٹ لیا جاتا تھا، چوروں اور ڈاکووٴں کے گینگ بنے ہوئے تھے اور ان کے اپنے مخصوص علاقے تھے ، ایک گینگ کودوسرے گینگ کے علاقے میں گھسنے کی اجازت نہیں تھی ۔

لوگ ڈر کے مارے گھروں سے نہیں نکلتے تھے ، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں عام تھیں ، ٹارگٹ کلنگ ایک فیشن تھا اورآپ صرف پچاس یا سو ڈالر میں اپنے مخالف کو مروا سکتے تھے ۔ انتظامیہ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں یرغمال تھی ، منشیات سرعام بکتی تھیں ، تعلیمی اداروں میں منشیات فیشن کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں اور لوگ منشیات کے حصول کے لیے اپنے گھر تک بیچ دیتے تھے ۔

(جاری ہے)

یہ صورتحال انتہائی پریشان کن تھی ،امریکی انتظامیہ نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بیک وقت دو اہم اقدامات کیے ، ایک ،انہوں نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلا امتیاز کاروائی شروع کر دی اور انہیں قانون کے تحت سزائیں دیں ، دو ، ایسے جرائم پیشہ افراد جوعادی مجرم تھے اور عرصے سے ان جرائم میں ملوث تھے انہیں جیلوں میں بند کیا اور انہیں الگ الگ کمروں میں قید کر دیا ، انتظامیہ کی طرف سے انہیں پیشکش کی گئی کہ انہیں ہر ہفتے ان کی پسند کی تین کتابیں مہیا کی جائیں گی جو قیدی ایک سال میں اتنی کتابیں پڑ ھے گا اس کی قید میں اتنے ماہ کی کمی کر دی جائے گی ۔

یہ بڑی دلچسپ آفر تھی ، اکثر قیدیوں نے اس آفر سے فائدہ اٹھایا اور سال میں مطلوبہ تعداد میں کتابیں پڑھ ڈالیں ، پانچ سال کے بعد جب یہ قیدی رہا ہوئے تو ان میں اچھی خاصی تبدیلی آ چکی تھی اور رہا ہونے کے بعد امریکی خفیہ ایجنسیوں نے ایسے افراد پر خصوصی نظر رکھی ، رپورٹس کے مطابق ان قیدیوں میں نوے فیصد افراد ایسے نکلے جنہوں نے جرائم کی دنیا میں کبھی دوبارہ قدم نہیں رکھا اور آئندہ کے لیے یہ مہذب شہری بن گئے ۔


پچھلے ہفتے اسلام آباد میں کتاب کے عالمی دن کے حوالے سے بک فیئر کا اہتمام کیا گیا تھا اور اسلام آباد جیسے خوبصورت شہر میں یہ میلہ تین دن تک اپنی رونقیں بکھیرتا رہا ، قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویژن کے عرفان صدیقی اور نیشنل بک فاوٴنڈیشن کے ڈاکٹرانعام الحق جاوید اس میلے کے روح رواں تھے ، پورے شہر کو رنگ برنگے بینرز سے سجایا گیا تھا ، پاک چائنہ فرینڈ شپ سنٹر اور اس کے ارد گرد کی سڑکوں پر نامور لکھاریوں اور قلمکاروں کی تصاویر آویزاں تھیں ۔

یہ میلہ ہفتہ ،ا توار اور سوموار تین دن تک جاری رہا ، میں آخری دن اس میلے میں شریک ہوسکا لیکن آخری دن بھی میلے کی رونق قابل دید تھی ، سو سے زائد پبلشرز نے اپنے بک اسٹال لگائے تھے اور بہت سوں نے ڈسکاوٴنٹ کے ساتھ کتب مہیا کیں ۔ ایک طرف موٹروے کا اسٹال تھا جہاں موٹروے پولیس کی جانب سے شہریوں میں ٹریفک قوانین کے بارے میں آگاہی کے لیے سوال جواب کیے جاتے اور صحیح جواب دینے والوں کوگفٹ پیک دئے جاتے تھے ،سامنے اسٹیج کی طرف نیشنل بک فاوٴنڈیشن کی جانب سے قرعہ اندازی کے ذریعے نام آنے کی صورت میں دو ہزار روپے کی کتب مفت دی جا تی تھیں، سیمینارہالز میں مختلف موضوعات پر تقریبات ہوئیں اور سوال و جواب کا سیشن ہوا ۔

الغرض یہ میلہ ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر ایک اہم پیش رفت تھی اور ہمیں آپریشن ضرب عضب، رد الفساد کے ساتھ آپریشن ضرب ادب کی بھی ضرورت ہے ، ہمیں اپنی زندگیوں، اپنے ماحول اور اپنے ملک میں ادب اور لٹریچر کو عام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جس دن اس ملک میں کتاب عام ہو گئی اس دن یہ ملک صحیح سمت کی جانب اپنا سفر شروع کر دے گا ۔
اس بک فیئر کے دوران ایک خوشگوار واقعہ بھی پیش آیا اور اس کی خوشی اور فرحت میں ابھی تک محسوس کر رہا ہوں ۔

میں مختلف اسٹالز سے ہوتا ہوا دوسری منزل پر پہنچا تو ایک کونے میں ہندوستان کے معروف اسکالر مولانا وحید الدین خان کی کتب کا اسٹال لگا تھا ، مولانا وحید الدین خان اپنے مخصوس زاویہ فکر کی وجہ سے امت کے اجتماعی موقف سے ایک الگ موقف رکھتے ہیں اور ان کے بعض تفردات اور ان کی سوچ پر اہل علم نے نقد بھی کیا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اہل علم ان کی علمی و فکری خدمات کے نہ صرف معترف بلکہ دل سے ان کی قدر کرتے ہیں ،مولانا کی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے اور وہ تقریبا دو سو سے زائد کتب کے مصنف ہیں اور مختلف موضوعات پر ان کے ایک ہزار سے زائد پیپر چھپ چکے ہیں ۔

ان کی کتب زندگی کے ہر پہلو پر محیط ہیں ، راز حیات ، تعبیر کی غلطی، مذہب اور علم جدید کا چیلنج اور سیرت وتفسیر کے حوالے سے ان کی تصانیف مقبول عام ہیں۔ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں کی جانب سے انہیں لیکچرز کے لیے مدعو کیا جاتا رہا ہے اور اس وقت ان کی عمر تقریبا 93سال ہو چکی ہے ۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ان کے قارئین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ان کا سارا علمی کام پاکستان میں دستیاب ہے۔

میں ان کے اسٹال پر کھڑا تھا اور اسٹال کے ذمہ داران سے کسی کتاب کے بارے میں دریافت کر رہا تھا ، کتاب تو مجھے نہ مل سکی لیکن اتنی دیر میں ہندوستان سے مولانا کی کال آ گئی ،وہ غالبا اسٹال کے ذمہ داران سے صورتحال کے بارے میں دریافت کر رہے تھے، میں نے بھی ان سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی اور یوں مولانا وحید الدین خان سے گفتگو کا موقع مل گیا ۔

میں نے ان کی دینی و علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور عرض کیا کہ آپ جیسی شخصیات ہمارے لیے مشعل راہ اور سرمایہ افتخار ہیں ۔ مولانانے جوابا شکریہ کے الفاظ کے ساتھ دعائیہ کلمات کہے اور یوں مجھے ایک صاحب علم سے گفتگو کر نے کا موقعہ مل گیا۔
سوشل میڈیا کے اس دور میں کتاب کو عام کرنے کی ضرورت ہے ، سوشل میڈیا کی اہمیت اپنی جگہ لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ سوشل میڈیا آپ کوعلم، شعور ،لحاظ،سنجیدگی ، احساس ،پختگی اور تہذیب نہیں سکھا تا ، اس پر آپ کو ہیجان، لایعنی ویڈیوز، فضول مباحث او ر وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔

جس طرح انسان جسمانی طور پر اپنی عمر کی حدیں طے کرتا ہے اسی طرح اس کے عقل و شعور کی حدیں بھی پروان چڑھتی ہیں ، اگر ایک انسان کتابیں پڑھتا ہے اور مسلسل پڑھتا ہے تو وہ دوسروں کی نسبت جلد شعور کی منزلیں طے کر لیتا ، اس کی عقل پختہ ہو جاتی ہے اور اس کا شعور بالغ ہو جاتا ہے ۔گرمیوں میں گھر کے خوبصورت لان میں بیٹھ کر کتاب پڑھنے کا جو مزہ ہے شاید وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانا کھانے سے بھی حاصل نہ ہو۔

ہر انسان کی کوئی نہ کوئی تفریح ہوتی ہے ، ہر کوئی اپنے فارغ وقت میں اپنے لیئے تفریح کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈتاہے ، کسی کی تفریح کھیل ہے ، کوئی کسی اچھے ہوٹل میں کھانے کو تفریح سمجھتاہے ، کوئی اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ کرخوش ہوتا ہے اور کسی کی تفریح ٹی وی اور انٹرنیٹ ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بہتر تفریح یہ ہے کہ آپ اپنا فارغ وقت کتاب کے ساتھ گزاریں ۔ اگر کوئی کتاب کے ساتھ رہ کر خوش ہے اور کتاب اس کے فارغ وقت کی تفریح بن گئی ہے تو شاید وہ دنیا کا خوش قسمت انسان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :