پاکستان کی بہادر خواتین

منگل 2 مئی 2017

Babar Saleem Nayab

بابر سلیم نایاب

ترقی یافتہ اقوام میں جہاں مردوں کی محنت اور قابلیت سے قوم و ملک ترقی کی راہ پر گامز ن ہو تا ہے وہاں خواتین بھی انھیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی ہیں ،حالیہ برسوں میں پاکستان کی خواتین نے پاکستان کی معاشی ،سیاسی اور مختلف شعبہ جات میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کی ترقی میں اپنا کلیدی کردار انتہائی احسن طریقے سے نبھا کر پوری دنیا کی خواتین کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوئی ہیں کہ پاکستان کی خواتین ترقی کی دوڑ میں دوسری اقوام کی خواتین سے کسی بھی طرح کم نہیں اب عورت روز مرّہ گھر کے کام کاج میں ہی طاق نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں اپنی فرائیض سر انجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے .
ایک وقت تھا جب خواتین کا آئیڈیل شعبہ صرف ٹیچنگ کی حد تک محدود تھا ۔

(جاری ہے)

آ ج صورتحا ل یکسر مختلف ہے ۔آج پاکستانی خواتین پولیس،آرمی،ائیر فورس لیکر پہاڑوں کی چوٹیاں تک سر کر رہی ہیں ،کھیل کا میدان ہو یا بزنس کا ہر جگہ پاکستانی خواتین نے اپنا ایک امتیازی مقام حاصل کر لیا ہے ۔خواتین کو دبانے اور اُنھیں پاؤں کی جوتی سمجھنے والے مرد حضرات کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ وہ اپنی سوچ کو ذرا وسعت دیں اور خواتین کو اُن کا جائز مقام دلوانے میں مدد کریں اسی طرح قوم اور ملک ترقی کرتا ہے جب مل جل کر کام کیا جائے ۔

کہتے ہیں ایک پڑھی لکھے عورت ایک اچھی نسل کو جنم دیتی ہے مگر جب بچیوں کو صرف پرائمری تعلیم کے بعد گھر بٹھا لیا جائے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک اچھی پڑھی لکھی نسل کا جنم ممکن ہو سکے ،ماں اولاد کی تربیت کے حوالے سے ایک خوبصورت درجہ رکھتی ہے جب ماں پڑھی لکھی باشعور ہو گئی جب اُسے سیاسی معاشی آگاہی حاصل ہو گئی تو یقیناوہی تفکر وہی شعور درجہ بدرجہ منتقل ہوتا نسل کو پہنچے گا اور یوں ایک پڑھی لکھی نسل پروان چڑھے گئی ۔

پاکستان کی مزید بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں خواتین کے حقوق کے لیے بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں اُن خواتین کو مردوں کے برابر سمجھنے کے لیے دلائل اور اسلامی نقطہ نظر کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے مگر عملی انداز میں خواتین کے حقوق کے لیے کو ئی کردار ادا نہ کیا جا سکا ۔صرف چند این جی اوز کو خواتین کے حقوق کا علمبردار سمجھا جاتا ہے آج بھی خواتین پر ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے آج بھی خواتین کے چہروں کا تیزاب سے جھُلسایا جا رہا ہے غیرت کے نام پر قتل کرنے کا رواج بھی عام ہے تشدد کر کے اپنی مردانگی ثابت کی جاتی ہے بلکہ بلوچستان اور فاٹا کے اکشریت علاقوں انتہائی جاہلانہ رسوم کا راج ہے جہاں خواتین کے بنیادی حقوق تو ایک طرف بلکہ خواتین کو سماج میں کو ئی مرتبہ حاصل نہیں وہ صرف حکم کی غلام ہے اور اسی غلامی میں اپنی زندگی بسر کرنا اُس کی عادت بن چکی ہے ۔


پاکستان کی خواتین صرف اپنا گھر اپنے ماں باپ کی عزت اور اپنی اولاد کے لیے یہ تمام تر ستم برداشت کر رہی ہے کسی بھی مہذب ملک میں کسی مرد کی جّرت نہیں کہ وہ عورت پر تشدد کر کے کھلے عام پھرتا رہے بلکہ کچھ مغربی ممالک میں تو عورت پر تشدد کرنے کی سزا بھی بہت سنگین ہے ۔
حکومت کو اس سلسلے میں انتہائی سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے ایسامشترکہ فورم تشکیل دیا جائے اور ایسا قانون کا اطلاق کیا جائے جہاں خواتین پر ہونے والے ظلم کی نہ صرف آواز کو سنا جائے بلکہ اُس کے سدباب کے لیے عملی اقدامات بھی کیے جائیں۔


عورت کو ئی جانور نہیں جب د ل چاہے مار لیا بلکہ عورت بھی ایک انسان ہے اُس کے اندر بھی جذبات و احساسات ہیں عورت کمزور سہی مگریہ بھی یاد رکھیں عورت ایک ماں کے روپ میں ہے ایک بہن ایک بیٹی ایک بیوی اور عورت کا ہر روپ ہی خوبصورت رشتوں میں پرویا ہوا ہے لہذا عورت کا احترام اور اُس کی عزت کرنا ہم سب کا فرض ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :