رات گئے

اتوار 30 اپریل 2017

Ammar Masood

عمار مسعود

کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ ہمارے سیاستدان چوبیس گھنٹے ٹی وی سکرینوں پر لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، ایک دوسرے پر بہتان لگاتے ہیں ، ایک دوسرے کی تضحیک کرتے ہیں، ایک دوسرے کا تمسخر اڑاتے ہیں اور بات ہو رہی ہوتی ہے بیانیئے کی تبدیلی کی، امن کے پرچار کی، محبت کے فروغ کی، نئے اور وشن پاکستان کی۔توقع کی جاتی ہے کہ جیسے ان جھگڑوں میں سے محبت اچانک طلوع ہو جائے گی ، جیسے ان نفرتوں سے امن کا پیام برامد ہو گا ، جیسے اس تضحیک کے نتیجے میں یکدم لوگ ایک دوسرے کا احترام کرنا شروع کر دیں گے۔

اس ہزیمت کے اثرات اب قومی نہیں رہے اب بین القوامی طور پر بھی ہماری شناخت یہی نفرتیں ہو گئی ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں چلے جائیں لوگ ہمیں ملالہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کی وجہ سے جانتے ہیں،مشال خان کے بہیمانہ قتل کی وجہ سے جانتے ہیں، پاناما کیس کے جھوٹے الزامات کی وجہ سے پہچانتے ہیں، غیرت کے نام پر بیٹیوں کو قتل کرنے والے مانتے ہیں ،اقلیتوں کو زندہ نذر آتش کرنا ہماری پہچان بن گئی ہے۔

(جاری ہے)

بدقسمتی یہ ہے کہ چند عاقبت نااندیش سیاستدانوں کی پھیلا ئی نفرتیں ہماری شناخت ہو گئی ہیں۔
یہ خیال درست ثابت ہو رہا ہے کہ یہ بیانیئے کی تبدیلی سیاستدانوں کے بس کا روگ نہیں۔ ان کے پیش نظر مصلحتیں اور ہیں ، مقاصد اور ہیں۔بیانیئے کی تبدیلی کا یہ کام اب دانشوروں،شاعروں،ادیبوں،موسیقاروں اور گلوکاروں کے سپر د ہونا چاہیئے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو جمالیات پر یقین رکھتے ہیں،معاشرے کے نرم اور دردمند پہلو سے ایک عالم کو روشناس کرتے ہیں، اپنے فنون کی مدد سے ایک بہتر ، پر امن اورخوبصورت پاکستان کا تصور پیش کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔

یہی فنکارر اور قلم کار سافٹ امیج کی طرف رہنمائی کر سکتے ہیں۔اس ملک کو امن کا گہوراہ بنا کر پیش کر سکتے ہیں۔
گذشتہ دنوں ہانگ کانگ میں پاکستانی کونسلیٹ کی دعوت پر چند موسیقاروں کے ساتھ ہانگ کانگ
جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وفد کی سربراہی میرا نصیب ہوئی۔معروف وائلن نواز استاد رئیس احمد خان جو نامور ستار نواز استاد فتح علی خان کے صاحبزادے ہیں۔

رئیس احمد خان کو پہلے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ، پھر تمغہ حسن کارکردگی ان کا نصیب ہوا اور اب ستارہ امتیاز کا اعزاز بھی ان کو مل چکا ہے۔ خان صاحب دنیا کے بائیس سے زیادہ سربراہان مملکت کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ رئیس احمد نوجوان اور لاجواب گلوکار عثمان علی رئیس کے والد بھی ہیں۔ انکے ساتھ طبلے پر سنگت کے لیئے استاد اعجاز حسین تھے۔

استاد کو تمغہ امتیاز مل چکا ہے اور پاکستان کے تمام نامور گلوکاروں کے ساتھ سنگت کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں اور رئیس احمد خان کے ساتھ گذشتہ پینتیس برس سے سنگت کر رہے ہیں۔ پچاس برس سے زیادہ عرصے سے طبلہ بجا رہے ہیں اور کمال طبلہ بجا رہے ہیں۔ انکے ہمراہ ہمارے خوبصورت صوبے کے پی کے کے نوجوان رباب نواز گلاب خیل تھے ۔ یہ نوجوان اپنے ساز کی مدد سے، اپنے خوشرنگ لباس کے حوالے سے اور اپنے جذب کے اعتبار سے کے پی کے کا ایک بہت خوبصورت نقشہ پیش کرتے ہیں۔


ہانک کانگ میں کونسل جنرل عبدالقادر میمن نے اس محفل کا اہتمام کیا تھا اور پریس اتاشی علی نواز ملک کے ذمہ اس تقریب کا انصرام کیا گیا۔ عبدالقادر میمن کی اہلیہ فریدہ خان اور علی نواز کی اہلیہ صنم زہرہ بھی اس تقریب کے انتظامات میں صف اول میں پائی گئیں۔کونسلیٹ کے اہم رکن نور احمد کے ذمے مہمانوں کی دیکھ بھال تھی ۔ یقین مانئیے ان سب لوگوں نے کمال ہی کر دیا۔

تقریب میں دنیا بھر کے سفیران یا ان کے معاونین شامل تھے۔ تقریب کے آغاز سے پہلے ہرشخص ملالہ کو گولی لگنے کی بات کر رہا تھا، لوگ مشال خان کے بارے میں، پاناما لیکس کے بارے میں اور عورتوں کو زندہ جلا دینے کے حوالے سے بات کر رہے تھے ۔ لیکن جب رئیس احمد خان کے وائلن نے تان لگائی، استاد اعجاز حسین نے طبلے پر سنگت سنبھالی اور گلاب خیل نے رباب سے سر جگائے تو تشدد کے سب واقعات حاضرین کے ذہنوں سے محو ہو گئے۔

ایک محبت کا سماں تھا جو دو گھنٹے تک لوگوں پر طاری رہا۔ تقریب ختم ہوئی تو کسی نے سوال نہیں کیا کہ اس ملک میں آئے روز بم کیوں پھٹتے ہیں، لاشیں کیوں گرتی ہیں ، سکول کیوں جلتے ہیں۔ سب کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کیا واقعی پاکستان میں اتنا اچھا میوزک ہوتا ہے؟ کیا اور بھی فنکار اس پائے کے ہیں؟ ہمیں ان لوگوں کو سننے کا دوبارہ موقع کیسے مل سکتا ہے؟صرف دوگھنٹے میں اس ملک کے تصور کو لوگوں کے ذہنوں میں بدل گیا۔

ایک محبت کرنے پاکستان سے ہانک کانگ کے لوگوں کو متعارف کروانے کی اس کاوش میں کونسل جنرل عبد القادر میمن اور پریس اتاشی علی نواز ملک بہت سی توصیف کے مستحق ہیں۔ ایسے لوگ کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔
اس دور کے چند سنسنی خیزپرائیوٹ چینلز نے بڑی سہولت سے عوام کو یہ مفروضہ بیچا ہے کہ شعر و شاعری کا دور لد گیا، یہ زمانہ قدم کی باتیں ہیں، سنجیدہ میوزک اب بے اثر ہو چکا ہے۔

ادب اور ادیب متروک ہو چکے ہیں۔ اب ریٹنگ کا زمانہ ہے۔ اب لوگ گالم گلوچ کو پسند کرتے ہیں، اب گھٹیاکرائم شوز چینل کی جان ہیں اب بریکنگ نیوز کا دور دورہ ہے۔اب نہ شاعر درکار ہیں نہ شعر کی اہمیت ہے نہ افسانے پر بات کرنی چاہیے، نہ کتاب کی اہمیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کلاسیکل میوزک کو سامنے لانے کوشش کرنی چاہیئے۔ یہ مفروضہ معروف تو ہو گیا مگر ہے بالکل غلط۔

اب بھی شعر میں کشش ہے ، شاعر کی بات میں فہم ہے اور کتاب میں علم ہے جس کو لوگ بڑی شدت سے جاننا چاہتے ہیں۔
دو ہزار سات میں، میں نے پی ٹی وی سے کو ایک پروگرام رات گئے کا آئیڈیا دیا۔ اس زمانے کے ایم ڈی ارشد خان نے محبت سے بات کو سنا اور پروگرام کی منظوری دے دی۔ ڈائریکٹر مارکیٹنگ خاور اظہر نے رات گئے کا نام تجویز کیا۔ اس زمانے میں یہ پروگرام ہفتے میں پانچ دن ہتا تھا۔

خواجہ نجم الحسن پروڈیوسر تھے۔دنوں میں لوگ اس پروگرام کے گرویدہ ہو گئے وجہ صرف اتنی تھی کہ اس پروگرام میں شاعر کو عزت دی جاتی تھی، موسیقار کا احترام کیا جاتا تھا اور کتاب پر گفتگو ہوتی تھی۔پی ٹی وی کے ہر دور میں مسائل بے پناہ رہے ہیں لیکن استاد محترم جناب عطاء الحق قاسمی کے چیئر مین بننے کا فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کہ اب
دوبارہ مشاعرے ہونے لگے ہیں، شاعر اور ادیب سکرین پر نظرر آنے لگے ہیں، سنجیدہ میوزک پر بات ہو نے لگی ہے۔

قاسمی صاحب کی محبتوں اور شفقتوں کا نتیجہ ہی ہے رات گئے پھر شروع ہو گیا ہے۔ اب یہ پروگرام ہر ہفتے میں دو دن پیر اور منگل کو رات گیارہ بجے ہوتا ہے۔ اس کامیابی میں اس پروگرام کے پروڈیوسر محسن جعفر کا بہت حصہ ہے جنہوں نے اس خیال کے کامرانی کے لیئے دن رات ایک کر رکھا ہے۔بات بیانئیے کی بحث سے شروع ہو ئی تھی ذراسی توجہ اور ذی شعور لوگوں کا مشورہ شامل ہو تو یہ سب اتنا دشوار نہیں۔

ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اپنے شاعروں، ادیبوں اور موسیقاروں کا احترام کرنا جانتے ہیں۔میں نے گذشتہ دس برس اس خیال پر کام کیا ہے اور یقین مانیئے میں ناکام نہیں ہونا چاہتا۔
جو لوگ اس بات کو نہیں مانتے وہ کبھی ٹوئیٹر پر رات گئے کے ٹرینڈ پر نظر ڈالیں ۔ یہ ٹرینڈ میں نے ایک نوجوان صحافی محمد عمیر کے تعاون سے شروع کیا۔

اس میں لوگ روز رات کو ایک گھنٹہ ٹوئیٹر پر کسی ایک خاص موضوع پر شعر ایک دوسرے سے شئیر کرتے ہیں۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ جب ملک میں نفرتوں کی آگ لگی ہوتی ہے تو ایسے میں پاکستان کاٹاپ ٹرینڈ رات گئے ہوتا ہے۔جہاں صرف شعر کی بات ہو رہی ہوتی ہے۔
اور آخر میں ارباب بست و کشاد سے ایک درخواست۔ استاد اعجاز حسین ججی گذشتہ پچاس سال سے اس ملک میں طبلہ بجا رہے ہیں، محبت کے تھاپ لگا رہے ہیں۔تمغہ امتیاز ان کو مل چکا ہے تمغہ حسن کارکردگی اب انکا حق بنتا ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :