درندوں کی بستیاں

جمعرات 27 اپریل 2017

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

وہ بستیاں جہاں ظلم ہو اور لوگ ظلم سہہ کر بھی خاموش رہیں وہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں-درندوں کی بستیوں سے نکل جاؤ‘آقاﷺ کے حکم پر عمل کرو ‘پہاڑوں اور ویرانوں میں نکل جاؤ ورنہ تم بھی فتنوں کا شکار بن جاؤگے-درویش کے الفاظ کئی راتوں سے سونے نہیں دے رہے-یہ درندوں کی بستیاں ہی تو بن چکیں جب معاشرے ہوس کا عفریت لپیٹ میںآ جائیں تو وہاں انسانوں کے لیے رہنا مشکل ہوجاتا ہے-ہوس زرنے ہم سے احترام آدمیت چھین لیا اور ہم انسان سے حیوان بن گئے-ہرکوئی درندوں کی طرح دوسرے پر جھپٹنے کی تاک میں رہتا ہے-معاشی دہشت گردوں نے انسانوں سے انسانیت چھین کر انہیں کرہ ارض کا سب سے خونخوار حیوان بنادیا ہے-بستیاں ظلم سے بھری ہیں اور ظلم سہنے والے ظالموں سے ہی انصاف چاہتے ہیں-گندگی کے ڈھیروں پر رہ کر دامن اجلا دیکھنا چاہتے ہیں-غلاظت میں لتھڑے اس گلے سڑے نظام کو انسانیت کا محسن قراردیتے ہیں جس نے انسان سے اس کا سب کچھ چھین لیا-میں کیمونزم کا حامی ہوں نہ ہی سوشل ازم کا -میں اس نظام کا حامی ہوں جس میں حاکم فرات کے کنارے رہنے والے کتے کے بارے میں بھی متفکرہو-وہ نظام جس میں حاکم عوام کے اندر خود کو احتساب کے لیے پیش کرئے-وہ نظام جس میں حاکم خلیفہ وقت کے بیٹے کو معمولی رعایت دینے پر وزیرخزانہ کو برطرف کردے-وہ نظام جس میں 27ہزار مربع کلومیٹرسے بڑی ریاست اور دنیا کی سپرپاور کا حکمران جب دنیا سے رخصت ہونے لگے تو چند دینار کے سوا کوئی اثاثہ نہ ہو-وہ حکمران جنہوں نے تاریخ کے دھارے کو بدلا‘دنیا کے تین براعظموں پر حکومت کی مگر بیرون ممالک تو کیا جزیرہ العرب کے اندر بھی ان کے کاروبار یا اثاثے نہیں تھے -ان کا سرمایہ حیات وہ خدمات تھی جو انہوں نے امت کے لیے انجام دیں اور جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی-ہزارسال تک دنیا پر راج کرنے والوں کی حیثیت آج پانی پر جھاگ کی سی ہے‘بدعنوان‘اخلاقی ‘معاشی اور معاشرتی طور پر کرپٹ ترین لوگ اس امت پر حکومت کررہے ہیں جس کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ایک عالم لرزتا تھا-جس کے علم وفضل کی دنیا قائل تھی‘جس کی درسگاہوں نے آج کی جدیدتہذیب کی بنیادیں رکھیں -جس کے اہل علم نے وہ معرکے انجام دیئے کہ اغیار آج تک حیران وپریشان ہیں-آج پریشان حال امت پوری دنیا میں خوار ہوتی پھر رہی ہے کہ قدرت اپنے قانون کو تبدیل نہیں کرتی‘تمہیں خبردار کیا گیا تھا انجام سے مگر تم نے تنبیہ پر کان نہیں دھرے اور انجام کار اسی فتنے کا شکار ہوگئے جس سے تمہیں بچنے کے لیے کہا گیا تھا-زرکا فتنہ آج سرچڑھ کربول رہا ہے اور حق کہنا آج زبان پر دہکتا کوئلہ رکھنے کے برابر ہوچکا-یادکرو‘پلٹوں اوراق اور پڑھو ‘غورکرو‘گریبانوں میں جھانکوں سب کچھ عیاں ہوجائے گا-شاید درویش کا کہنا درست ہے کہ وہ وقت آچکا جس کے بارے میں حکم ہے کہ آبادیوں کو چھوڑکر جنگلوں‘ویرانوں اور پہاڑوں میں نکل جانا-میری طرح بہت سارے ذہنی کشمکش کا شکار ہیں آج غلط کو غلط اور صیح کو صیح کہنا جرم نہیں؟کسی کا ضمیربک رہا‘کسی کا جسم تو کسی کا قلم‘ہرکوئی بازارکی زینت ہے کوئی خریدار ملے‘کئی تو ایک جام پر بکنے کو تیار رہتے ہیں-اس عالم میں انسانوں کو کہاں ڈھونڈیں‘ہرکوئی جانتا ہے کہ جنہیں ہم” راہبر“ سمجھتے ہیں وہی راہزن ہیں مگرکوئی چور کو چور کہنے کو تیار نہیں کہ ہرکسی کے اندر کا چور غالب آکراسے حق کہنے سے بازرکھتا ہے -منافقت کی کون سی حد رہی گئی جسے پار نہیں گیا گیا؟ ملک کا دانشور ‘حکمران‘سول وفوجی بیوکریسی‘عدلیہ سمیت اقتدارواختیار کا شراکت دار طبقہ ہروقت ملک کے عوام کو کوسنے دیتا ہے اور ایک حد تک میں انہیں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ ایک ایسی قوم جو غربت‘مہنگائی‘بیروزگاری اور بدترین معاشی دہشت گردی کا شکار ہے وہ ”انہی عطار کے لونڈوں“سے اپنے جملہ امراض کے علاج کی توقع رکھتی ہے-میڈیا مالکان سمیت صحافیوں کی اشرافیہ اقتدار واختیار کے کھیل میں باقاعدہ شراکت دار ہے-قوم کو ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر یا اپنے کالموں کے ذریعے نیکی‘بھلائی‘اسلام اور انسانیت کا درس دینے والے کئی دانشوروں کے خاندان یا قریبی رشتہ داروں کے نام پر بنی کمپنیاں ‘این جی اوزہی ٹھیکوں اور فنڈنگ کی حقدار ٹہرتی ہیں ‘کئی ایک ماہانہ کروڑوں روپے سرکاری اشتہارات کی مد میں ہڑپ رہے ہیں تو ان کا ”فرض “ہے کہ جس کا کھائیں اسی کے گن گائیں-کسی کو ان طاقتور طبقات کی معاشی دہشت گردی نظرنہیں آتی جو سارے فساد کی جڑ ہے -پاکستان سمیت دنیا کے تمام انسانوں کا سب سے بڑا مسلہ اس وقت دہشت گردی یا جنگیں نہیں بلکہ ان سب کے پیچھے معاشی انتہا پسند اور دہشت گردعناصر کار فرما ہیں-کس میں ہمت ہے کہ وہ ان معاشی دہشت گردوں کو لگام دے؟اسلام آباد‘کراچی یا لاہور میں ٹھنڈے ایئرکنڈیشنرکمروں میں بیٹھے حکمرانوں‘دانشوروں‘منصفوں‘فوجی وسول بابوؤں کو لاڑکانہ میں پچاس ڈگری ‘لاہور میں پینتالیس ڈگری یا بلوچستان میں انچاس ڈگری درجہ حرارت کے دوران کڑی دوپہروں میں بچوں کے لیے دووقت کی روٹی کے لیے کھیتوں ‘کارخانوں‘بازاروں‘گلیوں‘محلوں میں خون پسینہ بہاتے مزدور کی مشکلات کا اندازہ کیسے ہوسکتا ہے؟دوبئی‘لندن ‘فرانس سمیت دنیا بھر میں بڑے بڑے بزنس کے مالک ‘اربوں کے بنک اکاؤنٹس رکھنے والے اسحاق ڈار سمیت اعدادوشمار کے جادوگرکیسے جان سکتے ہیں کہ پچیس ‘تیس ہزار تنخواہ پر کام کرنے والا عام پاکستانی گھر کا کرایہ‘یوٹیلٹی بل ‘بچوں کے سکولوں کی فیسیں اداکرنے کے بعد کھانے پینے کا بندوبست کیسے کرتا ہے؟پی سکیل اور ایم سکیل میں اپنے نااہل رشتہ داروں اور عزیزاقارب کو لاکھوں کے پیکج پر کنٹریکٹ دلوانے والے حکمران‘بیوروکریٹس کیسے جان سکتے ہیں کہ بیروزگاری کا کرب کیا ہوتا ہے؟انہیں کیا معلوم کہ ان کی معاشی دہشت کا شکار کروڑوں نام نہاد عام شہری زندہ درگور ہیں‘دہشت گردی کا شکار ہونے والا ایک ہی بار میں زندگی کے تمام دکھوں سے نجات پاجاتا ہے مگر معاشی دہشت گردی کا شکار ہرپل جتیا اور ہرپل مرتا ہے‘وہ زندوں میں شمار ہوتا ہے مگر مردوں سے بدتر-اہل خرد ودانش اگر اس ملک کو بچانا ہے تو معاشی دہشت گردوں کا صفایا کریں ‘معاشی دہشت گردی کو ختم کردیں آپ کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے اگر کوئی ان کا حل چاہتا ہے تو‘اگر کوئی اس ملک اور قوم سے مخلص ہے تو-اس کے بغیرحب الوطنی اور اخلاص کے سارے دعوے جھوٹے ہیں اور اس حقیقت سے آپ بھی آگاہ ہیں اور میں بھی-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :