پانامہ ہنگامہ

جمعہ 28 اپریل 2017

Khawaja Muhammad Kaleem

خواجہ محمد کلیم

گاڈ فادر کے اقتباس کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی زینت بنانے کی بجائے اگرکا ئنات کے عظیم ترین قانون ساز اور منصف ،ریاست مدینہ کے بانی سربراہ حضور اکرم ﷺ کے اس مشہور قول کا حوالہ دیا جاتا جس میں غریبوں اور امیروں کے لئے ایک ہی قانون کی بات کی گئی ہے تو شائد اس فیصلے کی عزت اور احترام اور سوا ہوجاتا ۔ ایسا کرنے میں اگر کوئی چیز مانع تھی تو دنیا کی تاریخ منصفوں کے شفاف اور اہم ترین فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کا حوالہ انتہائی برمحل ہوتا۔

ناول، ڈرامے یا افسانے اپنے تخیلاتی حسن کے باوجود قانون کی حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے ۔ماریو پوزو کے ناول گاڈ فادر کے جس ڈائیلاگ کو فیصلے کی زینت بنایا گیا ہے اس کو اگر حقیقت مان لیا جائے تومائیکروسافٹ اور فیس بک کے مالکان کے متعلق کیا خیا ل ہے جو دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ہیں ۔

(جاری ہے)

امریکن صدر ٹرمپ نے کو ن سا جرم کیا ہے جو ان کاذاتی طیارہ ، امریکی صدر کے سرکاری طیارے سے زیادہ لگژری سہولیات کا حامل ہے ؟دور کیوں جائیں ؟کیا اس ملک کے وہ تمام امرا جنہوں نے محنت سے اپنی دنیا خود بنائی اور غربت کو اس طرح شکست دی کہ آج وہ ہزاروں لاکھوں غریبوں کی مالی امداد میں مصروف ہیں تو کیا ان سب کو بھی بیک جنبش قلم مجرم قرار دے دیاجائے ؟۔

عاصمہ جہانگیر کے سیاسی نظریات سے کسی کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی قانونی رائے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے ،ان کی یہ رائے بہت صائب ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو جرائم پیشہ مافیا کے سرغنہ سے تشبیہہ دینا زیادتی ہے ۔ سچی بات ہے میں بہت بہادر آدمی نہیں ہوں اس لئے اس فیصلے کی بابت مزید کچھ کہنا بھی چاہوں تو نہیں کہہ سکتا ،عدالت کا احترام بہرحال ملحوظ خاطر ہے ۔


جہاں تک بات فتح یا شکست کی ہے تو بظاہر وزیراعظم محمد نواز شریف کے لئے ایک مشکل صورتحال پید ا ہو چکی ہے کہ عدالت نے ان کے موقف کو بعینہ تسلیم کرنے سے گریز کیا ہے ۔ لیکن خاکسار بہت پہلے یہ لکھ چکا ہے کہ پانامہ ہنگامے سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں اور نہ ہی اس بات کا کوئی خدشہ موجو د ہے کہ اس فیصلے کے بعد عمران خان وزارت عظمیٰ کی کرسی پر قبضہ کر لیں گے ۔

عدالت کے سامنے جو کچھ رکھا گیا اس کے بعد مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کے سوا اوروہ کر بھی کیا سکتی تھی ۔ لیکن ایک بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک خالصتاََ مالی معاملے کی تحقیقات سے فوجی اداروں کا کیا لینا دینا؟یہی وہ سوچ ہے جو فوج کوملک کے سیاسی معاملات میں مداخلت کی راہ دکھاتی ہے اور اب کہ یہ غلطی کسی سیاستدان نے نہیں بلکہ ملک کے سب سے بڑے انصاف کے ادارے سے سرزد ہوئی ہے ۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی فوجی کا کورٹ مارشل کرنے کے لئے کسی تھانیدار کو تعینات کر دیا جائے یا کسی بکری چوری کے ملزم کو فوجی عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے ۔
بطور ادارہ فوج کے ملک و قوم کے ساتھ اخلاص پر مجھے نہ کوئی شک ہے اور نہ کوئی بدگمانی لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ سیاسی یا قانونی معاملات میں الجھا کر ہم اپنی ہی فوج کو غیر پیشہ ورانہ معاملات میں کیوں الجھانا چاہتے ہیں ۔

وزیراعظم عدالتی فیصلے کو تسلیم کرنے کا ببانگ دہل اعلان کر چکے ہیں جس پر وہ تادم تحریر قائم بھی ہیں لیکن جو دولت زیر بحث ہے اس کا کھرا تلاش کرنے کے لئے وزیراعظم کے والدمحترم کے مالی معاملات کی پڑتال کے ساتھ ساتھ شریف فیملی کا انیس سو ننانوے سے لے کر دوہزار آٹھ تک کا مالیاتی ریکارڈ سامنے آنا ضروری ہے ۔ذرا سوچئے !اگر وزیراعظم جے آئی ٹی میں بیٹھے کسی سوال کے جواب میں یہ فرما دیں کہ جناب انیس سو ننانوے میں مارشل لا کے ہنگام ان کے گھر سے جور یکارڈ اٹھایا گیا اس کی برآمدگی کے لئے ذرا مشرف کو تو حاضر کیجئے تو صورتحال کیا ہو گی ؟۔

بہر حال جے آئی ٹی کا سامنا کرنے کے لئے وزیراعظم اور ان کے صاحبزادے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں یہ تو وہی جانیں لیکن میر ی CALCULATIONکے مطابق جے آئی ٹی کی تحقیقات سے بھی کچھ ایسا نیا سامنے آنے والا نہیں کہ چشم زدن میں میاں نواز شریف گھر چلے جائیں اور عمران خان وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہو جائیں ۔ یہ جو ساٹھ دن کی مہلت والی بات کی جارہی ہے حقیقت اس کے برعکس ہے ۔

جے آئی ٹی اول تو اس پیچیدہ معاملے کی تحقیقات ساٹھ دن میں مکمل نہ کر پائے گی اور اگر کر بھی لے تو معاملہ پھر عدالت میں جائے گا اور عدالت میں ایک بار پھر شواہد اور گواہیوں کا معاملہ شروع ہو جائے گا ، سوخاطر جمع رکھیے کہ جمہور کا سیاسی نظام تلپٹ کرنا اب اتنا بھی آسان نہیں رہا۔
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تواے این پی نے وزیراعظم سے استعفے کے مطالبے کی مخالفت کر تے ہوئے قدرے سنجیدہ اور اصولی موقف اختیار کیا ہے ۔

جماعت اسلامی تحریک انصاف کا دم چھلہ بن چکی اور اس حیثیت میں اس کی اپنی کوئی رائے نہیں ۔ پیپلزپارٹی جو آج بھی اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کو ایک غلط فیصلے سے تعبیر کرتی ہے معلوم نہیں کس منہ سے عدالتی فیصلے کے تناظر میں میاں نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ ہاں !اعتزاز احسن کا مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کو تسلیم نہ کرنے کا بیان بہت دلچسپ ہے ، انہیں شائد یہ فکر ہے کہ آج اگر موجودہ وزیراعظم کے خلاف جے آئی ٹی بن گئی ہے تو کل کو سابق صدر یا وزیراعظم کے خلاف بھی جے آئی ٹی نہ بن جائے کیونکہ عزیر بلوچ کی جان اب ان اداروں کے قبضے میں ہے جو جے آئی ٹی کا حصہ ہیں اور جن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا نعرہ لگا کر زرداری صاحب غائب ہو گئے تھے ۔


تحریک انصاف کے سربراہ نے تو خود کواور اپنی ساری جماعت کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے ۔ بارہا انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا بیان دیا ،پھر عدالت کے فیصلے کے بعدجوش سے بھرے عارف علوی ”جھاڑوپھر گیا ، جھاڑو پھر گیا “ کی گردان کرتے عدالت سے برآمد ہوئے ، رات کو بنی گالہ میں مٹھائیوں کا دور چلا لیکن اگلا دن چڑھا تو عمران خان کالی پٹی باندھ کر قومی اسمبلی کے اجلاس میں جا پہنچے ۔

اب کہتے ہیں وزیراعظم کے ماتحت کیسے ان کے خلاف تحقیقات کریں گے ۔ عمران خان نے ایک بار پھر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ کسی بھی معاملے میں یوٹرن لے لینا ان کی عادت ثانیا بن چکی ہے ۔ کرسی کے شوق میں لگتا ہے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں لیکن کیا کیجئے کہ وزارت عظمیٰ کا راستہ انتخابات سے ہو کر جاتا ہے جو میر ی دانست میں تو اپنے مقررہ وقت پر دو ہزاراٹھار ہ میں ہی ہوں گے ۔


عمران خان سمیت سب کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ سیاسی معاملات کے فیصلے سیاسی میدان میں ہی ہو سکتے ہیں ۔ جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے حکومت ملنے والی ہوتی تو آج عمران خان وزیراعظم ہوتے ۔ڈی چوک میں دھرنے کے دوران وہ روزانہ جس ایمپائر کا نام لے لے کر دہائی دیتے تھے اس نے تب بھی انہیں سمجھا دیا تھا کہ کھیل قاعدے اور قانون کے اند ر ہوگا اور آج بھی اس کا موقف یہی ہے کہ ”فوج جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے“۔

اس لئے سڑکوں سے عدالت، عدالت سے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے پھر سڑکوں پرجانے اور میاں نواز شریف کو چور ثابت کرنے کی بجائے اپنی قوت عوام کی حالت بہتربنانے کے منصوبوں پر صرف کریں ۔ اور کچھ نہیں تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ مکالمے کے تھوڑے کہے کو ہی بہت سمجھیں ۔وقت بہت کم ہے اور مقابلہ سخت ، عوام کو اس بات سے دل چسپی ہے کہ ان کی حالت سنوارنے کے لئے کو ن کیا کر رہا ہے ۔کون کس کی اولاد ہے اور کس کے بیٹوں نے کتنی دولت کمائی اس سے عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے ۔جہاں تک بات اخلاقیات کی ہے تو یاد رکھئے ”پہلا پتھر وہ مارے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :