انوکھی خواہش،انوکھا حل

جمعرات 27 اپریل 2017

Danish Hussain

دانش حسین

زندگی کی اس دوڑمیں، میں نے تو بس اتنا ہی سیکھا ہے کہ انسان جس خواہش کے پیچھے جتنا بھاگتا ہے وہ خواہش اتراتے ہوئے آگے کی جانب دوڑ لگادیتی ہے
اور جس کی جستجو ہی نہ ہو وہ جھٹ سے سامنے آجاتی ہے یا پھر بن بلائے مہمان کی طرح زندگی کے کیواڑ پر دستک دیتی ہے
ایسی ہی ایک خواہش شادی کی ہے ۔جس کوخواہش ہوتی ہے اسکی ہوتی نہیں۔۔ اور جس کی شادی ہوتی ہے اسے خواہش ہوتی نہیں۔

میرے حلقہِ احباب میں ایسے بہت سے مردِ بہران ہیں جو کبھی شادی کے نام سے بھی بھاگتے تھے اور شادی شدہ لوگوں کا مذاق اڑاتے تھےلیکن آج گرم پانی سے بچوں کے فیڈر دھو رہے ہوتے ہیں(جو کہ یقینناَبری بات نہیں)۔ خیر وقت صدا ایک سا تو نہیں رہتا،اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔میرے احباب میں زیادہ تر شادی شدہ ہی ہیں الحمداللہ،جن میں سے اکثریت شادی زدہ کی ہے۔

(جاری ہے)

جن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے آثار قدیمہ کو دیکھ کر اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ یہاں پر کبھی زندگی تھی، اسی طرح ان شادی زدہ لوگوں کو دیکھ جہاں ترس آتا ہے وہیں انکی حالتِ زار دیکھ کر یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی شخصیت کے اندر خوشی اور آزادی کے آثار کتنے قدیم ہیں۔لیکن قصور محض اس سوچ کا ہے جوخود ساختہ ہےاور انسان خود سے ہی اپنے آپ کو اس بات پر قائل کر لیتا ہے کہ وہ اسیر ہے حالانکہ وہ خود ساختہ اسیری میں مبتلاہوتا ہے جو کہ وہ اپنے ہی دماغ میں کاٹ رہا ہوتا ہے
جبکہ دوسرا وہ طبقہ ہے جو تب سے شادی کی خواہش رکھتا ہےجب انکی شادی کی عمر ہی نہیں ہوتی یا پھر یوں کہہ لیجیئے کہ نو عمر ہوتے ہیں۔

عمومی طور پر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھر میں سب سے چھوٹے ہوتے ہیں اور وہ بڑے بہن بھائیوں اور چاچو ماموں کی شادیوں میں کام کر کر کے تنگ آچکے ہوتے ہیں اور اس انتظار میں ہوتے کہ آخر کب بدلہ لینے کا وقت آئے گا۔ لیکن گھر والوں کی نظروں میں تو چھوٹا ہمیشہ چھوٹا ہی رہتا ہےوہ کیا جانیں کہ اس کی کیا خواہشات ہیں۔ اور بعض اوقات یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر چھوٹے کی شادی کر دی گئی تو پھر تندور سے روٹیاں کون لائے گا۔

لیکن وہ بیچارہ اسی تندور کا کوئلہ بن کر رہ جاتا ہے، لیکن کچھ لوگوں کی ان میں سے کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی پھر بھی انکی شادی نہیں ہوتی ایسی ہی مثال میرے ایک دوست کی ہےجو میرے بچپن کے دوست ہیں جسے ہم عام فہم میں "چڈی فرینڈ" بھی کہتے ہیں۔موصوف کو بھی شادی کا بے حد شوق ہےلیکن شاید انکی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے مکھی سارا جسم چھوڑ کر ناک پر بیٹھ جائے ، ٹھیک اسی طرح سارا جہاں چھوڑ کہ بس وہی کنوارے رہ گئے کچھ ایسا ہی گماں ہوتا ہے۔

حالانکہ وہ ماشاءاللہ ڈاکٹر ہیں بہت اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں خوش شکل اور خوش گلو ہیں اورسب سے حیران کن بات تو یہ ہے کہ شریف ہیں حالانکہ شرافت توہمارے معاشرے میں معدوم ہوچکی ہے،شاید جن سے انکی شادی ہونا تھی وہ اس دنیا میں آنا ہی بھول گئیں یا پھر یہ اتنی جلدی میں آئے کہ شریکِ حیات کے اندراج سے پہلے ہی آگئے۔ اب تو مجھے لگتا ہے کہ انکوعجائب گھر رکھوانا پڑے گا۔

ایک بار جب میری ان سے کافی عرصے بعد ملاقات ہوئی تو میں نے غیردانستہ طور پر ان سے وہی سوال پوچھ لیا کہ جناب کب ہمیں آپ کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہو رہا ہے؟ گویا میں نے انکے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ سوال اور جواب کے درمیان غیرمعمولی خاموشی کے بعد مایوسی بھرا جواب آیا کہ بھئی میری قسمت میں تو لڑکی ہی نہیں،دوست ہونے کے ناطے میں نے بھی فورا" اس مسئلے کا حل داغ دیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ڈاکٹر صاحب سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے۔ اگر لڑکی قسمت میں نہیں تو کیا ہوا کوئی لڑکا ڈھونڈیں، جنس تبدیل کروائیں اور شادی کرلیں۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :