”وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دینگے“

جمعہ 28 اپریل 2017

Azhar Thiraj

اظہر تھراج

پاکستان کی سیاست آج کل مزاح سے بھرپور ہوچکی ہے،اب ہم کو رات گیارہ بجے ٹی وی چینلز پر نشر ہونیوالے مزاحیہ پروگرامات کا انتظار ہی نہیں کرنا پڑتا،دن کو ہی بڑے بڑے لطیفے سننے کو مل جاتے ہیں،2017ء کا سب سے بڑا لطیفہ پانامہ کیس اور پھر اس کا فیصلہ اور فیصلے کے بعد تمام فریقین کا مٹھائیاں تقسیم کرنا ہے،تمام فریقین اپنی اپنی فتح قرار دے کر ایک دوسرے کا منہ میٹھا کررہے ہیں،ٹھہریے اس سے بڑا مذاق کیا ہوگا کہ آصف زرداری صاحب نے مالا کنڈ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں لٹیروں کے پیٹ سے پیسا نکالوں گا اور ان کی جماعت کے پرانے جیالے غلام مصطفےٰ کھر اب عمران خان کے ساتھ مل کر ”نیا پاکستان“بنائیں گے،اللہ پرانے پاکستان پر رحم کرے۔


پانامہ ،پانامہ،پانامہ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو ملک کے بچے بچے کو ازبر ہوچکا ہے،رکشے،ٹیکسی یا کسی پبلک سواری پر سفر کریں تو وہاں ہر عمر کے لوگ یہی بات کرتے نظر آئیں گے،کسی سیلون یا سڑک کنارے لگی نائی کی دکان،موچی یا قصائی کے پھٹے یا کسی چائے کے کھوکھے پر بیٹھیں ضرورت کی چیز کے ساتھ ساتھ دانشور بھی ملیں گے،کوئی ”گو نواز گو“کا حامی ملے گا تو کوئی وزیر اعظم کا لور،ان میں سے کوئی فیصلہ دینے والوں کوشاباش تو کوئی کوسنے دیتا ملے گا،وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگنے والے بھی بہت ہیں اور دفاع کرنے والے بھی اسی تعداد میں موجود ہیں،ان استعفیٰ مانگنے والوں کے ایک لیڈر سے لاہور کے جناح باغ کاسمو کلب میں ملاقات ہوئی ،وہ صاحب کہہ رہے تھے کہ ”وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دینگے“ وجہ پوچھی تو بتایا گیا ایک تو نواز شریف بہت ڈھیٹ ہیں ان کو جب تک دھکے دے کر وزیر اعظم ہاؤس سے نہ نکالا گیا تو نہیں نکلیں گے،ایسا یہ پہلے بھی کرچکے ہیں،1999ء میں جیل جانا پسند کیا لیکن پی ایم ہاؤس نہیں چھوڑا۔

(جاری ہے)

دوسری منطق یہ تھی کہ اپوزیشن بھی نہیں چاہتی کے وزیر اعظم استعفیٰ دے اور گھرجائے(یاد رہے اس اپوزیشن میں تحریک انصاف،پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی،ق لیگ،شیخ رشید اور دیگر پریشر گروپ شامل ہیں)جب پوچھا گیا کہ یہ جلسے،جلوس اور ریلیاں سب کیوں ؟ ماجرا کیا ہے؟جواب ملا کہ یہ سب2018ء کے انتخابات کی تیاری ہے،جب ان کے جواب سے تسلی نہ ہوئی تو پاکستان کے جمہوری اور غیر جمہوری نظام کی تاریخ کھنگالنے کی کوشش کی تو سوائے ایک آدھ کے کسی نے استعفیٰ نہیں دیا سب کو ہی دھکے پڑے تب ہی نکلے ہیں،عزت سے جانا ہماری روایت ہی نہیں رہی ہے۔

۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کیا ہوا اور بعد میں ذمہ داروں کیخلاف کیا ہوا یہ تو کل کی بات ہے،رانا ثناء اللہ چند دن حکومت سے باہر رہے عدت گزرنے کے بعد پھر ان ہوگئے، رانا مشہود احمد خان کی ایک وڈیو سامنے آئی جس میں وہ رشوت لے رہے ہیں اور اسی دوران 20 ارب روپے کے ایک سکینڈل میں ملوث ہونے کے شبہے میں نیب نے رانا صاحب کے خلاف چھان بین شروع کردی تو وزیرِ اعلی شہباز شریف اور پارٹی کے‘اخلاقی دباؤ’کا احترام کرتے ہوئے رانا مشہود نے امورِ نوجوانان اور سیاحت کا قلمدان تو چھوڑ دیا مگر تعلیم کی وزارت پھر بھی رکھی۔

کچھ عرصے بعد رانا صاحب کو چھان بین کے نتیجے میں کلین چٹ مل گئی اورایک بار پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے،کس کس کی بات کریں کس کس کا قصہ بیان کریں ،پاکستان میں ایسی جمہوریت ہے یہاں استعفے لینے پڑتے ہیں دیے نہیں جاتے۔
اب ذرا بات کرتے ہیں جے آئی ٹی کی تکنیکی خرابی کی جس نے وزیر اعظم کے بچوں کے بیرون ملک اثاثوں کی تحقیقات کرکے سپریم کورٹ کو پیش کرنی ہیں،اسی جے آئی ٹی نے تصدیق کی مہر ثابت کرنی ہے کہ وزیر اعظم کتنے ایماندار اور کتنے بدعنوان یا چور ہیں،خرابی یہ ہے کہ جے آئی ٹی شریف خاندان کے اثاثوں کی چھان بین کے دوران او ای سی ڈی کا چینل استعمال نہیں کرسکے گی،کنونشن آف میوچل ایڈمنسٹریٹو ان ٹیکس کے تحت پاکستان کے کسی شہری کے اثاثوں کے بارے میں معلومات نہیں مل سکیں گی،109ممالک پر مشتمل معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم کا پاکستان اسی مہینے رسمی طور پر رکن بنا ہے،پاکستان اس تنظیم کا تاحال آخری ممبر ہے،کنونشن کے تحت پاکستان کے کسی بھی شہر ی کے اثاثوں کے بارے میں ستمبر2018ء تک کوئی معلومات مل سکیں گی،وزیر اعظم کے خاندان کے افراد کی کمپنیوں کا تعلق برٹش ورجن آئی لینڈ سے ہے،اس ٹیکس ہیونز سے پاکستان کا کوئی ادارہ ستمبر 2018ء تک معلومات نہیں لے سکے گا،رہی بات قطری خط کی تو اسے عدالت پہلے ہی مسترد کرچکی ہے،منی ٹریل کی تصدیق اسی صورت ہوسکتی جب ٹیکس ہیونز کی طرف سے تعاون ملے گا،دوسری تکنیکی خرابی جے آئی ٹی کا دورانیہ ہے جو صرف ساٹھ دن ہے،اس دورانیے میں تو بمشکل خطوط پہنچیں گے معلومات کہاں ملیں گی،عدالت کا فیصلہ آئے دس دن گزر گئے ہیں اور ابھی تک جے آئی ٹی نہیں بنی تو اس کی رپورٹ کہاں جلدی آنے والی ہے،عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے بس بھاگتے ہی رہیں منزل نہ ملے۔

ِ
وزیر اعظم یا اس کے خاندان کا اگلے انتخابات تک جے آئی ٹی کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور اپوزیشن کچھ بگاڑنے کی کوشش نہیں کرے گی،اپوزیشن جو مرضی تقریریں کرلے،عوام نعرے لگائے یا تبصرے کرے وزیر اعظم نہیں جانیوالے ہیں،بہتر ہے کہ جلسوں میں جا کر کھانے شانے کھائے اور سوجائے کیونکہ آنیوالے وقت کے تیور بتا رہے ہیں کہ”نیا پاکستان“بننے میں ابھی دیر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :