میں کیا کروں !

پیر 24 اپریل 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اس کی پریشانی بجا تھی اور اس کی یہ پریشانی اسے میرے پاس لے آئی تھی ۔ یہ نوجوان ماسٹر آف فلاسفی تھا اور آنے والے خزاں سمسٹر میں اس نے پی ایچ ڈی میں داخلہ لینا تھا لیکن یہ نوجوان پی ایچ ڈی سے پہلے ہی مایوس ہو گیا تھا اور اس کی مایوسی بجا تھی ۔ وہ نوجوان میرے سامنے بیٹھا تھا اورمیں اس کے چہرے اور اس کے سراپا سے ٹپکنے والے دکھ اور درد کو محسوس کر سکتا تھا ۔

جب ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو ہماری زبان صرف پچیس فیصد تک ہمارا ساتھ دیتی ہے باقی پچھتر فیصد ابلاغ ہماری باڈی لینگوئج کر رہی ہوتی ہے۔ اکیسویں صدی میں باڈی لینگوئج باقاعدہ فن کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور آج بڑ ے بڑے فیصلے صرف باڈی لینگوئج کی بنیاد پر کیئے جاتے ہیں ۔ آپ اگرکسی ملٹی نیشنل کمپنی ،کسی بینک ، میڈیا فرم ،بیورو کریسی ،رئیل اسٹیٹ یا کسی کمرشل ادارے میں جاب کے لیئے اپلائی کرتے ہیں تو انٹرویو کے دوران آپ کی تعلیم ،تجربے ،قابلیت اور صلاحیت سے ذیادہ آپ کی پرسنیلٹی اور آپ کی باڈی لینگوئج کو دیکھا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

انٹر ویو کے دوران اگر آپ اپنا اعتماد بحال رکھتے ہیں ،قدم اٹھا کر چلتے ہیں ،کرسی پر اطمینان سے بیٹھتے ہیں ،اپنی سانس بحال رکھتے ہیں ،اپنے ہونٹوں پربار بار زبان نہیں پھیرتے ،کرسی پر بیٹھ کر دائیں بائیں نہیں دیکھتے ،انگلیاں نہیں چٹخاتے اور میزبان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیتے ہیں تو آپ کی کامیابی کے چانس بڑھ جاتے ہیں اور اگر انٹر ویو روم میں داخل ہوتے ہی آپ کی چال میں فرق آ جاتا ہے ،آپ کا اعتماد خطا ہو جاتا ہے ،آپ کی سانس پھول جاتی ہے ،آپ انگلیاں چٹخا رہے ہیں ،گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے آپ کے ہاتھ کپکپا رہے ہیں اور آپ میز پر پانی گرا دیتے ہیں یا آپ کی نظریں میزبان کی آنکھوں کا سامنا نہیں کر پا رہیں تو آپ خاموشی سے واپس گھر تشریف لے آئیں ۔

ہم جب کسی سے ملتے ہیں تو اس کے لیئے پہلے چار سیکنڈ انتہائی اہم ہوتے ہیں اور ان چار سیکنڈ میں مخاطب ہمارے بارے میں رائے قائم کر لیتا ہے ۔انسانی جسم کے کچھ مخصوص حالات اور کیفیات ہوتی ہیں اور یہ کیفیات اور اشارے ہمیں مخاطب کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔مثلا گفتگو کے دوران اگرآپ کا مخاطب سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہے تو یہ اس کی دفاعی پوزیشن کو ظاہر کرتا ہے اور اگر وہ سینے پر ہاتھ باندھے اپنا سارا وزن کبھی ایک ٹانگ اور کبھی دوسری ٹانگ پر ڈالتا ہے تو مطلب ہے وہ بیزار کھڑا ہے اور آپ کی گفتگونہیں سننا چا ہتا ،گفتگو کے دوران اگر آپ کا مخاطب آپ سے نظریں چرا رہا ہے تو یا وہ جھوٹ بول رہا ہے یا آپ سے کسی بات پر شرمندہ ہے یا اس میں خود اعتمادی کی کمی ہے۔

میٹنگ کے دوران اگر کو ئی ممبر خاموش بیٹھا ہے اور اس کی آنکھیں باری باری سب کے چہروں کی نگرانی کر رہی ہیں تو وہ ڈکٹیٹر مزاج ہے اور اپنی مرضی سب پر مسلط کرنا چاہتا ہے ،اگر کوئی بات بات پر رونا شروع کر دیتا ہے تو وہ پیار اور محبت کا بھو کا ہے ،سلام کے دوران اوپر والا ہاتھ ملکیت اور قبضے کی علامت ہے ،دونوں ہاتھوں سے سلام عزت اور احترام کی علامت ہے ۔

خوشی غمی ،سچ جھوٹ ،تکبر عاجزی ،خوف گھبراہٹ، شک اور یقین کی اپنی اپنی باڈی لینگوئج ہوتی ہے اور ہم خود کو چھپانے کی لاکھ کوشش کریں لیکن ہماری باڈی لینگوئج سب کھول کر مخاطب کے سامنے رکھ دیتی ہے ۔
ہم واپس آتے ہیں ا س نوجوان کی طرف ، نوجوان چہرے مہرے سے کافی سنجیدہ اور باشعور دکھائی دیتا تھا اور اس کی آنکھوں میں علم کی چمک تھی، میں نے اس سے تفصیل چاہی تو اس نے موبائل میز پر رکھا اور میری طرف متوجہ ہو کر بولا” سر میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں پی ایچ ڈی نہیں کروں گا اور اب واپس اپنے گاوٴں چلا جاوٴں گا “ مجھے اس باشعور نوجوان سے اس فکر کی توقع نہیں تھی ، میں نے وجہ پوچھی تو وہ بولا ” سر میں اور میرا کزن بچپن میں اکٹھے پڑھتے تھے ، میں کلاس میں ہمیشہ اول آتا تھا لیکن میرا یہ کزن بمشکل پاس ہوتا تھا ، میٹرک تک ہم نے اکھٹے پڑھا لیکن میٹرک کے بعد وہ ہیومینیٹیز اور میں سائنس کی طرف چلا گیا ، اس نے سادہ ایف اے کیااور میں ایف ایس سی میں اے پلس گریڈ کے ساتھ کامیاب ہوا ، ایف کے بعد اس نے تعلیم ادھوری چھوڑی اور اپنے چچا کے ساتھ انڈسٹریل ایریا میں انٹرنشپ شروع کر دی اور میں گریجویشن کی تعلیم کے لیے اسلام آباد آ گیا ، میں ہر کلاس میں اے گریڈ حاصل کرتا رہااور ابھی ایم فل میں بھی میں نے 3.8سی جی پی اے حاصل کیا لیکن مجھے اس کا صلہ کیا ملا ، میں چودھویں اسکیل کی ایک ملازمت کرتا ہوں اور میری تنخواہ صرف تیس ہزار ہے جبکہ میرا وہ کزن صرف ایف اے پاس ہے اور مختلف فیکٹریوں میں جا کر ان کی مشینری ٹھیک کرتا ہے اور اس کی مہینے کی بچت لاکھوں روپے ہے ، میں سوچتا ہوں کہ مجھ سے اچھا تو میرا کزن ہے جو کند ذہن بھی تھا ، نالائق اور کام چور بھی لیکن آج وہ زندگی کی دوڑ میں مجھے سے کہیں آگے ہے اور میں اپنی زندگی کا بہترین حصہ پڑھائی پر خرچ کرنے کے باجودہ تقریبا بے روز گار ہوں ، اس لیے میں نے سوچ لیا ہے کہ مجھے پڑھائی پراب مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

“وہ بات کر کے خاموش ہوا تو میں نے عرض کیا ”آپ علم کو دولت کے ترازو میں کیوں ناپتے ہو ، ساری دنیا کی دولت بھی اکٹھی کرلی جائے تووہ علم کی عین کا مقابلہ نہیں کر سکتی ، انسان کی عزت اور قدر کا اندازہ دولت سے نہیں بلکہ سوشل اسٹیٹس سے ہوتا ہے کہ معاشرہ اس فرد کو کیا مقام دیتا ہے ، اگر دیکھا جائے تو سب سے ذیادہ دولت ہمارے سیاستدانوں کے پاس ہے لیکن ان بیچاروں کا سوشل اسٹیٹس کیا ہے یہ تم بھی جانتے ہو ، دولت تو گامے اور شیدے کے پاس بھی ہوتی ہے، تم مجھے بتاوٴ سوسائٹی اور رشتہ داروں میں جو ریسپکٹ اور عزت تمہیں ملتی ہے وہ تمہارے کزن کو بھی ملتی ہے ؟ مجھے بتاوٴ تم جو علم کا نور اور روشنی پھیلا رہے ہو اور تمہارے اسٹوڈنٹس میں سے کل کوئی ڈاکٹر ، کوئی انجینئر اور وکیل یا صحافی بنے گا تو تمہارے لیے تو یہی اعزاز بہت ہے، تم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہو جس نے مستقبل میں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تمہیں تو اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے ۔

“ میں نے سانس لینے کے بعد دوبارہ عرض کیا ” انسانی تاریخ میں آج جتنے بھی کردار اور نام زندہ ہیں وہ سب صاحب علم تھے ، آپ مجھے تاریخ میں کسی دولت والے کردار یا نام کے بارے میں بتا سکتے ہو ؟ “ اس کا جواب نفی میں تھا ، میں نے عرض کیا ” کامیابی اور دولت دو ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں انسان جلد بازی کر جاتا ہے جبکہ یہ دونوں چیزیں انسان کو اپنے وقت پر ملتی ہیں ، کسی کے حق میں دولت اور کامیابی جلدی لکھ دی جاتی ہیں اور کسی کے لیے تاخیر کے ساتھ ، اگر تمہارے کزن کو یہ دونوں چیزیں پہلے مل گئیں تو تمہیں پریشان نہیں ہونا چاہے ، تمہیں اللہ نے جو دیا ہے اس پر فخر بصورت شکر کرو اور دولت اور کامیابی کے لیے اپنے وقت کا انتظار کرو ، علم کا موازنہ دولت کے ساتھ نہیں بلکہ عمل کے ساتھ کرو ، علم علم ہے اور اس نے سقراط ، ارسطو، ہیروڈوٹس، عبد اللہ بن مسعود، ابوہریرہ، ابو حنیفہ ، امام غزالی ،ابن خلدون، شاہ ولی اللہ،انور شاہ کشمیری، آئن اسٹائن ، میڈم کیوری اور نیوٹن کے ناموں کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے جبکہ دولت فرعون ، قارون اور شداد کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھی “ نوجوان کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی شاید اس نے اپنا فیصلہ بدل لیا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :