محکمہ صحت کے زوال کا نوحہ

پیر 24 اپریل 2017

Sahibzada Asif Raza Miana

صاحبزادہ آصف رضا میانہ

اگر آپ متمول اور مہذب ملکوں معاشروں اور غیرمہذب اور زوال پذیر ملکوں اور معاشروں کا موازنہ کریں تو امن وامان اور معاشی خوشحالی کے بعد جو چیز آپ کو سر فہرست نظرآئے گی وہ صحت اور علاج معالجے کا بہترین ، جدید اور ہرشہری کو میسر نظام ہوگا ،اگر صحت اور علاج معالجے کا بہتر نظام کسی ملک کی ترجیحات میں شامل نہیں تو ان بیمار معاشرے کا ترقی کی دوڑ میں حصہ لینا تو درکنار تصور کرنا بھی حماقت ہے ۔

صحت کا شعبہ اگر کسی ملک میں فعال منظم طریقے سے کام کررہا ہے تو ا س شعبے سے بڑی رحمت اس معاشرے کے لوگوں کے لئے نہیں ہوسکتی اور اگر یہی شعبہ لوگوں کی تکالیف دور کرنے کی بجائے کمرشلزم جیسے بگاڑ کا شکار ہوجائے تو اسی صحت کے شعبے سے بڑی زحمت اور کوئی نہیں ہوسکتی ۔

(جاری ہے)

صحت کا شعبہ بیک وقت رحمت کیسے ہوسکتا ہے یہ فرق اور حقیقت جاننے کیلئے آپ دل جیت سنگھو اور زہرہ بی بی کے دو واقعات سے ہی اندازہ لگالیں ۔


دلجیت سنگھ بھارتی پنجاب میں پیدا ہوئے مگر گاؤں اور گھر میں پھیلی غربت سے لڑنے کیلئے دوسرے پنجابی نوجوانوں کی طرح جان جوکھوں میں ڈال کر یورپ کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔ بھارت سے لبنان پھر وہاں سے یونان اور وسطی یورپ سے فرانس اور وہاں سے اپنے خوابوں کی سرزمین برطانیہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔ ان پڑھ اور غیر قانونی طور پر مقیم دلجیت سنگھ کیلئے مزدوری کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔

بھوک پیاس سردی گرمی سے بے نیاز دن رات کام کرتے اس پنجابی نوجوان کو ایک دن کام کرتے چکر آئے اور وہ گرکربے ہوش ہوگیا ، لندن کے ہیمرستمھ اسپتال میں داخل ہوکر اس غیر قانونی قیام کے دوران کام بھی کررہا تھا ۔ برطانیہ میں طبی امداد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس برطانیہ کا ویزا ہوا اور آپ کسی بھی قریبی جنرل ہرکٹس (جی پی ) میں رجسٹرڈ بھی ہوں ۔

دلجیت سنگھ امیگریشن اور نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) برطانیہ کے محکمہ صحت کے کسی بھی قانون اور کسی بھی معیار پرپورا نہیں اترتا تھا ۔ اب اصولاََ دلجیت سنگھ کو اسپتال سے واپس بھیج دیا جاتا مگر اس کی خراب صحت اس غیر انسان رویے کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی اس لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسے داخل کرلیاگیا اور اس کے ٹیسٹ کے بعد پتا چلا کہ دلجیت شوگر کے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے اور اگر اس کا باقاعدہ علاج اور دیکھ بھال نہ کی گئی تو شوگر کار گلا حملہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے ۔

برطانیہ کے قانون کے مطابق اگر کوئی شخص کسی مستقل بیماری میں مبتلا ہو جائے تو نہ صرف اس کا معائنہ مفت ہوتا ہے بلکہ اس کی اس بیماری سے متعلقہ یاکوئی بھی دیگر بیماری سے متعلقہ تمام ادویات اُسے NHS کی طرف سے مفت فراہم کی جاتی ہیں ۔ یوں NHS نے ایک غیرقانونی داخل ہونے والے غیر ملکی ، غیر قانوی طریقے سے کام کرنے والے اور کوئی بھی ٹیکس نہ ادا کرنے والے تیسرے ملک کے شہری کو صرف اور صرف انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر نہ صرف رجسٹرکرلیا بلکہ اُس کی تاحیات ادویات مفت فراہم کرنے کی ضمانت دے دی ۔


یہ رویہ ایک مہذب ملک کا ایک غیرملکی اور غیرقانونی طور پر مقیم شخص کے ساتھ تھا جس نے اس ملک کے اتنے اہم قانون توڑتے تھے مگر ایک بیمار اور دو چار انسان کی مجبوری نے ان کو ان قانون شکنیوں کو فراموش کرکے اس کی جان بچانے پر مجبور کردیا ۔
اب آپ اپنے ہی ملک کے قانونی شہری کے ساتھ اُسی ملک کے محکمہ ء صحت کا برتاؤ دیکھیں ۔ قصور کے ایک نواحی گاؤں سے زہرہ بی بی نامی ساٹھ سالہ بزرگ خاتون کو سیلنے میں تکلیف ہوئی اور انہیں قصور سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور گیا ، ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹرز نے گردے کے مسئلے کی تشخیص کی اور مریضہ کو سروسز ہسپتال پہچانے کو کہا ، سروسز ہسپتال میں مریضہ کیلئے کوئی بیڈ دستیاب نہیں تھا ڈاکٹرز نے اسٹریچر پر ہی معائنہ کیا اور بیڈ نہ ہونے کا کہہ کر جناح اسپتال ریفرکردیا جناح اسپتال میں بھی بیڈدستیاب نہیں تھا اور ڈاکٹرز انہیں بیڈ خالی ہونے تک انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔

صبح دس بجے درد کی شدت میں مبتلا ساٹھ سالہ زہرہ بی بی زندگی اور موت سے لڑتی رہیں مگر جنوری کی کڑکڑائی سردی میں رات تین بجے سے صبح چھ بجے تک جناض اسپتال کے ٹھنڈے یخ فرش پر پڑے یہ ساٹھ سالہ بزرگ خاتون زندگی کی بازی ہار گئیں اور ہمارے بے حس نظام اور محکمہ صحت پر اپنی موت اور بے جس رویہ کا بوجھ چھوڑ دگئیں ۔ ایسے ان گنت واقعات روزانہ رونما ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ کوئی واقعہ میڈیا کے ذریعے ہمارے علم میں آجاتا ہے وگرنا کئی ایسے بے حسی اور بے دردی کے واقعات وقت کے کوڑے دان کاحصہ بن جاتے ہیں اُدھر مہذب ملکوں میں انسانی ہمدردی کے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ جن کا ہم اپنے ہاں تصور بھی نہیں کر سکتے ۔

توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ رویوں میں اس قدر وہ مسیحا ہوسکتے ہیں اورلاچار سمجھ کر علاج کیوں نہیں کرسکتے ۔ صرف سرحدیں بدل جانے سے رویے اس قدر تبدیل کیسے ہوسکتے ہیں انسانی مزاج ، فطرت اور DNA تووہی رہتا ہے تو پھرایک طرف ایسی بے حسی اور سنگدلی کیوں اور دوسری طرف اس قدر انسانی ہمدردی کیوں تو اس کا جواب ہے مضبوط مئوثر اور فعال ادارے ہمارا صحت کا شعبہ جس قدر کمرشل اور کاروباری ہوچکا ہے جب تک اس کی اصلاح نہیں ہوتی بے حسی بے دردی کے اس سے بھی بھیانک واقعات رونما ہوتے رہیں گے ۔

دراصل صحت کاشعبہ ہمارے ہاں ایک بھرپور بزنس کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ چونکہ ہمارے ہاں صحت اور علاج معالجہ کے بہتر نظام حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں اس لئے یہ شعبہ ہمارے ہاں بہترین کاروبا بن گیا ہے جہاں ریٹ آف ایٹرن سب سے زیادہ اور فوری اور نقدہے ۔ سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹرز نہیں ڈاکٹرز ہیں تو دوائیں نہیں دوائیں ہیں تو ٹیسٹ نہیں ٹیسٹ ہیں تو رے ای سی جی ، سی ٹی سکین اور ڈایا لسز کی سہولت نہیں ، پرائیوٹ جائیں تو ہر ڈاکٹر کسی نہ کسی لیبارٹریی کے پے رول پر ہے جہاں پر مریض کے ریفر کرنے پر اس کا کمیشن ملتا ہے دواؤں کی بات کریں تو ہر ڈاکٹر کسی نہ کسی فارم کمپنی کانمائندہ ہے جو اُسی کمپنی کی دوائیں ہی لکھتا ہے اور ہر گولی کے بدلے اُسے کمیشن ملتا ہے جتنے مریض زیادہ اتنا کمیشن زیادہ یہ فارحاکمپنیاں ڈاکٹرز کے اسپتال بنانے کے لئے فنڈنگ کرتی ہیں ۔


اسپتالوں میں اے سی ،ڈاکٹرز کے ملک اور بیرون ملک تفریحی دورے اور تو اور یہ فارحا کمپنیاں اپنے یہ رول پر کام کرنے والے ڈاکٹرز کے حج اور عمرے بھی اسپانسرکرتی ہیں ۔ اور یہ سب اخراجات دراصل آپ اور میں ادا کررہے ہوتے ہیں اور حکومت آنکھیں بند کئے یہ سب دیکھ رہی ہوتی ہے نقلی اور عطائی ڈاکٹرز سے لٹ جانے کا کیا رونا کرنا ہم تو پرروز اتنے زیادہ پڑھے لکھے اور کوالیفائڈ ڈاکٹرز سے لٹتے ہین کہ عطائیوں سے ہمدردی ہونے لگتی ہے کہ یہ بے چارے جاہل ان پڑھ اور غریب لوگ ہیں ان کی کیا شکایت کرنی ۔

سب ڈاکٹرز بے حس اور بے درد نہیں اور نہ ہی کمرشل ہیں مگر مجھے محکمہ پنجاب میں گزیٹڈ پوسٹ پر دوسال کام کرنے کا موقع ملو تو اس شعبہ کی زبوں حالی کو قریب سے دیکھنے کو موقع ملا مگر لندن میں دوران تعلیم برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ سروس سے واسطہ بڑا تو محسوس ہوا کہ ڈاکٹرز ایسے بھی ہوتے ہیں اور محکمہ صحت ایسا بھی ہوسکتا ہے ۔ دل میں ایک حسرت ہے کہ کاش ہمارا محکمہ صحت NHS ماڈل کو کاپی کرلے ویسے ہم لوگ بھیڑچال نقالی کے ماہر ہیں کیوں نہ اپنے لوگوں پر ایک احسان کردیں اور ہم NHS کا یک چھوٹا ساماڈل پاکستان میں رائج کردیں ۔


NHS کاارادہ برطانیہ میں سب سے اہم اداروں میں سے ایک ہے ۔دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والے اس ادارے میں سولہ لاکھ ملازمین ہیں ۔ صحت اور بہترین علاج معالجہ برطانوی حکومت کی کتنی ترجیح ہے وہ آپ اسی بات سے دیکھ لیں کہ برطانیہ اپنی جی ڈی پی کا 10فیصد صحت اور علاج معالجے پر خرچ کرتا ہے اور ہم پاکستان میں دو فیصد بڑی مشکل سے خرچ کرتے ہیں ۔

چھ کروڑ چون لاکھ آبادی کے ملک برطانیہ کے صحت کے شعبے NHS کا بجٹ 136.7 بلسین پاؤنڈز تقریباََ 177 کھرب پاکستانی روپے ہے ۔ جبکہ 18 کروڑ آبادی کے ملک پاکستان کا صحت کا بجٹ صرف 22ارب روپے ہے ۔ برطانیہ ہرسال اوسطََ اپنے ہر شہری پر چارلاکھ پندرہ ہزار روپے صحت اور علاج معالجے پر خرچ کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں صرف بارہ ہزار روپے اوسطََ پرشہری کے علاج معالجے پر خرچ کئے جاتے ہیں ۔

NHS کی بہترین سروس کی ایک اہم وجہ بہترتنخواہیں اور مراعات بھی ہیں ۔ برطانیہ کے NHS کا 60فیصد بجٹ تنخوہوں پر خرچ ہوتا ہے 20فیصد ادویات اور بقیہ 20فیصد بلڈینگ ، آلات ، صفائی اور دیگر انتظامی اخراجات پر خرچ ہوتا ہے پاکستان میں ایک ڈاکٹر کی اوسطََ تنخواہ تقریباََ 70ہزار ماہانہ ہے جبکہ برطانیہ میں اُسی ڈاکٹر کی تنخواہ تقریباََ 11لاکھ ماہانہ پاکستانی روپوں میں ہوئی ہے ۔

ایسے میں ڈاکٹرز کیوں نہیں معاشی فکر سے آزاد ہوکر خوش دلی سے مریضوں کا علاج کریں گے ۔
برطانیہ کا NHSجہاں معائنہ فری کرتا ہے وہیں ادویات میں بھی حیران کن طور پر مریضوں کو سپورٹ کرتا ہے مثلاََ ڈاکٹری نسخے پرلکھی گئی ادویات میں مریض فی آئٹم 8.60 پاؤنڈز ادا کرے گا اس سے زیادہ ادا نہیں کرے گاچاہیے دوا کتنی ہی مہنگی اور مقدار کتنی ہی کیوں نہ ہو۔

60سال سے زائد اور 16 سال سے کم عمربچوں اور حاملہ خواتین کی تمام تر ادویات مفت ہیں کسی بھی مخصوص یامستقل بیماری کے حامل افراد کسی مستقل معذوری ، جنگی پنشزز کم آمدنی والے افراد جنکومالی استنشیٰ حاصل ہے ان کی تمام تر ادویات مفت ہیں ۔ مریضوں کے تمام ٹیسٹ مفت ہیں اور کسی پرائیویٹ ایکسرے ، ای سی جی ، بلڈ ٹیسٹ کاتصورنہیں ہے ۔ آپ لندن جائیں تو دریائے تھیمزکے کنارے لندن کے بڑے اسپتالوں میں سے ایک سینٹ تھامس ہاسٹل لندن جا کر ضرور دیکھیں وہاں آپ کو کسی ڈاکٹر کا بورڈ نظر نہیں آئے گا چاہے وہ اپنے شعبے کا سربراہ اور پروفیسر ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہو ۔

آپ کو لگے گا جیسے یہاں ڈاکٹرز نام کی مخلوق پائی ہی نہیں جاتی ۔ یہ صرف اسے لئے کہ یہاں ادارے افراس سے زیادہ مئوثر اور مقبرہیں یہاں NHS کا نام تو نظر آئے گا کسی ڈاکٹر کا نہیں چاہے وہ کتنا ہی ماہر اور بڑا کیوں نہ ہو ۔ یہاں کسی ڈاکٹر کے ٹی وی پر یا اخبارات میں اشتہار نہیں چھپتے اور نہ یہاں پرائیویٹ کلینکس ، لیبارٹریوں ای سی جی سی ٹی سکین کا بزنس ہے جس طرح کا دھندہ ہمارے ہاں آج کل عروج پر ہے ۔

یہ سب صرف اور صرف اسی لئے ممکن ہوا ہے کہ یہاں صحت اور علاج معالجے کاارادہ NHS بھرپور طریقے سے کام کررہا ہے جس کے باعث مریضوں کو پرائیویٹ کلینکس لیبارٹریوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی یہاں علاج ایک ڈراؤنا خواب ہے ۔ معائنہ مفت ہے دواؤں کی قیمتیں واجبی ہیں اور جو شہری بھی افورڈ نہیں کرسکتے ان کیلئے ادویات بھی مفت ہیں ڈاکٹرز مریضوں کو کسٹمر سمجھ کر نہیں دیکھتے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں اور اگر کوئی ڈاکٹر کسی مریض کے علاج میں غفلت برتے تو مریض ڈاکٹر کی دانستہ یاغیر دانستہ غفلت کے باعث ہو صحت کی خرابی کے لئے پر جانہ کاکیس دائر کرسکتا ہے اور اسے بھرپور مالی معاوضہ ادا کیاجاتا ہے ۔

اس لئے ہر ڈاکٹر کی یہاں پریکٹس انشورنس ہے تاکہ کسی بھی ایسے کیس کی صورت میں ڈاکٹر کی انشورنس کمپنی دعویٰ دائر کرنے والے مریض کو ہرجانے کی رقم ادا کرسکے اس لئے یہاں مریض بھی خود کو مطمئن اور محفوظ تصور کرتے ہیں اور ڈاکٹر بھی ۔ اور اس سارے نظام کامرکزی کردار ہے نیشنل ہیلتھ سروس ۔
ہمارے حکمران سیاست کابھرپور تجریہ رکھتے ہیں چاہے وہ تفریحی سیاحت ہویا طبی سیاحت ۔

کاش اس سیاحت سے وہ کچھ سیکھ سکتے اور NHS طرز کا ایک ادارہ ہمارے ہاں بھی بتادیتے جو واقعی لوگوں کے دکھوں کا مداوا ہوتا جو امیر غریب کا فرق ختم کریتا جہاں سب کو سستا اور معیاری علاج معالجہ با عزت طریقے سے فراہم کیا جاتا مگر ایسا ممکن نہیں کیوں حکمرانوں نے یہاں سے علاج نہیں کروانا جن کے نزلہ زکام کی گولی سے لے کر آپریشن تک باہر سے ہوتے ہوں ان کو کیا غرض ہسپتال ٹھیک کام کررہے ہیں یا نہیں حکمرانوں کی اس بے حسی کودیکھ کر یہ التجا دل سے نکلتی ہے کہ وہ اور کچھ نہیں کرسکتے تو اس بے حسی پر ہی عوام کو کچھ ڈسکاؤنٹ “ دے دیں ۔ 100فیصد نہ سہی صرف 50فیصد بے حسی کا برتاؤ کم دیں یہ قوم جی اٹھے گی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :