فیصلہ آ گیا
پیر 24 اپریل 2017
کمیشن کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تو میاں نواز شریف کو ”پھڑکا“ ہی دیا تھا لیکن جسٹس اعجاز افضل خاں آڑے آ گئے اور اُنہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ مفروضوں کی بنیاد پر کسی کو نا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا اِس لیے مزید تحقیقات ضروری ہیں ۔
(جاری ہے)
اُدھر بلوچ سردار نے 23 اپریل سے سندھ میں دھرنے دینے کا اعلان کیا تو اِدھر کپتان صاحب نے اپنی سونامی کو پکارتے ہوئے 28 اپریل کو اسلام آباد پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں شروع کر دیں ۔ آصف زرداری تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر کچھ زیادہ ہی بھڑک اُٹھے ہیں۔ اُنہوں نے شرم وحیا کی چادر تار تار کرکے میاں نوازشریف کو دھمکیاں دینی شروع کر دی ہیں ۔ اُنہوں نے کہا ”میاں صاحب کو سوائے پائے کھانے اور سرکاری روٹیاں توڑنے کے اور کچھ نہیں آتا ۔ وہ گھر نہیں جائیں گے ، کہیں اور جائیں گے ۔ ہم لانڈھی جیل میں اُن کو روٹی پہنچائیں گے“۔ آصف زرداری تو خیر ایسی بڑھکیں مارتے ہی رہتے ہیں ۔ اُنہوں نے تو کسی کی ”اینٹ سے اینٹ بجا دینے “ کی بڑھک بھی ماری تھی لیکن پھر ”نِیویں نِیویں “ ہو کر ملک ہی سے فرار ہو گئے ۔آصف زرداری صاحب نے خیر جو کہا ، سو کہا لیکن سیاسی نَومولود بلاول زرداری نے تو انتہا کر دی ۔ اُس نے میاں نوازشریف کو مخاطب کرکے کہا ”اگر آپ میں تھوڑی سی بھی شرم ، تھوڑی سی بھی حیا ہے تو استعفےٰ دیں “۔ اپنے بڑوں کے لیے ایسے غیرپارلیمانی الفاظ استعمال کرتے ہوئے بلاول کو تھوڑی سی شرم ، تھوڑی سی حیا اور تھوڑی سی غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے تھا لیکن شاید اُسے بزرگوں نے یہی سکھایا ہے۔ میاں نوازشریف سے استعفےٰ مانگنے سے پہلے اگر وہ اپنے باپ سے یہ سوال کر لیتا کہ بمبینو سینما میں ٹکٹیں بلیک کرنے والا یکایک کھرب پتی کیسے بن گیا؟ تو شاید اُسے تھوڑی سی شرم آ ہی جاتی۔ ویسے بلاول جتنی جلدی ممکن ہو یہ طے کر لے کہ وہ ”بھٹو“ ہے یا ”زرداری“۔ کیونکہ یہ قوم کسی ”دوغلے“ کو پسند نہیں کرتی۔
بقول چودھری شجاعت حسین اس سب کچھ پر ”مٹی پاوٴ“۔ ہمیں تو خوشی اِس بات کی ہے کہ اب ایک دفعہ پھر دھوم دھڑکا ہو گا، میوزیکل کنسرٹ ہو گا، غیرپارلیمانی زبان ہو گی اور بڑھکیں ہوں گی اور ہمیں اپنے کالموں کا پیٹ بھرنے کے لیے ڈھیروں ڈھیر مواد مِل جائے گا۔ اگر ایسے میں افراتفری ہوتی ہے ، انارکی پھیلتی ہے ، ملک اندرونی طور پر کمزور ہوتا ہے دشمن کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے ، سی پیک پر کام کی رفتار سست پڑ جاتی ہے تو ہماری بلا سے۔ ہم نے کون سا الیکشن لڑ کے ملکی سربراہ بن جانا ہے جو ہمیں یہ پریشانی لاحق ہو کہ اگر خاکم بَدہن ملک نہ بچا تو ہمارا کیا بنے گا۔ یہ سوچنا تو اُن لوگوں کا کام ہے جو اپنے آپ کو قومی رہنما سمجھتے ہیں اور جن کے دِل ، جگر اور پھیپھڑے قومی درد سے معمور ہیں۔ جنہیں اقتدار کا کوئی لالچ نہیں، وہ تو محض اِس لیے وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں کہ نیا پاکستان بنا سکیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے سبھی گلے پھاڑ پھاڑ کر یہ نعرے لگاتے رہتے تھے کہ اُنہیں سپریم کورٹ پر اعتبار ہے اور اُس کا ہر فیصلہ منظور لیکن جونہی فیصلہ آیا تو نامنظور بھی کر دیا ۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن نے پاناما کیس کے فیصلے کے تناظر میں زبردست ہنگامہ آرائی کی اور جے آئی ٹی کو مسترد کر دیا ۔ اپوزیشن لیڈر سیّد خورشید شاہ نے کہا ”جے آئی ٹی بڑے شرم کی بات ہے، یہ کھوکھلی تفتیش ہو گی، وزیرِاعظم مستعفی ہوں۔ ہم استعفے کے لیے سڑکوں پر آئیں گے“۔ کپتان صاحب تو پہلے ہی استعفےٰ کا مطالبہ کر چکے ہیں اور اب اسے مشترکہ اپوزیشن کے فیصلے میں ڈھالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیرِداخلہ چودھری نثار علی نے کہا کہ پاناما کیس کا مکمل فیصلہ ابھی نہیں آیا لیکن مخالفین لڑائی چاہتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اختلافی نہیں ، متفقہ ہے ۔ جے آئی ٹی پر سارے جج متفق ہیں ۔ چودھری نثار علی خاں نے ٹیکسلا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہمارے ہاں اچھے سے زیادہ بُرے کام کی تشہیر ہوتی ہے ۔ معاملہ اب عدالت میں ہے، اِسے عدالت پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ نوازشریف کے خلاف اُلٹی گنگا بہائی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ثبوت بھی خود دیں۔ مخالفین پھڈے بازی چاہتے ہیں۔ یہ قیامت کی نشانی ہے کہ آصف علی زرداری لوگوں کو ایمانداری اور دیانت پر لیکچر دیں۔ آج عجب کرپشن کی غضب کہانی والے لوگ وزیرِاعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ غیب کا علم میرے پاس نہیں لیکن میرے سامنے اگر اِس حکومت میں کرپشن ہو رہی ہوتی تو میں بہت پہلے ہی اِن کو چھوڑ چکا ہوتا۔ اپوزیشن رہنماء شروع ہی سے جے آئی ٹی بنانے کا کہہ رہے تھے لیکن جب سپریم کورٹ نے حکم دیا تو اب شور ہو رہا ہے۔ ہمارا موازنہ فرشتوں کی بجائے پچھلی حکومت کی کارکردگی سے کیا جائے۔ اب تو چیونٹیوں کو بھی پَر لگے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اپنی خواہش کے مطابق فیصلے کے معنی چاہتا ہے “۔ چودھری نثار علی خاں نے جو کچھ کہا، بالکل سچ کہا اور سچ چونکہ کڑوا ہوتا ہے اِسی لیے اپوزیشن، خصوصاََ پیپلزپارٹی ہمہ وقت اُن کی مخالفت پر تُلی رہتی ہے لیکن چودھری صاحب بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے عادی ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
پروفیسر رفعت مظہر کے کالمز
-
پنچھی پَر پھڑپھڑانے لگے
منگل 15 فروری 2022
-
جھوٹ کی آڑھت سجانے والے
منگل 8 فروری 2022
-
اُنہوں نے فرمایا ۔۔۔۔ ۔
پیر 31 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کا ڈھنڈورا
پیر 24 جنوری 2022
-
کورونا کی تباہ کاریاں
منگل 4 جنوری 2022
-
جیسی کرنی، ویسی بھرنی
منگل 28 دسمبر 2021
-
قصّہٴ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
منگل 21 دسمبر 2021
-
ہم جس میں بَس رہے ہیں
پیر 13 دسمبر 2021
پروفیسر رفعت مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.