اچھو اور ساجھا

ہفتہ 22 اپریل 2017

Hussain Jan

حُسین جان

اچھو کا سیدھا نام اشرف اور ساجھے کا ساجد تھا۔ دونوں نوجوانی میں ہی وفات پا گئے۔ پورئے پاکستان میں ان دنوں لوگ پاناما کو لے کر بیٹھے ہے ایسے میں ان دونوں کی کہانی میں کسے دلچسپی ہو گی۔لیکن ان دونوں کی کہانی کا بھی کسی نہ کسی حوالے سے پاناما کے ساتھ تعلق بنتا ہے۔ پہلے آپ کو دونوں کی کہانیاں سناتا ہوں پھر بات کو آگے لے کر چلیں گے۔

یہ بتاتا چلوں کہ ساجھے اور اچھو کا آپسمیں کوئی رشتہ نہیں اور نہ ہی دونوں ایک دوسرئے کو جانتے تھے۔ لیکن دونوں میں ایک چیز مشترک تھی ۔ اور وہ تھی نشے کی لت۔
چلیں پہلے اچھو کی کہانی سناتا ہوں۔ جب یہ فوت ہوا تو اس کی عمر بمشکل 20سال ہو گی۔ 6فٹ قد رنگ گورا ،اور چھریرے بند کا نوجوان تھا۔ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور ماں کی آنکھوں کا تارا تھا۔

(جاری ہے)

پورئے محلے میں کسی کو بھی کام ہوتا تو وہ اچھو کہ کہتا وہ سب کے کام بہت خوشی سے کرتا تھا۔ گھر والوں کے ساتھ بھی اُس کا رویہ بہت بہتر ہوتا تھا۔ اُسے پتنگ اُڑانے کا بہت شوق تھا۔ گھر میں ایک دو کبوتر بھی رکھ چھوڑے تھے۔ ہاں پڑھائی میں اُس کا دل نہیں لگتا تھا۔ وہ کہتا تھا مجھ سے بھلے دُنیا بھر کے کام کروا لو مگر پڑھائی کا نہ کہو۔ اُس کا کام بھی یہی تھا کہ لوگوں کے کام کر دیے ،پتنگ اُڑا لی یا کبوتروں کو دانہ کھلا دیا۔

اُس کے تمام بہن بھائی بھی اُسے بہت پیار کرتے تھے ۔ ماں اکثر کہا کرتی تھی کہ گھر سے زیادہ دیر باہر نہ رہا کرو میرے دل میں برئے برئے خیالات آتے ہیں۔ وہ ہنس کر کہتا ماں دل نا چھوٹا کیا کر میں ادھر ہی رہوں گا تیرے پاس۔ اُس کی ماں اُسے کہتی تھی جب سب بچوں کی شادی ہو جائے گی تو میں تیرے ساتھ رہوں گی۔ پھر آہستہ آہستہ ہم نے دیکھا کہ اچھو کی رنگت میں واضح فرق پڑنا شروع ہو گیا ہے ۔

اُس کا رنگ پیلا اور جسم لاغر ہونا شروع ہو گیا تھا۔ پہلے تو محلے والے سمجھے شائد بیمار ہے مگر کچھ دنو ں بعد بھید کھلا کہ وہ تو نشے کی لت میں لگ چکا ہے۔ اُس نے کب کہاں اور کیسے یہ کام شروع کیا کسی کو کچھ پتا نا چلا۔ پھر اچھو نے لوگوں کے گھروں سے چوری کرنا شروع کر دی۔ اُس کی ماں تو جیسے پاگل ہو گئی تھی یہ خبر سن کر۔ اُس کے بہن بھائیوں نے بہت کوشش کی کہ وہ اس لت سے باہر نکل آئے اُنہوں نے اُس گھر میں قید بھی رکھا مگر بے سود۔

ایک دو دفعہ اُس کا علاج بھی کروایا گیا اُس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اچھو مزید کمزور ہوتا چلا گیا۔ اور پھر ایک دن وہ گھر سے بھاگ گیا۔ تقریبا 6ماہ تک اُس کی کوئی خبر نہیں آئی۔ پھر ایک دن اچانک کسی نے بتایا کہ میانی صاحب کے قبرستان میں ایک لاورث لاش پڑی ہوئی ہے اور وہ اچھو کی ہے ۔ اُس کے گھر والے بھاگم بھاگ وہا ں پہنچے تو دیکھا کہ وہ اچھو ہی تھا۔

غلط انجیکشن لگانے سے اُس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ مجھے یاد ہے جب اُس کا جنازہ اُٹھایا گیا تو پورا محلہ سوگوار تھا۔ اُس کی ماں کو بار بار غشی کے دورئے پڑ رہے تھے۔ آج بھی اُس کے گھر کے سامنے سے گزرتا ہوں تو اچھو کا خوبصورت سراپا میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔
اب آپ کو ساجھے کی کہانی سناتا ہوں ۔ میں جب سے اُسے جانتا تھا تب سے ہی وہ نشے کی لت میں پڑ چکا تھا۔

عمر بمشکل 25سال ہو گی۔ ہمارے گھر سے 10گھر پرئے رہتا تھا۔ اُس کی عادت تھی گلی سے گزرتے ہوئے ہر بندے سے سلام کرنااورکہنا ماسٹر کی حال اے۔ یہ اچھو سے ٹھوڑا مختلف اس لیے تھا کہ یہ درزیوں کا کام جانتا تھا اور اپنے کام کو ٹھیک چلا رہا تھا ۔ پہلے پہل تو اُس نے چرس کے سگریٹ پینے شروع کیے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کی نشے کی حس مزید تیز ہوتی جارہی تھی۔

لہذا اُس نے پاؤڈر پینا شروع کر دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اُس نے نشے کے ٹیکے بھی لگانے شروع کر دیے۔ نشے کی زیادتی کی وجہ سے وہ اب دُکان پر بھی نہیں بیٹھ پاتا تھا۔ لہذا دُکان بھی ختم ہو گئی اور وہ سڑک پر آگیا ۔ گھر والوں نے بہت کوشش کی اُسے سمجھانے کی مگر وہ نہیں سمجھا۔ پھر ایک دن غلط انجیکشن لگنے سے اُس کے ہاتھ میں انفیکشن ہو گیا جس کی وجہ سے اُس کا ایک ہاتھ کاٹنا پڑا۔

لوگوں نے اُسے کافی کہا کہ اب مزید اس لعنت کی طرف نہ آئے ۔ اس نشے کی وجہ سے اُس کا ایک ہاتھ چلا گیا ہے۔ لیکن اُس نے کسی کی بات نہ مانی اور پھر ایک دن وہ اپنے گھر کی دہلیز پر صبح مردہ پایا گیا۔ پتا نہیں رات کے کس پہر وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔
یہ صرف دو لوگوں کی کہانیا ں ہیں جن کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس طرح کی لاکھوں کہانیاں ہمارے ملک میں جنم لیتی ہیں۔

افسوس کی بات ہے کہ نشہ بیچنے والے سر عام نشے جیسی بیماری لوگوں میں بانٹ رہے ہیں مگر ان کو روکنے والا کوئی نہیں حکومت اور حکومتی اداروں کی زمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو پکڑئے اور اُن کا قلع قمع کرے۔ پنجاب میں کئی سالوں سے میاں شہباز شریف حکومت کر رہے ہیں ۔ اُن کا زیادہ زور سڑکیں اور پُل بنانے پر لگ جاتا ہے۔ سماجی مسائل کی طرف وہ کوئی خاص دھیان نہیں دیتے۔

غربت، جہالت، بے روزگار، جہیز ،نشہ اور اس جیسے بہت سے سماجی مسائل ہیں جن کو حکومت لوگوں کے ساتھ مل کر ختم کرسکتی ہے۔ لیکن شائد یہ کام حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں۔ جب پاناماکیس کی سماعت ہوتی تھی تو پوری پوری کابینہ وزیرآعظم اور اُن کی فیملی کے دفاع میں سپریم کورٹ میں ڈیرئے جما لیتی تھی۔ تو کیا یہ وزراء پنے اپنے حلقے کے لوگوں کا مسائل کے لیے اکھٹے نہیں ہوسکتے۔

چار سال سے حکومت ایک بھی قومی ادارے کو منافے میں نہیں لا سکی۔ سٹیل مل، ریلوئے اور پی آئی اے جیسے اداروں میں چار سال سے بہتری نہیں آسکی تو آگے بہتری کی کیا اُمید رکھیں۔
میاں نواز شریف کے بچے تو محفوظ ہیں کیونکہ وہ تو اربوں روپے کے کاروبار چلا رہے ہیں ۔ سیدھی سی بات ہے اس ملک کی اشرافیہ اور حکمران عوامی مسائل میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔

بس ان کے اپنے بچے محفوظ ہونے چاہیے اُن کے لیے دوسرئے ممالک کے سکول اور فلیٹ بھی موجود ہے ۔ لیکن عام پاکستانی لوگوں کا کیا جن کو دو وقت کی روٹی مشکل سے مل رہی ہے۔ جن کے بچے سکولوں سے باہر پڑئے ہیں ۔ جن کے بچے نشے سے مر رہے ہیں۔ سیاستدان تو سب کچھ لوٹ کر دوسرئے ممالک میں شفٹ کر چکے ہیں مگر بھوکی ننگی عوام کے لیے کچھ نہیں چھوڑا س ملک میں۔ لوڈشیڈنگ اپنے عروج پر ہے۔ کسی قسم کی کوئی قانون سازی آج تک نہیں کی گئی جس میں عوام کی بھلائی ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اچھو اور ساجھے جیسے اور کتنے نوجوان ان بے حس سیاستدانوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ کیا کبھی اس ملک کے حالات میں بہتری آئے گی۔ اس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :