لوڈشیڈنگ کا طوفان

جمعہ 21 اپریل 2017

Prof.Riffat Mazhar

پروفیسر رفعت مظہر

ابھی ماہِ اپریل ہے اور لاہور کا درجہ حرارت 45 سینٹی گریڈ تک جا پہنچا ہے ۔ پتہ نہیں مئی ، جون ، جولائی میں کیا حشر ہو گا کیونکہ حکمرانوں نے تو ابھی سے بجلی بہم پہنچانے سے معذرت کر لی ہے ۔ لوڈ شیڈنگ کا عفریت ایک دفعہ پھر مُنہ کھولے سب کچھ نگلنے کو تیار ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں خوشی سے بغلیں بجا رہی ہیں ۔ یہ ”ٹُٹ پَینی“ بجلی ہی تو تھی جس نے پیپلزپارٹی کا ”مَکوٹھَپ“ دیا اور وہ بیچاری سُکڑ سمٹ کر دیہی سندھ تک محدود ہوگئی ۔

اب جب کہ 12 سے 16 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے اور عابد شیر علی بجلی کی عدم دستیابی پر معافیاں مانگتے پھر رہے ہیں تو پیپلزپارٹی بھی میدان میں اُتر آئی ہے ۔ اب پپلئیے پوری شَدّومَد سے گلی گلی شور مچاتے پھر رہے ہیں کہ کہاں گئے میاں شہباز شریف کی بڑھکیں ، دعوے اور وعدے؟۔

(جاری ہے)

ہمارے دَور میں تو 6 ماہ میں بجلی لا رہے تھے لیکن اب 4 سال گزرنے کے باوجود بجلی نایاب ہے ۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب آمدہ الیکشن کی کمپین کا سارا زور لوڈشیڈنگ پر ہی ہوگاالبتہ پاناما کیس کا فیصلہ بھی ہواوٴں کا رُخ بدل سکتا ہے ۔ اب 57 دنوں کی تاخیر کے بعد بالآخر معزز جج صاحبان کو رحم آ ہی گیا اور اُنہوں نے 20 اپریل کو 2 بجے دوپہر فیصلے کی حتمی تاریخ دے دی ۔ ویسے معزز جج صاحبان بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا فیصلہ دیں گے کہ صدیوں یاد رکھا جائے گا ۔

ہم نے تو بہت زور مارا کہ بھلا صدیوں یاد رکھا جانے والا فیصلہ کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن ہمارے ارسطوانہ ذہن نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے ۔چلیں اب یہ سَسپنس بھی کل دور ہو ہی جائے گا ۔ کپتان صاحب جو فیصلے کے انتظار میں سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے ، نے اپنے میمنہ میسرہ کو تیاری کا حکم دے دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ فیصلہ جو بھی آئے ، ہم تو سڑکوں پر ہوں گے ۔

شاید وہ بھی لوڈشیڈنگ کا بہانہ بنا کر سڑکوں پر نکلنے والے ہوں ۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اُنہوں نے اتنا انتظار تو کبھی بھی نہیں کیا جتنا وہ پاناما کیس کے فیصلے کا کر چکے ہیں ۔
بات لوڈشیڈنگ کی ہو رہی تھی لیکن نکل دوسری طرف گئی ۔ شاید حکمرانوں کو یاد نہیں کہ مئی کے آخری ہفتے میں ماہِ صیام شروع ہونے والا ہے جو جون کے آخری ہفتے تک جائے گا ۔

اِس ماہِ مبارک میں بھی اگر لوڈشیڈنگ کا یہی حال رہا تو پھر حکمرانوں کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ اِس ماہِ مبارک میں ذخیرہ اندوز ”رَج کے “ اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور ابھی سے یہ عالم ہے کہ مہنگائی دِن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماہِ صیام کی آمد پر عام اشیائے خورونوش بھی لوگوں کی قوتِ خرید میں نہیں رہیں گی ۔ حکومت کے پاس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا کوئی موٴثر طریقہ بھی نظر نہیں آتا ، بس ٹامک ٹوئیاں ہی ٹامک ٹوئیاں ہیں ۔


یہ بھی شنید ہے کہ مرکزی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار صاحب ماہِ مئی میں ہی بجٹ پیش کرنے کے موڈ میں ہیں اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ ڈار صاحب کا تو فارمولا ہی یہی ہے کہ ”کوئی بچ کے جانے نہ پائے“۔ اب خود ہی سوچیں کہ ایک طرف لوڈشیڈنگ کا طوفان ہو ، دوسری طرف مہنگائی کا عفریت ، اُس پر مستزاد ڈار صاحب کا بجٹ ، تو کیا عامیوں کے پاس ”کَکھ“ بھی بچنے کا کوئی چانس ہے؟۔

ایسے میں اگر ایک طرف سونامیے سڑکوں پر ہوئے اور دوسری طرف جیالے ، تو پھر نواز لیگ کا کیا حشر ہو گا ؟ ، اِس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ اِس لیے ہمیں تو یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے نوازلیگ کے گرد آہستہ آہستہ گھیرا تنگ ہو رہا ہو ۔
اگر دیکھا جائے تو لوڈشیڈنگ آئندہ انتخابات کے لیے ایک سیاسی مسٴلے میں ڈھلتی جا رہی ہے ۔ اگر اِس پر بَروقت قابو نہ پایا گیا تو پاناما کیس میں فیصلہ میاں برادران کے خلاف آنے کے باوجود بھی شاید نوازلیگ اپنا سیاسی دامن بچا جائے لیکن لوڈشیڈنگ سے نہیں۔

تو کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے؟۔ کیانوازلیگ کا حشر بھی پیپلزپارٹی جیسا ہونے والا ہے؟۔ ہمارے خیال میں معاملہ اِن انتہاوٴں کو تو نہیں چھوئے گا لیکن سیاسی نقصان اظہر مِن الشمس ہے ۔
سوال مگر یہ ہے کہ اِس مسٴلے پر قابو کیسے پایا جا سکتا ہے جبکہ حکومت کے پاس بجلی ہے نہیں اور پرائیویٹ سیکٹر کے اندر خدمتِ خلق کا جذبہ مفقود ۔

اُنہیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ قومی خدمت کِس چڑیا کا نام ہے ۔ اُنہیں صرف اپنی تجوریاں بھرنے سے غرض ہے ۔ جوں جوں موسم میں شدت آتی چلی جائے گی ، پرائیویٹ سیکٹر کی چاندی ہوتی جائے گی اور وہ سات ، آٹھ روپے فی یونٹ بجلی پیدا کرکے پندرہ ، سولہ روپے فی یونٹ فروخت کریں گے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اِس میں کہاں تک حقیقت ہے لیکن معروف جوہری سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا دعویٰ ہے کہ تھرکول سے چھ روپے فی یونٹ بے حدوحساب بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ، جس کا اُنہوں نے کامیاب تجربہ بھی کر لیاہے ۔

وہ اکثر ٹی وی ٹاک شوز میں یہی رونا روتے نظر آتے ہیں کہ اُنہیں فنڈز مہیا نہیں کیے جا رہے اور اِس پراجیکٹ کو محض اِس لیے بند کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے کہ اِس کے لیے فنڈز میسر نہیں ۔ جس رقم کا ڈاکٹر ثمرمند مطالبہ کر رہے ہیں ، وہ محض 120 ملین ہے جس کی فراہمی اتنا بڑا مسٴلہ تو نہیں لیکن شاید بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ سیکٹر کو یہ منظور نہیں ۔

کیونکہ ایسا ہونے سے اُن کا کاروبار ٹھَپ ہو جائے گا اور اُن کی ”ہَٹی“ بند ہو جائے گی ۔ یہ سیکٹر پاکستان کے امیرترین لوگوں پر مشتمل ہے اور انتہائی طاقتور بھی ۔
اب جبکہ سیاسی درجہ حرارت اپنے عروج پر ہے اور تمام سیاسی جماعتیں لنگوٹ کَس کر انتخابی اکھاڑے میں اُتر رہی ہیں تو سب کو سوچ لینا چاہیے کہ اُن کے دامن میں ہے کیا ۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ قوم کا سیاسی شعور اب بھی محوِ خواب ہے تو یہ اُس کی بھول ہے ۔

قوم اگر سیاسی شعور کی پختگی کے عروج پر نہیں تو پھر بھی اتنی با شعور ضرور ہو چکی ہے کہ اپنے بُرے بھلے کی پہچان کرنے لگی ہے ۔ اب ووٹ تو اُسی کو ملیں گے جس نے کچھ کر کے دکھایا ہو گا ۔ اگر پچھلے چار سالوں پر نظر دوڑائی جائے تو خیبر پختونخوا میں حکمران تحریکِ انصاف نے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا اور اُس کی جماعت اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہے ۔

پیپلز پارٹی سندھ کا ”لنگڑا گھوڑا“ ہے جِس پر کوئی داوٴ لگانے کو تیار نہیں ۔ رہی نوازلیگ تو وہ بھی پاناما کیس میں بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔ یہ بجا کہ اُس کے دامن میں بہت سے ترقیاتی منصوبے ہیں ، جن میں سے کئی پایہ تکمیل تک بھی پہنچ چکے ہیں لیکن آتشِ شکم کی سیری کے لیے اُس نے بھی کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا ۔ پیٹ ، لیپ ٹاپ سے بھرتا ہے نہ میٹرو ٹرین اور اورنج لائن سے ۔ اُس کے لیے تو روٹی چاہیے ، عزت کی روٹی جو فی الحال تو حکمرانوں کے پاس نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :