دجال۔ قسط نمبر 3

جمعرات 20 اپریل 2017

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

ہمارے مغربی ممالک میں رہنے والے احباب آگاہ ہیں کہ کس طرح ان کی اپنی ہی حکومتوں نے شہریوں کو کس طرح ذہنی‘سماجی اور معاشرتی طور پرمفلوج کرکے رکھ دیا ہے-ایک سے بڑھ ایک گدھ معصوم انسانوں کو نو چ رہا ہے-ہفتے کے بعد تنخواہ کا جو چیک ہاتھ میں آتے ہے اس سے کہیں زیادہ پہلے ہی خر چ ہوچکا ہوتا ہے‘تقریبا ہر شہری مقروض رہتا ہے ‘گھرکا کرایہ‘یوٹیلٹی بلزاور گاڑی سمیت مختلف چیزوں کی قسطیں اداکرنے کے بعد اکثراوقات اسے کھانے پینے کے لیے ادھارلینا پڑتا ہے یا گھر کی کوئی چیزگروی رکھوا کر گزرا چلایا جاتا ہے-امریکا کی ”پان شاپس“پر جاکر ایک دن گزاریں تو روح تک کانپ جاتی ہے کہ ایک ماں بچے کا دودھ خریدنے کے لیے ان چیزوں کو بھی چند ڈالرزکے لیے گروی رکھوانے پر مجبور نظرآتی ہے جنہیں ساری زندگی اپنی ماں‘دادای یا نانی کی نشانی کے طور پر اپنے سینے سے لگا کر زندگی گزاری ہوتی ہے-وہ لمحات انتہائی دلخراش ہوتے ہیں جب ریستوران میں بیٹھے ہوئے دوران گفتگو آپ کے مہمان کا معصوم بچہ یہ کہے کہ ریستوران میں بیٹھ کر من پسند کھانا کھانے کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کرنے پر شکریہ-جب ایک اسی سالہ بزرگ آپ کے گلے لگ کر رودے کہ اسے زندگی میں الاسکا کی سائمن کھلانے والے آپ پہلے شخص ہیں اور شدید خواہش کے باوجود وہ زندگی میں الاسکن سائمن کا ایک ٹکڑا نہیں خریدسکا آپ کے جذبات کا کیا عالم ہوگا -ایک طرف غریب سے غریب ترین ہیں تو دوسری جانب دنیا کی ایک فیصد سے بھی کم آبادی پر مشتمل طبقہ اشرافیہ -اس چھوٹی سی اقلیت کی بقاء ہی جنگوں اور قتل وغارت گری میں ہے لہذا پوری دنیا میں یہ چھوٹے دجال ایک طرف خون خرابے سے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا رہے ہیں تو دوسری طرف معاشی دہشت گردی سے اکثریت کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑرکھا ہے- مغربی معاشرے ان مافیازکے نرغے میں ہیں جنہوں نے خوراک ‘پانی اور علاج ‘معالجہ تک کی بنیادی انسانی ضروریات پر جبرسے قبضہ کررکھا ہے اور اب ان کی نظریں ایشیائی ممالک خاص طور پر برصغیرپاک وہند پر جمی ہیں وہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی والے اس خطے کی مارکیٹ کو اس طرح سے قبضے میں لینا چاہتے ہیں کہ مغربی دنیا کی طرح ہمارے خطے کے بسنے والے بھی خوراک‘پینے کے پانی ‘ادویات جیسی سہولیات کے لیے ان کے محتاج ہوں‘ انہیں بات سے غرض نہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں ظالم‘ڈاکو‘لٹیرے بیٹھے ہیں انہیں بس اپنے مفادات کا تحفظ چاہیے جوکہ ہمارا حکمران اور طاقتور طبقات بخوبی کررہے ہیں-ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نفرتوں کو بڑھاوا دیا جائے‘مہذب ‘رنگ ‘نسل اور زبان کی بنیاد پر تفریق پیدا کی جائے تاکہ لوگ آپس میں لڑمرکر اتنے کمزور ہوجائیں کہ وہ ان معاشی دہشت گردوں کے لیے خطرہ نہ بن سکیں تاریخ سے شغف رکھنے والے قارئین ایسٹ انڈیا کمپنی کے حالات کو پڑھ لیں انہیں صورتحال کو سمجھنے میں آسانی ہوگی-اس ابلیسی منصوبے کا آغازافریقہ کے کئی ممالک میں کردیا گیا ہے جہاں گندم کے مقامی بیج پر حیلے ‘بہانے کرکے پابندیاں لگوائی گئیں اور پھر ایسا genetically modified بیج متعارف کروایا گیا جس سے صرف ایک مرتبہ فصل حاصل کی جاسکتی ہے اور دوبارہ کاشت کے لیے پھر سے وہی بیج خریدنا ہوگا ‘زراعت کے ماہرین جانتے ہیں کہ کئی genetically modified بیج ایسے بھی ہیں جوکہ زمین کو خراب کرتے ہیں -چند ماہ پہلے ماحولیاتی تبدیلیوں پر ایک تحقیقی مضمون میں قارئین کے ساتھ کچھ انتہائی اہم باتیں شیئرکی تھیں جن میں ایک پاکستان جیسے زرعی ملک میں پچھلے 30سالوں کے دوران زیرکاشت رقبے میں اضافے کی بجائے نمایاں کمی کا ذکر گیا گیا تھا-30سال بہت لمباعرصہ ہے کہ اس دوران آبادی میں تو کئی گنا اضافہ ہوا مگر حیرت انگیز طور پر ہمارے پالیسی سازوں اور ”ویژنری“قائدین اور ان کے درباری سونا اگلتی زمینوں کو برباد کرنے اور ان پر کالونیاں بنانے میں لگے رہے صرف لاہور شہر کے گرد ونواح میں لاکھوں ایکڑزرعی اراضی پر آج کالونیاں کھڑی ہیں -صوبہ پنجاب جوکہ اناج گھر کہلاتا تھا خود مستقبل قریب میں دانے دانے کا محتاج نظرآتا ہے چند لوگوں کی ہوس کی وجہ سے یہ طبقات دوہرے فائدے حاصل کررہے ہیں ایک طرف یہ اپنے ہی ملک اور قوم کے خلاف عالمی مافیازکو میدان خالی کرکے دے رہے ہیں تو دوسری طرف لاکھوں میں ایکڑزکے حساب سے زمین خرید کر کروڑوں میں پلاٹوں کی صورت میں بیچ رہے ہیں -ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں قیمتی زرعی اراضی پر بے ہنگم شہر پھیلنے سے زرخیز زرعی زمینیں تیزی سے ختم ہورہی ہیں۔

(جاری ہے)

2030 تک ایشیا اور افریقہ میں پھیلتے شہرکم ازکم 3 کروڑ ہیکٹر زرعی زمینوں کو نگل جائیں گے جو فلپائن کے برابر رقبہ ہے۔ اس تحقیق کی بنیاد سال 2000 سے اب تک کے سیٹلائٹ نقشوں کا مطالعہ ہے اور انہی کی بنیاد پر اگلے 13 برس کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ عمل ایشیا اور افریقہ میں سب سے زیادہ واقع ہورہا ہے اور چین، ویت نام اور پاکستان بھی ان ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔

حیرت انگیز طور پر پاکستان اس عرصے میں 18 لاکھ ہیکٹر زرعی زمین سے محروم ہوجائے گا جو اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2000 میں دنیا جتنا اناج پیدا کررہی تھی 2030 میں زراعت تباہ ہونے سے اس کی 3 سے 4 فیصد مقدار کم ہوجائے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین، بھارت، پاکستان اور دیگر ممالک میں چاول، گندم، مکئی اور سویابین کی فصلیں زیادہ متاثر ہوں گی۔

ان میں چین اور دیگر ایشیائی ممالک کی مشترکہ طور پر 25 فیصد زرعی زمین غائب ہوجائے گی۔ پاکستان میں چھوٹے کسان زیادہ متاثر ہوں گے اور جنگلات بھی تباہ ہوجائیں گے۔ ایک جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ ایک جانب تو قیمتی زرعی اراضی شہر پھیلنے سے ختم ہوگی تو مزید نئی جگہوں کی ضرورت ہوگی جس کا بوجھ کسی ملک میں موجود جنگلات پر ہوگا اور وہاں کا حیاتیاتی نظام تباہ ہونے لگے گا لیکن یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا بلکہ جنگلات غائب ہونے سے مقامی آب وہوا پر برے اثرات مرتب ہوں گے جس کا نتیجہ عالمی پیمانے پر غذا کی فراہمی پر پڑے گا۔

دیگر ماہرین نے زور دیا ہے کہ فصلوں کو ضائع ہونے، کھانے کو پھینکنے اور غذائی رحجانات بدلنے سے بھی اس اثر کو کم کیا جاسکتا ہے۔ دیگر ماہرین فی ایکڑ پیداوار بڑھانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ غذا کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔یہ ہے وہ عالمی ایجنڈا جس کے ذریعے انسانوں کو ضرورت کی ہرچیزکے لیے محتاج بنادیا جائے گا کہ اس کے پاس ان معاشی دہشت گردوں کی چوکھٹوں پر سجدہ ریزہونے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں بچے گا-یہ انٹرنیشنل مافیازکروڑوں ‘اربوں ڈالرزکے سرمایہ کے ساتھ میدان میں اتریں گے تو چند ایکڑزمین رکھنے والا ایک غریب یا متوسط درجے کا کسان ان کا مقابلہ کیسے کرپائے گا؟دودھ کا معاملہ سب کے سامنے ہے کہ اب دیہاتوں میں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ڈبے والا دودھ ہی استعمال ہورہا ہے-میڈیا ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لونڈی سے زیادہ کچھ نہیں کہ سالانہ اربوں روپے تشہیری مہموں سے میڈیا کے گلشن کا کاروبار چلتا ہے ‘اشتہاری پارٹیوں کی ناراضگی مول لینا کسی ”مردمجاہد“کے بس میں نہیں -گفتار کے غازی شام ہوتے ہی ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور رات گئے تک تماشا جاری رہتا ہے ان میں سے کسی ایک کے اندر میں جرات رندانہ ہے کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خوفناک ایجنڈے پر بات کرئے مگر ہر ٹیلی ویژن چینل پر آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا پروگرام ضرور نظرآئے گا جومقامی صنعت‘پیدوار کو ہمیشہ منفی اندازمیں پیش کرتا ہے جس کے پیچھے مقصد خودکفالت وہ کسی بھی شعبے میں ہو اسے مکمل طور پر ختم کرنا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے راہ ہموار کرنا ہے-جن زمینوں کو برباد کرکے انسانی بستیاں بسائی جارہی ہیں ان کی حالت کچھ اس طرح ہے کہ ”خشت وسنگ کی عمارتوں کے باہر فقط ایک چیزہی بے وقعت نظرآتی ہے اور وہ ہے انسان یعنی انہی عمارتوں کا خالق مگر اپنی تخلیق پرپریشان“--- جاری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :